سمندر کے راستے شہریوں کو یورپ بھجوانے والے 2 انسانی اسمگلرز گرفتار WhatsAppFacebookTwitter 0 24 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد: فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی ( ایف آئی اے) نے سمندر کے راستے شہریوں کو لیبیا اور موریطانیہ سے یورپ بھجوانے والے 2 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کرلیا۔

ترجمان ایف آئی اے گجرانوالہ کے مطابق گرفتار انسانی اسمگلرز کی شناخت شفقت علی اور رضوان کنول کے نام سے ہوئی۔ ملزمان کو پھالیہ اور کھاریاں سے گرفتار کیا گیا۔ملزم شفقت علی شہریوں کو بیرون ملک بھجوانے کے لیے لاکھوں روپے بٹورنے میں ملوث پایا گیا۔ ملزم نے شہریوں کو اسپین ملازمت کا جھانسہ دے کر 50 لاکھ روپے سے زائد رقم وصول کی ۔

ایف آئی اے گوجرانوالہ کے مطابق ملزم کے خلاف 2 مقدمات درج تھےجس نےشہریوں کو اسپین بھجوانے کے بجائے موریطانیہ بھجوایا۔ملزم نے شہریوں کو موریطانیہ سے سمندر کے راستے اسپین بھجوانے کی کوشش کی۔شہریوں نے کشتی کے ذریعے سفر کرنے سے انکار کیا اور پاکستان واپس آ گئے۔

ایک اور کارروائی میں رضوان کنول کو قادر آباد پھالیہ سے گرفتار کیا گیا۔ ملزم متعدد شہریوں کو بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دے کر لاکھوں روپے بٹورنے میں ملوث پایا گیا۔ ملزم نے شہریوں کو ابتدا میں لیبیا بھجوایا ۔لیبیا پہنچنے پر ملزم اور اس کے ساتھیوں نے شہریوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس دوران ملزمان شہریوں پر تشدد کرتے رہے اور شہریوں کے خاندان والوں سے تاوان بھی وصول کیا۔

ترجمان ایف آئی اے گوجرانوالہ کے مطابق ملزمان نے شہریوں کو کشتی کے ذریعے اٹلی بھجوانے کی کوشش بھی کی۔ ملزم کمپوزٹ سرکل گجرات کو 4 مقدمات میں مطلوب تھا۔ملزمان کو گرفتار کر کےملزمان کے دیگر ساتھیوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: انسانی اسمگلرز سمندر کے راستے شہریوں کو

پڑھیں:

تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 جون 2025ء) اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے سمندر (یو این او سی 3) کے دوران یو این نیوز کے نمائندوں کو جنوب مشرقی فرانس کے سمندر (فرنچ راویرا) میں ناروے کے 111 سال پرانے بحری جہاز پر جانے کا موقع ملا جس پر سائنس کے 50 طلبہ، معلمین اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والے شہری سوار تھے۔

اس مہم میں یورپی خلائی ادارے (ای ایس اے) کی سیٹلائٹ کے ذریعے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ان لوگوں کے مشاہدات سمندروں کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے اور انہیں تحفظ دینے کی ہنگامی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

فرانس کے قدیم شہر نیس میں تین مستولوں والا 98 میٹر طویل یہ بحری جہاز گزشتہ ہفتے لیمپیا کی بندرگاہ پر پہنچا جہاں ان دنوں یہ کانفرنس جاری ہے۔

(جاری ہے)

1914 میں بنایا گیا یہ جہاز (سٹیٹسراڈ لیمخول) 1921 سے فرانس کی ملکیت ہے۔ جہاز کو یہ نام ناروے کے سابق وزیر کرسٹوفر لیمخول کے نام پر دیا گیا ہے اور اسے گزشتہ سال سمندری سائنس کے جدید ترین آلات سے مزین کر کے تیرتی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد یہ جہاز اب جدید ترین تحقیقی پلیٹ فارم بن گیا ہے جس کے ذریعے سائنس دان، طلبہ اور محققین سمندر کے اسرار کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس جہاز کی دوسری سمندری مہم 11 اپریل کو ناروے کے ساحلی علاقے برگن سے شروع ہوئی تھی جس کا مقصد سمندری سائنس، تعلیم اور استحکام کو یکجا کرنا ہے۔ مہم کے ذریعے تمام لوگوں کے پائیدار مستقبل کے لیے سمندروں کے اہم کردار کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے کے علاوہ متعلقہ علم کے تبادلہ کیا جانا ہے۔

متوقع طور پر یہ مہم ایک سال کے بعد برگن میں ہی ختم ہو گی۔

یہ مہم سمندری سائنس کے ذریعے پائیدار ترقی کے لیے منائی جانے والی اقوام متحدہ کی دہائی کا حصہ ہے۔ یہ دہائی ایک ایسا عالمگیر اقدام ہے جس کے ذریعے سمندری صحت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جانا ہے اور یہ مہم 'ای ایس اے' کے ایک جدید تربیتی کورس کی شراکت سے چلائی جا رہی ہے جس میں طویل فاصلے سے جدید آلات کے ذریعے سمندر کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس شراکت کے تحت 28 ممالک کے طلبہ کو بھی مہم کا حصہ بنایا گیا ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعے اور براہ راست سمندر سے حاصل کردہ معلومات کے موازنے میں مدد دیتے ہیں۔ ESA/Ocean Media Lab خلائی۔

سمندری ہم آہنگی

اس مہم کی قیادت کرنے والے 'ای ایس اے' کے سمندری سائنس دان کریگ ڈونلون کا کہنا ہے کہ سائنس، سمندری کھوج اور جہازرانی کی روایات کو یکجا کرنا سطح آب سے زیر سمندر جھانکنے کا بہترین طریقہ ہے۔ انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ اس مہم میں سیٹلائٹ سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں جہاز پر ہونے والی تحقیق میں مدد لی جاتی ہے اور طلبہ یہ جان سکتے ہیں کہ سمندر کے کون سے حصے میں مزید اور بہتر جانچ کی جا سکتی ہے۔

'ای ایس اے' خلا سے حاصل کردہ معلومات کو روزانہ جہاز تک بھیجتی ہے جن کا تجزیہ کرنے میں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جہاز کا کپتان اسے مطلوبہ مقام پر لے جاتا ہے۔

طلبہ کی کڑی محنت کا صلہ

ڈونلون نے یو این نیوز کو بتایا کہ سمندری کھوج کے لیے استعمال ہونے والے جدید آلات کے ذریعے پانی کی حرکت ماپی جاتی ہے، زیرآب آوازوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس پانی کی خصوصیات سے آگاہی حاصل کر کے خفیہ سمندری حرکیات کا پتا چلایا جاتا ہے۔

طلبہ اس طریقہ کار کے ذریعے طبعیات اور حیاتیات میں اپنی تحقیق کے نتائج کو یکجا کر کے دیکھتے اور فضائی۔سمندری تعامل کو مدنظر رکھے کر اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ یہ کام انفرادی طور پر یا مختلف مںصوبوں پر اجتماعی انداز میں کرتے ہیں۔ ان میں داخلی اور الگ تھلگ سمندری لہریں، پانی کے بہاؤ اور اس پر اثرانداز ہونے والے عوامل اور حیاتیاتی ماحولیاتی تنوع کے جائزے جیسے مںصوبے شامل ہیں۔

ڈونلون کہتے ہیں کہ یہ کام آسان نہیں ہوتا کیونکہ ان طلبہ اور محققین کو آٹھ گھنٹے جہاز کے عرشے پر رہنا پڑتا ہے اور باقی وقت وہ کھانا کھاتے اور سوتے ہیں۔ لیکن وہ اکٹھے کام کرنے کے طریقے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں چیزوں کی جانچ کرتے ہیں۔ اس مہم اب تک 15 ٹیرابائٹ معلومات جمع کی جا چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بہت قابل قدر کام ہے جس کی بدولت سائنسی شہادتوں کی بنیاد پر معلومات پر مبنی پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سمندر انسانوں کے لیے ہیں اور سبھی کو ان کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا سیکھنا ہو گا کیونکہ یہ خوبصورت ہونے کے ساتھ نہایت کمزور بھی ہیں۔ انہیں کوڑا کرکٹ تلف کرنے کی جگہ نہیں بنانا چاہیے۔ UN News/Heyi Zou خلا باز کی سمندری مہم

جہاز پر موجود نوجوان محققین میں پبلو الواریز بھی شامل ہیں۔

وہ 'ای ایس اے' میں زیرتربیت خلاباز ہیں جنہوں نے 2030 سے پہلے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر جانا ہے۔ خلا کی وسعتوں کو کھوجنے سے پہلے وہ اس جہاز پر رہ کر اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانا اور سمندروں کے اسرار بارے اپنے علم کو بڑھانا چاہتے ہیں۔

وہ طویل فاصلے سے سمندری تہہ کو جانچنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ سیٹلائٹ سے حاصل شدہ معلومات کے ذریعے وہ سمندر کی سطح، اس پر ہواؤں کی صورتحال اور سمندری حرکیات کے بارے میں کھوج لگاتے ہیں۔

اس طرح سائنس دانوں اور خلابازوں کو ایسی بیش قیمت معلومات ملتی ہیں جن سے سمندری پانی کی نقل و حرکت کے بارے میں پیش گوئی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

الواریز کا کہنا ہے کہ اس مہم کے ذریعے سمندری اور زمینی نظام کی سائنس دونوں بارے انسانی علم میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھوج لگانا اور اپنے ماحول اور کائنات کو سمجھنا سائنس سے وابستہ لوگوں کے ڈین این اے میں شامل ہے۔

سمندری سائنس اور خواتین

جہاز پر موجود طلبہ میں جرمنی کی لینا شیفیلڈ بھی شامل ہیں جن کے لیے یہ مہم نہایت متاثر کن ہے۔ وہ یہ دیکھ کر خود کو بااختیار محسوس کرتی ہیں کہ یہاں خواتین طلبہ کی تعداد اپنے مرد ساتھیوں سے زیادہ ہے جسے اس شعبے میں غیرمعمولی اور بامعنی تبدیلی کہا جا سکتا ہے جہاں عام طور پر مردوں کا غلبہ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سائنس اور بالخصوص سمندری کے شعبے میں مزید بڑی تعداد میں خواتین کی ضرورت ہے۔

شیفیلڈ کا کام سمندر میں پلاسٹک کے باریک ذرات کی بڑھتی ہوئی مقدار پر مرکوز ہے۔ انہوں نے یو این نیوز کو کو بتایا کہ اس سفر سے انہیں اپنی تعلیم میں بھی مدد ملی۔ مہم میں وہ مختلف سمندروں کا سفر کر رہے ہیں جس کا آغاز بحیرہ ناروے سے ہوا اور پھر بحیرہ منجمد شمالی سے ہوتے ہوئے وہ بحیرہ اوقیانوس کی جانب گئے اور اب بحیرہ روم میں آ گئے ہیں۔

اس تمام سفر میں انہیں سمندروں کے اندر پلاسٹک کی آلودگی کے بارے میں بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئیں اور بحیرہ روم میں پلاسٹک کے ایسے نمونے ملے جنہیں زیرآب باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات کا حجم 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے اور ان میں بیشتر ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ شیفیلڈ کا کام ابھی شروع ہی ہوا ہے اور اس کے نتائج بارے اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا۔

وہ پلاسٹک کے نمونے جمع کر رہی ہیں اور سفر کے آخر میں خوردبینی تجزیے کے ذریعے جانیں گی کہ زیرآب دراصل کتنا پلاسٹک موجود ہے اور مختلف جگہوں پر پائے جانے والے ان ذرات کی جانچ سے یہ اندازہ بھی لگا سکیں گی کہ اس نے بڑے پیمانے پر سمندر کو کس قدر آلودہ کر رکھا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پانی ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے جس کی سطح پر موجود پلاسٹک بھی بہاؤ کے ساتھ حرکت کرتا رہتا ہے۔

اس مہم میں ایک خاص طریقے سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ یہ پلاسٹک کہاں سے آیا اور یہ نہایت دلچسپ عمل ہو گا۔ UN News/Heyi Zou پائیدار سمندر: ایک لازمی ضرورت

'سٹیٹسراڈ لیمخول' پر سفر کرنے والے بہت سے طلبہ اس تربیتی کورس میں شمولیت پر بہت ممنون ہیں اور انہوں نے 'یو این او سی 3' کے حوالے سے اپنے خیالات اور تجربات کے تبادلے کا موقع ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔

ڈونلون کا کہنا ہے کہ انہوں نے طلبہ کو یہ کام سونپا ہے کہ وہ لوگوں کو سمندر کی جانب لائیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے سمندر پیٹر تھامسن سے رابطہ کیا ہے جنہوں نے اس کورس کو چلانے کا اختیار دیا اور وہ اس سے کام لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 'یو این او سی 3' ایسی جگہ ہے جہاں سبھی جمع ہو کر سمندروں کے تحفظ سے متعلقہ موضوعات پر بات چیت کرتے اور اس ضمن میں ملکی سطح پر پالیسیاں بنانے کا کام لیتے ہیں۔

یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں اس کانفرنس میں سائنس کی بنیاد پر فیصلوں اور بات چیت سے زندگیوں اور معاشروں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی اور اس کے ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے ماحول کا تحفظ بھی ممکن ہو گا۔ پائیدار سمندر تعیش نہیں بلکہ لازمی ضرورت ہے۔ صاف نیلے سمندر کے بغیر سرسبز زمین کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری
  • آرٹیفیشل جیولری کو قیمتی طلائی زیورات بنا کر فروخت کرنے والے میاں بیوی گرفتار
  • امریکی کے سمندر میں آتش فشاں کبھی بھی پھٹ سکتا ہے، ماہرین کا انتباہ
  • جوہری معاہدے پر بڑھتی کشیدگی، ایران کی یورپ اور امریکہ کو وارننگ
  • کراچی، رکشہ اور سوزوکی سمیت چھینے گئے قربانی کے جانور برآمد، 3 ملزمان گرفتار
  • بھارتی خفیہ ایجنسی را کیلئے کام کرنے والے 3 دہشتگرد گرفتار
  • کراچی میں قربانی کے جانور چھیننے والے گینگ کے 3 ملزمان گرفتار
  • کراچی: رکشہ اور سوزوکی سمیت چھینے گئے قربانی کے جانور برآمد، 3 ملزمان گرفتار
  • عید پر دہشتگردی کا منصوبہ بنانے والے 3 دہشتگرد گرفتار، سی ٹی ڈی
  • حافظ آباد: گینگ ریپ کے ملزم کی ہلاکت پر عوام کا جلوس سی ٹی ڈی کے حق میں جلوس