سینیٹ قائمہ کمیٹی: چولستان کو 211 ارب جاری ہوسکتے ہیں مگر کراچی کو پانی دینے کیلئے فنڈز نہیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
کراچی:
سینیٹ قائمہ کمیٹی نے کراچی کے سب سے بڑے پانی کے منصوبے کے فور کی سست روی پر رپورٹ طلب کرلی۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس سینیٹر شہادت اعوان کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں دریاؤں پر تجاوزات، پانی کے بہاؤ اور سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سینیٹر خلیل طاہر نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈیڑھ سال سے ایک کمپنی نے کے فور منصوبے پر کام بند کر رکھا ہے، منصوبے پر اربوں روپے کی لاگت آئے گی۔
سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ چولستان کنال کے لیے 211 ارب روپے کے فنڈز جاری ہو سکتے ہیں لیکن کراچی کے تین کروڑ شہریوں کے پانی کے منصوبے کے لیے فنڈز نہیں دیے جا رہے۔
قائمہ کمیٹی نے وزارت آبی وسائل سے کے فور منصوبے پر تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ واپڈا، سندھ حکومت اور پلاننگ کمیشن آئندہ اجلاس میں منصوبے کی پیش رفت پر تفصیلات فراہم کریں۔
سیکرٹری آبی وسائل نے کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری اطلاعات کے مطابق منصوبے پر کام جاری ہے، تاہم فنڈز کی کمی کے باعث تاخیر کا سامنا ہے۔ چئیرمین کمیٹی نے واضح کیا کہ اگر منصوبے پر کام تیزی سے مکمل نہ ہوا تو وفاقی حکومت کو اس معاملے سے آگاہ کیا جائے گا۔
اجلاس کے دوران فیڈرل فلڈ کمیشن نے کمیٹی کو بریفنگ دی جس میں بتایا گیا کہ ہر سال صوبوں کی مشاورت سے تجاوزات کی تفصیلات طلب کی جاتی ہیں۔ بریفنگ کے مطابق 2024 کے اگست تک پنجاب کے تمام دریاؤں میں تجاوزات صفر تھیں، تاہم اگست 2024 سے فروری 2025 کے درمیان مختلف علاقوں میں تجاوزات رپورٹ ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق سرگودھا اریگیشن زون میں 153 تجاوزات، ملتان اریگیشن زون میں 676 تجاوزات سامنے آئیں، جبکہ لاہور اریگیشن زون میں کوئی تجاوزات رپورٹ نہیں ہوئیں۔ فیصل آباد، ڈی جی خان، بہاولپور اور پوٹھوہار زونز کا ڈیٹا تاحال موصول نہیں ہوا۔ سپارکو کے مطابق پنجاب میں 46 تجاوزات رپورٹ ہوئیں، جبکہ فیڈرل فلڈ کمیشن نے ابتدائی رپورٹ میں تجاوزات صفر ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جس پر کمیٹی نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔
کمیٹی نے فیڈرل فلڈ کمیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار میں تضادات پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ یہ ڈیٹا کہاں سے آتا ہے اور غلط معلومات فراہم کرنے پر کون سا ایکٹ لاگو ہوگا؟ سینیٹر ہمایوں مہمند نے اعداد و شمار میں غلط بیانی پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔
سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ اگر فلڈ کمیشن اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا تو اسے بند کر دینا چاہیے، کیونکہ یہ ایک بڑا ادارہ ہے اور اس کے کام میں شفافیت ہونی چاہیے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ مون سون سے قبل دریاؤں سے تجاوزات مکمل طور پر ختم کیے جائیں اور اس حوالے سے ایک ماہ کے اندر درست اعدادوشمار پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قائمہ کمیٹی کمیٹی نے کے مطابق
پڑھیں:
شاہ محمودکانام9مئی واقعات پر کابینہ کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں تھا
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ٹرائل کورٹ نے منگل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ڈپٹی چیئرمین شاہ محمود قریشی کو 9؍ مئی کے واقعات سے متعلق تمام الزامات سے بری کر دیا۔ یہ فیصلہ اس خبر کو اجاگر کرتا ہے جس کی خبر نجی اخبار میں 6؍ ماہ قبل شائع ہوئی تھی۔ رواں سال 25؍ فروری کو نجی اخبار اور روزنامہ نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا نام واضح طور پر کابینہ کمیٹی کی اُس رپورٹ میں شامل نہیں تھا جو گزشتہ نگران حکومت نے 9؍ مئی 2023ء کے پرتشدد واقعات کی مبینہ منصوبہ بندی کے حوالے سے تیار کی تھی۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی کیخلاف ان واقعات سے متعلق ایف آئی آرز درج کی گئی تھیں، جنہیں ریاستی اداروں پر ہونے والے سنگین حملوں میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن سرکاری رپورٹ میں اُن کا نام کہیں نہیں آیا۔ رپورٹ میں پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کا نام بھی شامل نہیں تھا، جس سے ان دونوں کیخلاف عائد کردہ الزامات کی قانونی جواز پر سوالات پیدا ہوئے تھے۔ یہ کابینہ کمیٹی رپورٹ بعد میں موجودہ وفاقی کابینہ کے روبرو بھی پیش کی گئی تھی جس میں متعدد پی ٹی آئی رہنمائوں کے مبینہ کردار کا ذکر تھا۔ رپورٹ کے مطابق، پارٹی چیئرمین عمران خان پر ان واقعات کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا، جبکہ ایک طویل فہرست میں حماد اظہر، زرتاج گل، مراد سعید، فرخ حبیب، علی امین گنڈاپور، یاسمین راشد، محمود الرشید اور دیگر رہنمائوں کے نام شامل تھے۔ لیکن شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی کا ذکر کہیں نہیں تھا۔ منگل کو شاہ محمود قریشی کی بریت نجی اخبار کی پہلے شائع شدہ رپورٹ کو درست ثابت کرتی ہے اور یہ سوال اٹھاتی ہے کہ آخر شاہ محمود قریشی کو اس قدر طویل قانونی کارروائی میں کیوں الجھایا گیا۔نجی اخبار نے اپنی فروری کی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ نگران حکومت کی رپورٹ میں پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کا نام شامل نہ ہونا سوال پیدا کرتا ہے، خصوصاً اس وقت جب دونوں 9؍ مئی کے کیسز میں پھنسے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت اُن کیلئے ایک بڑی قانونی کامیابی ہے، وہ شروع سے ہی ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ تاہم، اس فیصلے نے 9؍ مئی کے بعد شروع ہونے والے قانونی عمل کو مزید سخت جانچ کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے، کیونکہ کئی دیگر پی ٹی آئی رہنما اب بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انصار عباسی