Express News:
2025-11-03@07:47:29 GMT

سنہرے لوگ : مشکور رضا ۔۔۔ کچھ یادیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

آج تم بھی ڈھیروں مٹی تلے جا سوئے۔

آج دوپہر جب میں واٹس اپ پر آئے پیغامات دیکھ رہی تھی کہ آرٹس کونسل سے آنے والا نمازجنازہ کا پیغام فون کے پردے پر جھلملایا۔ میں نے عادت کے مطابق پیغام کھولا، کسی ممبر کی زوجہ کے گزر جانے اور نماز جنازہ کا اعلانیہ تھا۔ اسے پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ ایک پیغام اور بھی ہے۔ پردۂ فون کو آگے بڑھانے پر جو پیغام سامنے آیا اس نے مجھے ہلا دیا۔

وہ مشکور رضا کے دنیا سے گزر جانے اور تدفین کے پروگرام کا اعلانیہ تھا۔

مشکور!

تم کئی برسوں سے ڈائیلیسس کروا رہے تھے۔ اس سلسلے میں ہفتے میں تین بار حاضری لگوانے اسپتال جاتے تھے۔ اس ایک دن آرام کرنے کے بعد دوسرے دن تم پھر رنگوں اور برش کی دنیا میں گم ہوجاتے تھے کہ رنگ، برش، کینوس اور ایزل ہی تمہاری دنیا تھی۔

آج دوپہر سے مجھے تمہاری وہ شکل بار بار یاد آرہی ہے، جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔

وہ ۱۹۷۸یا ۱۹۷۹ کی ایک نرم گرم سی صبح تھی۔ تم سفید کرتے پاجامے میں ملبوس، بالوں کو سلیقے سے جمائے، ناظم آباد کے ایک گول برآمدے والے گھر میں ہمارے منتظر تھے۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ بات بن نہیں رہی کیوں کہ میرے پانچ منٹ کی طوالت پر محیط سوال کا جواب تم آدھے منٹ میں نمٹا دیتے تھے۔ انٹرویو کا دورانیہ ایک گھنٹے کا تھا۔ مجھے ایک گھنٹے کا پیٹ بھرنا تھا اور مشکور کو جلدی اس بات کی تھی کہ کسی طرح جان چھوٹے—-

ہم دونوں ہی ایک عجیب سی کشمکش کا شکار تھے۔ ریکارڈنگ روک کے میں نے مشکور کا جائزہ لیا۔ وہ سرتاپا پسینے میں شرابور تھا۔ میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے بہت معصومیت سے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ یہ اس کی زندگی کا پہلا انٹرویو ہے۔

ان دنوں مشکور کی پینٹگنز کینیوس پر سفید بیک گراؤنڈ میں گہرے رنگوں کی abstract Sami ہوتی تھیں۔ اصل میں وہ اپنی استاد لبنی آغا سے بہت متاثر تھے، جس کا اظہار ان کے کام میں واضح نظر آتا تھا۔

ان کی زندگی کے اس پہلے انٹرویو کے کچھ عرصے بعد میں نے ان سے رسالے کے لیے انٹرویو کیا تو ان میں خاصہ اعتماد نظر آیا۔ ان کے جوابات کی طوالت بڑھ گئی تھی۔ وہ اپنے ہم عصروں کے متعلق بات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سے بڑوں کے بارے میں بھی بات کر رہے تھے——- پھر کچھ یوں ہوا کہ ہماری دوستی سی ہوگئی۔ برسوں بعد بھی کسی نمائش میں یا اِدھراُدھر ملتے تو گزرے وقت کا اپ ڈیٹ کرلیتے۔ مثلاً کون کہاں رہ رہا ہے، کیا کر رہا ہے، بچے کتنے ہوگئے، کہاں پڑھتے ہیں، کب نمائش ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

مشکور نے اپنا اسکول آف آرٹ کھولا چند سالوں بعد بند کر دیا، کسی کو بھی مورد الزام ٹھہرائے بغیر۔ کہتے تھے اسکول چلانا میرے بس کی بات نہیں۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ بس اب گھر سے کام کروں گا اور جو سیکھنا چاہتے ہیں وہ میرے گھر ہی آئیں گے۔

اس بیچ ان کے کام نے بھی کئی رخ بدلے، گھوڑے بنانے شروع کیے تو ہر ہر طرح کے گھوڑے بنا ڈالے، پھر ان گھوڑوں کو انسانی اجسام کے ساتھ ملا کے کئی کئی رنگ روپ دیے۔ اس بیچ کیلی گرافی سے بھی شوق فرماتے رہے۔ اسی درمیان انھوں نے صرف خطوط نسواں پر بھی کافی کام کیا۔ پھر جانے دماغ میں کیا سمائی کہ چاند کے ساتھ کھیلنا شروع کردیا اور چندا کی چاندنی کو روپ بہروپ دیتے دیتے اس میں بھی گھوڑے شامل کردیے۔ گھوڑوں کے اصطبل کو انھوں نے نیا رنگ یہ دیا کہ پولو کھیل کی ہر ہر زاویے سے سیکڑوں تصاویر بنا ڈالیں۔

ایک وقت یہ آیا کہ وہ ملک میں سب سے زیادہ بکنے اور کام کرنے والے آرٹسٹ کہلاتے تھے۔ ان کی نمائش کے لیے بننے والی پینٹگنز نمائش سے پہلے ہی فروخت ہوجاتی تھیں۔ ان کا کام نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتا تھا۔

چند سال پہلے تک وہ کبھی آسٹریلیا تو کبھی امریکا، کبھی مڈل ایسٹ میں ہوتے تھے۔ میں اکثر کہتی تھی مشکور تم تو بس ہوا ہی میں رہتے ہو۔

اس بیچ ان کی بچیاں بڑی ہوگئیں۔ ہر چند سال بعد کسی نہ کسی کے پیادیس جانے کی خبر سناتے۔

ان میں تصنع بالکل نہ تھا، دھیمے لہجے میں مسکرا مسکرا کے بولتے، جب بھی پینٹنگ کے مول تول پر میری بحث ہوتی تو آخری جواب ہوتا ایسے ہی لے جاؤ، پتا تھا کہ میں ایسے ہی کبھی نہیں لے جاؤں گی۔

میں اکثر کہتی مشکور! آپ کو اندازہ ہے ناں کہ میر ے خاندان میں آپ کی پینٹگنز اتنی ہیں کہ ہم سب ملاکے آرام سے ایک گیلری کھول سکتے ہیں، دھیمے سے ہنس کے کہتے میں مانتا ہوں۔

کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہوگی مشکور سے فون پر بات ہورہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ ان کی سانس بہت پھولی ہوئی ہے، میرے توجہ دلانے پر جواب دیا،’’مجھے بھی کبھی کبھی احساس ہوتا ہے۔‘‘ میں نے ان سے پوچھا بلڈپریشر ٹھیک رہتا ہے؟ کچھ رک کے کہا،’’کبھی کبھی بڑھ جاتا ہے۔‘‘ میں نے زور سے کہا کبھی کبھار تو آپ چیک کرتے ہوں گے، دوا کھاتے ہیں، جواب انکار میں ملا۔ میں نے بہت ڈرایا، دھمکایا اور کہا کہ آپ فوراً کسی کارڈیولوجسٹ سے ملیں۔

چند ہفتوں بعد بات ہوئی آواز سنتے ہی کہا،’’شور مت کرنا، ڈاکٹر سے ملا تھا، اس نے کچھ ٹیسٹ کروائے ہیں اور کہا ہے کہ آپ کے گردوں کا مسئلہ لگتا ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا، اسی بات کا ڈر تھا، تو جواب ملا، لیکن میں اب دوا برابر کھاتا ہوں۔ میں نے دل میں کہا، دیر کردی مہرباں۔

اب بات پینٹگنز اور نمائشوں سے زیادہ دواؤں اور ڈاکٹروں کی ہونے لگی۔

چند سال پہلے ان کے گھر گئی کہ انھوں نے آدھے گھر کو اسٹوڈیو اور گیلری بنا لیا تھا۔ چند باتوں کے بعد کہنے لگے،’’تم کو پتا ہے میرے ساتھ کیا ہوا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا،’’کیا اغوا ہوگئے تھے؟‘‘ زور سے قہقہہ لگا کے جواب دیا،’’کچھ ملتی جلتی واردات ہوئی تھی۔‘‘ کیا مطلب؟ سہج سہج انھوں نے ڈی ایس پی راؤ انوار کے دو تین پولیس موبائلز کے ساتھ گھر آنے، گیلری میں دھماچوکڑی کرنے، مختلف پینٹگنز کے اٹھانے، بنا ادائی گاڑیوں میں ڈالنے اور مطالبہ کرنے پر ایک نام ور سیاست داں کی پسندیدگی کا حوالہ دینے کا مکمل قصہ سنایا۔

میں نے بے چینی سے پوچھا،’’کم بختوں نے کچھ نہیں دیا۔‘‘ دھیمے سے کہا،’’بہت حجت کے بعد ساڑھے تین لاکھ، میری پینٹنگز تو پندرہ سولہ لاکھ کی لے گئے۔‘‘

میں نے غصے سے کہا تمہیں پریس کانفرنس کرنی چاہیے تھی۔

’’میں یہ سب کام نہیں کر سکتا۔ بس میں نے گارڈ بٹھا دیے ہیں اور بنا اطلاع آنے والوں سے نہیں ملتا، گارڈ کہہ دیتے ہیں میں گھر پر نہیں ہوں، گیلری بند ہے۔‘‘

باتیں اور یادیں ہیں کہ پرے باندھے چلی آرہی ہیں۔

مشکور بہت ہی منکسر المزاج انسان تھے۔ کبھی کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتے تھے۔

میرے خیال میں وہ پاکستان کے واحد مصور تھے جن کے ہاں ہر آرٹسٹ کا کام آویزاں نظر آتا ہے۔ وہ بہت فخریہ کہتے تھے میں اپنے ہم عصروں کا کام خریدتا ہوں۔ اگر ہم ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی نہ کریں گے تو پھر کون کرے گا۔

گذشتہ چند سالوں سے گردے کی صفائی کے عمل سے گزرنے کے باعث ان کے کام کی رفتار خاصی متاثر ہوئی تھی۔ پینٹنگز کا سائز چھوٹا ہوگیا تھا، رفتار دھیمی ہوگئی تھی، نیا کام کم کر رہے تھے۔

مشکور کا کام مشکور ہی کا تھا، پاکستان کے سیکڑوں خوش حال گھروں کی دیواریں ان کے کام سے مزین ہیں۔

موت برحق ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ ہم پیدا ہی مرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ پھر بھی کچھ کا مرنا عجیب سا خلاء چھوڑ جاتا ہے۔ مشکور رضا تم بھی ان ہی میں سے ایک ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ان کے کام انھوں نے کے ساتھ چند سال سے کہا کا کام

پڑھیں:

دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب

پاکستان ٹیلی ویژن نے 61 برس کے سفر میں بہت سے ایسے منفرد کردار متعارف کروائے ہیں جنہوں نے ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دل میں بسیرا کر لیا۔ ٹی وی اور دنیا کی اسکرین سے ہٹ جانے کے بعد بھی یہ کردار لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہو سکے۔ بعض کی یاد میں ان کی ناگہانی موت نے درد کا رنگ پیدا کردیا۔ اس طرح کی ایک ہر دلعزیز شخصیت معروف کمپیئر دلدار پرویز بھٹی کی ہے، جن کی اکتیسویں برسی جمعرات کو منائی گئی۔ میرے لیے انہیں یاد کرنے کی وجہ 1999 میں شائع ہونے والی کتاب ‘دلبر دلدار’ بنی ہے جسے پنجابی کے معروف لیکھک حسین شاد نے مرتب کیا تھا۔

کسی کی یاد دیرپا بنانے کے لیے کتاب سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں کئی ذائقے ہیں، دلدار کے بڑوں، ہم عصروں اور دوستوں نے بڑی محبت سے انہیں یاد کیا ہے۔ نمونے کے طور پر دلدار کے بیس کالم بھی ہیں۔ یہ سب نگارشات بہت اہم ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دلدار پرویز بھٹی سے الفت کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔

میرے لیے اس کتاب میں توشہ خاص دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادداشتوں کے چند صفحات ہیں جن میں اپنے حالات بیان کرنے لیے جو پیرایہ اظہار اختیار کیا گیا ہے وہ معاشرے کے اس انتشار کی کہانی بن جاتا ہے جس کا آغاز قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اس لکھت کی اٹھان خبر دیتی ہے کہ اگر یہ پایہ تکمیل کو پہنچتی تو ایک منفرد آپ بیتی ہمارے سامنے آتی۔ اس کا پہلا پیراگراف ذرا ملاحظہ کیجیے:

‘میرا خاندان بہت مختصر تاریخ رکھتا ہے، میرے بزرگ محمد بن قاسم کے ساتھ نہیں آئے تھے نہ شاہوں کی اولاد تھے۔ ہم نے قائداعظم سے کبھی ملاقات نہیں کی نہ ہی انہوں نے یا کسی مرد قلندر نے ہمیں خواب میں بشارت دی۔ ہم نے پاکستان بالکل نہیں بنایا نہ اس کے لیے کوئی قربانی دی، یہ ہمیں بنا بنایا مل گیا تھا، تایا فوج میں تھے۔ ہمارا قافلہ لٹنے پٹنے سے بچ گیا (افسوس) یہاں آکر مزے سے پراٹھے کھائے، گھر الاٹ کرایا اور گوجرانولہ میں دوبارہ آباد ہو گئے۔ دوبارہ اس لیے کہ ہم یہیں سے نقل مکانی کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ ابا کو ایک دفعہ تانگے میں سوار ہوتے ہوئے ایک گولی لگتے لگتے رہ گئی یہ گولی اس ٹانگ کو نشانہ بنا رہی تھی جو وہ پائیدان پر رکھ چکے تھے، چلانے والا کوئی اناڑی بدمست سکھ تھا ورنہ زخمی ٹانگ کے بدلے لیاقت علی خان سے ایک آدھ مربع تو مل ہی جاتا اصل میں ہماری ساری زندگی ایسے ہی مس چانسز سے عبارت ہے۔‘

امرتسر کی حکایت بھی اسی طرز میں بیان ہوئی ہے جس کے قصے انہوں نے اپنی والدہ اور بڑے بھائی سے سنے تھے جن سے ان کے والد نثار علی بھٹی ایڈووکیٹ کے سکھوں اور ہندوؤں سے خوشگوار تعلقات اور محلے کے مکینوں کے دل میں ان کے لیے پائی جانے والی تکریم کا پتا ملتا ہے، گاؤں میں اپنی یاد زندہ رکھنے کے لیے وہ اپنے دادا کے حسنِ عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:

‘گاؤں چھوڑنے کے غم کو دادا نے اسی گلی میں کنواں کھدوا کر غلط کیا، اس کنویں پر شطرنج اور چوسر کی بازی لگتی اور کیا بڑا کیا چھوٹا بلا امتیاز مذہب سب مل بیٹھتے۔’

فسادات میں محبت کے نفرت میں بدلنے کا تذکرہ بھی وہ کرتے ہیں، خاندانی روایات کے علاوہ امرتسر کے بارے میں ان کی معلومات کا ماخذ اے حمید اور خواجہ افتخار کی کتابیں تھیں۔

گوجرانولہ میں سینٹ میری اسکول کی مسیحی استانیوں کو وہ بڑی محبت سے یاد کرتے ہیں جو ان کے بقول ‘ٹافیاں چاکلیٹ بھی دیتی تھیں اور مسکراہٹیں اور شاباشیں بھی، سب سے اچھی اور پیاری نیلی آنکھوں والی سسٹر وکٹرین تھیں، لمبا قد اور پیار ہی پیار۔ پیانو پر بیٹھ جاتیں اور ہم سب اے بی سی ڈی گاتے۔’

وہ اس اسکول پر عیسائیت پھیلانے کا الزام مسترد کرتے ہوئے اپنے ہاں کے پرائیوٹ انگریزی اسکولوں پر کاٹ دار تبصرہ کرتے ہیں:

‘اب تو گھر گھر انگریزی اسکول کھل گئے ہیں، میٹرک فیل ماہر تعلیم ان کو چلا رہے ہیں، ڈبل فیس پر بچے، آدھی تنخواہ پر استانیاں، ایک آدھ اچھی سی استانی سے دوسری شادی اور دنوں میں لکھ پتی اب کوئی ان اسکولوں کے خلاف نہیں بولتا۔’

دلدار پرویز بھٹی میں ریڈیو اور ٹی وی پر کام کرنے کی فطری صلاحیت کا اظہار بھی ان کے بچپن میں ہونے لگا تھا، ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔

لکھتے ہیں: ‘اداکار میں بچپن ہی سے تھا، بس اشارے کی دیر تھی، بیٹا آنکھ مارو، انگریز کیسے سیگریٹ پیتے ہیں، شیر کیسے گرجتا ہے، سردی کیسے لگتی ہے، جیسے چھوٹے چھوٹے اشاروں پر فوراً عمل کرتا، کان مروڑنے پر فوراً ریڈیو بن جاتا اور خبریں، گانے اور سارے دن کے واقعات اگلنے شروع کر دیتا۔’

اب ہم ان کی ادھوری خودنوشت سے ان کی وفات سے قریباً 2 ماہ پہلے فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہونے والے انٹرویو کی طرف بڑھتے ہیں جو گزشتہ دنوں اس اخبار کی پرانی فائلوں کی ورق گردانی کے دوران میری نظروں سے گزرا۔

اس سے اسکول کے زمانے میں ان کی رومانوی طبیعت کی جھلک سامنے آتی ہے، ان دنوں اداکارہ ثریا ان کے خوابوں کی شہزادی تھی اور تصورات کی دنیا میں کافی عرصہ ان کی بیوی بھی رہیں۔ ان کی دادی نے یقین دلا رکھا تھا کہ ثریا اس لیے شادی نہیں کررہیں کہ دلدار کے بڑے ہونے کا انتظار ہو رہا ہے۔

اس انٹرویو میں دلدار نے بتایا ہے کہ ریڈیو پر اناؤنسر کے لیے آڈیشن انہوں نے پاس کر لیا تھا لیکن وہ ریڈیو جوائن نہیں کر سکے کیوں کہ ان کے والد چاہتے تھے وہ پہلے ایم اے انگریزی کریں سو اس خواہش کا احترام کیا اور لیکچرار بن گئے۔ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ دنیا میں دو زبانیں اہم ہیں۔ پنجابی لوگوں کے دلوں کو گرفت میں لیتی ہے اور انگریزی ان کے دماغوں پر تصرف جماتی ہے۔

ان سے کامیاب کمپیئر ہونے کے باوجود پرائم ٹائم میں شاذو نادر نظر آنے کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ وہ اوپر والوں کو مکھن نہیں لگاتے، ان کی کوئی پی آر نہیں ہے اور وہ دوسروں کی طرح پیپلز پارٹی کے چمچے نہیں بن سکتے۔ ان کے خیال میں اسی بنا پر لوگ انہیں جمہور میلے اور جشن آزادی کی تقریب میں نہیں دیکھ سکے۔

دلدار کو پاکستان میں کمپیئرنگ میں نیا اسٹائل متعارف کروانے پر نہ صرف ناز تھا بلکہ ان کی دانست میں دوسروں نے اس کی تقلید کی، وہ صرف ضیا محی الدین کے اسٹائل کو مختلف قرار دیتے تھے، جسے دلدار کے خیال میں انہوں نے مغرب سے مستعار لیا۔

دلدار پرویز بھٹی نے بتایا کہ ان کے والد کا رنگ پکا جبکہ والدہ کا صاف تھا۔

رنگ کے معاملے میں بھائی والد اور بہنیں والدہ پر گئیں جس کی وجہ سے دلدار کے والد ازراہِ تفنن ان کی والدہ کو اکثر چھیڑتے تھے۔ کالے رنگ کی وجہ سے خاندان اور اس سے باہر بھی انہیں تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا۔ احساسِ کمتری سے بچانے کے لیے ان کی والدہ ہمیشہ انہیں چاند کا ٹکڑا کہا کرتی تھیں اور اس بات پر یقین سے وہ کالے رنگ کے خلاف تعصب کا مقابلہ کر سکے، اس لیے فرنٹیئر پوسٹ کو انٹرویو میں انہوں نے خود کو پیدائشی نرگسیت پسند بتایا تھا۔

اس پروفائل میں 23 مارچ 1978 کو ان کی شادی کا بھی تذکرہ ہے جس سے مجھے دلدار کے یار عزیز امجد اسلام امجد کے مضمون میں درج ان کی شادی سے جڑا ایک قصہ یاد آتا ہے جو ان کے سعادت مند ہونے کا ثبوت ہے۔

امجد صاحب کے بقول ‘اس کی شادی کا دن تھا، بارات گوجرانولہ سے ہمارے ہمسائے میں آنا تھی، سو طے پایا کہ ہم بھابھی کے گھر کے سامنے ایک جگہ جمع ہو جائیں اور وہیں سے بارات میں شامل ہوں، کچھ دیر بعد اطلاع ملی کہ بارات پہنچ گئی ہے، لیکن دولہا گاڑی سے اتر کر کہیں چلا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بارات ہمارے گھر کے سامنے رکی تھی اور دولہا ہماری والدہ کو سلام کرنے اور ان کی دعا لینے ہمارے گھر گیا تھا کیونکہ والدہ علالت کی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہو سکتی تھیں۔’

امجد اسلام امجد کی دلدار سے 25 سالہ دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ایم اے او کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ امجد صاحب کے بقول: ‘دوستی بھی ایسی جیسی اسکول کے لڑکوں میں ہوتی ہے کہ دوست دن کو رات کہے تو آپ ستارے گننا شروع کردیں۔’

امجد اسلام امجد سے دلدار کا گہرا یارانہ تھا اور احمد ندیم قاسمی سے ان کی ارادت مندی تھی، ایک دن وہ ان حضرات کو بااصرار سوپ پلانے چینی ریستوران میں لے گئے جہاں سے باہر نکلنے پر فقیر ان سے پیسے مانگنے لگا، اس نہ جب بہ تکرار یہ کہا :

‘بادشاہ کچھ دیتا جا’

اس پر دلدار پرویز بھٹی کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے ہاتھ جوڑ کر فقیر سے کہا ‘ابھی کچھ دیر پہلے تک میں واقعی بادشاہ تھا مگر اب ان لوگوں (مراد قاسمی صاحب اور امجد صاحب) نے مجھے تمہاری طرح فقیر کردیا ہے۔ اس لیے معاف کرو۔’

امجد اسلام امجد نے نثر کے ساتھ ساتھ نظم میں بھی ہمدمِ دیرینہ کو بڑی محبت سے یاد کیا ہے:

وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا

(دلدار پرویز بھٹی کے لیے ایک نظم)

کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا

وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا

قہقہے بانٹتا پھرتا تھا گلی کوچوں میں

اپنی باتوں سے سبھی درد بھلا دیتا تھا

اس کی جیبوں میں بھرے رہتے تھے سکے، غم کے

پھر بھی ہر بزم کو گلزار بنا دیتا تھا

ہر دکھی دل کی تڑپ

اس کی آنکھوں کی لہو رنگ فضا میں گھل کر

اس کی راتوں میں سلگ اٹھتی تھی

میری اور اس کی رفاقت کا سفر

ایسے گزرا ہے کہ اب سوچتا ہوں

یہ جو پچیس برس

آرزو رنگ ستارے کی طرح لگتے تھے

کیسے آنکھوں میں اتر آئے ہیں آنسو بن کر

اس کو روکے گی کسی قبر کی مٹی کیسے

وہ تو منظر میں بکھر جاتا تھا خوشبو بن کر

اس کا سینہ تھا مگر پیار کا دریا کوئی

ہر دکھی روح کو سیراب کیے جاتا تھا

نام کا اپنے بھرم اس نے کچھ ایسے رکھا

دل احباب کو مہتاب کیے جاتا تھا

کوئی پھل دار شجر ہو سرراہے، جیسے

کسی بدلے، کسی نسبت کا طلب گار نہ تھا

اپنی نیکی کی مسرت تھی اثاثہ اس کا

اس کو کچھ اہل تجارت سے سروکار نہ تھا

کس کا ہمدرد نہ تھا، دوست نہ تھا، یار نہ تھا

وہ فقط میرا ہی دلدار نہ تھا

دلدار پرویز بھٹی نے ٹی وی پر اداکاری کی، خبریں پڑھیں لیکن انہیں احساس ہوا کہ ان کا اصل میدان کمپیئرنگ ہے۔ ‘ٹاکرا’ سے انہیں پہچان ملی اور پھر ‘میلہ’ اور ‘پنجند’ سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ پنجابی کمپیئرنگ میں وہ اپنے اسٹائل کے مؤجد بھی تھے اور خاتم بھی۔ ان کے بعد پنجابی میں کمپیئر آتے رہے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔

انسانی شخصیت کی تعمیر میں مادری زبان کا بنیادی کردار ہوتا ہے، یہ آپ کے ذہن کو جلا بخشتی ہے جس کے بعد آپ دوسری زبانوں سے علاقہ پیدا کرکے ذہنی افق وسیع کرتے ہیں۔

دلدار پرویز بھٹی کی وجہ شہرت ان کے پنجابی پروگرام بنے لیکن دوسری زبانوں سے بھی ان کا برابر ربط ضبط رہا۔ کالج میں وہ انگریزی کے استاد تھے۔ اردو میں کالم لکھتے تھے۔ اس لیے بیک وقت تین زبانوں سے ان کا معاملہ رہتا تھا جس سے ان کی طبیعت میں کشادگی پیدا ہوئی۔

انٹرنیٹ پر ان کی ویڈیوز سے آپ ان کی حاضر دماغی اور بذلہ سنجی کے نمونے دیکھ کر آج بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔

ایک ویڈیو میں وہ دوسروں کی کمال مہارت سے نقل اتارتے ہیں اور ان کے برابر بیٹھے معروف ٹی وی پروڈیوسر یاور حیات بھی ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر ‘پنجند’ کے ایک کلپ سے ان کے پروگرام کے تنوع کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔

اس میں ہماری ملاقات پنجابی کے معروف فکشن نگار، شاعر اور مترجم افضل احسن رندھاوا سے ہوتی ہے۔ ببو برال اور نشیلا کی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ لکڑی سے مجسمے بنانے والے ہنرمند سے دلدار گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، ایک خاتونِ خانہ سے کھانے کے بارے میں پرلطف مکالمہ ہوتا ہے۔

دلدار پرویز بھٹی کے فنی کمالات کا سب اعتراف کرتے ہیں، استاد اور لکھاری کی حیثیت سے بھی معروف ہوئے، ان کے شخصی محاسن بھی بہت تھے لیکن ان کی ذات کی ایک خوبی جو ان کی وفات کے بعد اس وقت کھل کر سامنے آئی جب ان کی مالی اعانت سے مستفید ہونے والے ضرورت مندوں اور ناداروں نے ان کے مرنے پر گریہ کیا اور دنیا نے جان لیا کہ دلدار کتنوں کے چارہ ساز تھے۔

زندگی کی آخری سانسوں تک وہ انسانیت کی خدمت میں جٹے رہے اور انہیں اجل کا سندیسہ اس وقت ملا جب وہ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی چندہ اکٹھا کرنے کی مہم کے لیے امریکا میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے اور روشن دماغ دلدار کو برین ہیمبرج ہم سے ہمیشہ کے لیے دور لے گیا تھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews ادھوری یادیں پاکستان ٹیلی ویژن دلدار پرویز بھٹی محمودالحسن وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • دلدار پرویز بھٹی کی ادھوری یادیں اور ایک کتاب