بیجنگ:چین کی وزارت ماحولیات نے ایک معمول کی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں فضائی ماحولیاتی ڈویژن کے سربراہ لی تیان وی نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں چین میں شدید آلودگی کے دنوں کا تناسب مستحکم انداز میں کم ہوتا چلا آ رہا ہے اور 2024 میں یہ 0.9 فیصد رہا۔ ملک کے اہم شہروں میں پی ایم 2.5 کی سطح 29.3 مائیکروگرام فی مکعب میٹر رہی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 2.
7 فیصد کم ہے۔ معیاری ہوا کے دنوں کا تناسب 87.2 فیصد تک پہنچ گیا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 1.7 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔آج ، نیلا آسمان اور سفید بادل ایک معمول بن چکے ہیں، جس سے ماحولیاتی بہتری کی ایک اہم کامیابی ظاہر ہوتی ہے۔ مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ ایک دہائی قبل یورپی میڈیا میں چین کی فضائی آلودگی پر ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں بیجنگ کی ہوا کو notorious” یعنیٰ بدنام قرار دیا گیا تھا۔ لیکن آج جب بیجنگ کی قدیم شاہی عمارتیں اور مرکزی کمرشل ڈسٹرکٹ کی عمارتیں نیلے آسمان تلے چمک رہی ہیں تو یہ منظر نہ صرف بیجنگ اور چین بلکہ پوری دنیا کے لیے ماحولیاتی جنگ میں امید کی کرن ہے۔ چین کی 2024 کی “فضائی معیار کی رپورٹ میں یہ شاندار اعداد و شمار درحقیقت ایک
ترقی پذیر ملک کی پائیدار ترقی کے عزم کا عکاس ہیں۔ موسمیاتی بحران کے سامنے چین کی عملی کوششیں عالمی ماحولیاتی تحریک کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ میں گھرے شہر” سے آسمان کے معمول” تک ،یہ تبدیلی کوئی اتفاق نہیں بلکہ چین کی مضبوط ترین ماحولیاتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ 2013 میں “فضائی آلودگی کے خلاف دس اقدامات ” سے لے کر “چودہویں پنج سالہ منصوبے” کے دوران پرانی صنعتوں کے خاتمے اور اخراج کم کرنے والی جدید ترین ٹیکنالوجیز تک، چین نے ایک جامع حکمت عملی اپنائی ہے۔سب سے پہلے صنعتی ڈھانچے کو سبز بنانے کی تحریک ،اس کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے آلودگی پر قابو پانے کا طریقہ کار اپنایا گیا، پورے ملک میں ماحولیاتی نگرانی کا ایک جامع نیٹ ورک قائم کیا گیا ۔علاوہ ازیں ، حکومت کی حمایت اور تمام لوگوں کی شرکت سے سبز طرز زندگی چینی معاشرے میں ایک نیا فیشن بن چکا ہے، نئی توانائی کی گاڑیاں، کم کاربن سفر، کچرے کی تقسیم اور ری سائیکلنگ، سبز کھپت وغیرہ، ماحولیاتی تحفظ کا انقلاب تمام لوگوں کی شرکت سے چین کو ماحولیاتی تہذیب کی ترقی میں عالمی رہنما بنا رہا ہے۔مغربی ماہرین کا خیال تھا کہ ترقی پذیر ممالک معاشی ترقی، توانائی کی سلامتی اور ماحولیات کے درمیان توازن نہیں قائم کر سکتے۔ لیکن چین نے عملی طور پر اس “مفروضے” کو غلط ثابت کیا ہے۔ آئین میں “ماحولیاتی تہذیب” کو شامل کرنے، مرکزی ماحولیاتی انسپکشن سسٹم قائم کرنے، دنیا کی سب سے بڑی کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ قائم کرنے ، اور مسلسل تین سال تک سبز بانڈز میں عالمی سطح پر “اول” آنے جیسے اقدامات سے ثابت کیا گیا ہے کہ ماحول اور معیشت ایک دوسرے سے متصادم نہیں ، بلکہ یہ ترقی کے نئے نکات بن سکتے ہیں ۔ گزشتہ دہائی میں چین نے سولر اور ونڈ توانائی کی لاگت میں 60 اور 80 فیصد کمی لا کر 40 سے زائد ترقی پذیر ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق جنوب جنوب مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں۔ “افریقہ سولر بیلٹ” جیسے منصوبوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو بھی سستی صاف توانائی فراہم کی جا رہی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے قابل تجدید توانائی سرمایہ کار (2024 میں 89 ارب ڈالر) کی حیثیت سے، چین کا کاربن اخراج میں کمی کا عمل پیرس معاہدے کے ہدف کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جب کچھ ممالک موسمیاتی وعدوں سے انحراف کر رہے ہیں، چین اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے کثیر الجہتی نظام کو مستحکم کر رہا ہے۔ حیاتیاتی تنوع کانفرنس کی میزبانی سے لے کر “بیلٹ اینڈ روڈ سبز پارٹنرشپ” تک، چین اپنے تجربات کو بین الاقوامی سطح پر منتقل کر رہا ہے۔ چین کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ ماحولیات کا تحفظ زیرو سم گیم نہیں بلکہ مشترکہ ترقی کا موقع ہے۔ بیجنگ کے نیلے آسمان سے لے کر ایمیزون کے جنگلات کی بحالی تک، چینی ساختہ شمسی پینلز اور ونڈ ٹربائنز نہ صرف بجلی پیدا کر رہے ہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک سبز درست سمت کی بنیاد بھی رکھ رہے ہیں۔ غیر یقینی کے اس دور میں چین کا عزم دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ نیلا آسمان خودبخود نہیں آتا، لیکن عملی اقدامات سے ہی سب کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
امریکہ کا دوسرے ممالک کو چین کی چپ انڈسٹری کی ناکہ بندی پر مجبور کرنے کا عمل خود امریکہ کو نقصان پہنچائے گا، چینی وزارت خارجہ
بیجنگ :چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیئن نےیومیہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنے اتحادیوں پر چین کی چپ انڈسٹری پر پابندیاں بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکہ کی جانب سے چین کی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کی بدنیتی پر مبنی ناکہ بندی اور اسے دبانے پر بار بار اپنا سنجیدہ موقف بیان کیا ہے۔ امریکہ نے معاشی، تجارتی اور تکنیکی معاملات کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے آلے کے طور پر بےجا استعمال کیا، چینی چپس پر برآمدی کنٹرول میں مسلسل اضافہ کیا اور دوسرے ممالک کو چین کی سیمی کنڈکٹر صنعت کو دبانے پر مجبور کیا ہے.یہ عمل نہ صرف عالمی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کی ترقی میں رکاوٹ ڈالتا ہے بلکہ دوسروں اور آخر کار خود امریکہ کوبھی نقصان پہنچائے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ:
میں چین
ا لودگی
چین کی
رہا ہے
چین نے
پڑھیں:
وزیر خزانہ کی عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائزر سے ملاقات، سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے پر اتفاق
وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے عالمی بنک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائزر سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ واشنگٹن میں عالمی بینک گروپ آئی ایم ایف کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر ہوئی۔ وزیر خزانہ نے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک پر جلد عملدرآمد اور مخصوص شعبوں میں مکمل کیے جانے والے منصوبے جلد طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔وزیر خزانہ نے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹیں دور کرنے اور کام کی رفتار تیز کرنے کے لیے ایک مؤثر نظام بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ڈوئچے بینک کے وفد سے بھی ملاقات کی، جس کی قیادت مریم وازانی، منیجنگ ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ کر رہی تھیں۔ وزیرِ خزانہ نے پاکستان کی مالیاتی منڈیوں میں واپسی میں دلچسپی کا اظہار کیا جس میں پانڈا بانڈز اور ESG بانڈز کے اجرا کی خواہش شامل ہے۔