افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کے منصوبے کے دوے مرحلے کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کے منصوبے کے دوے مرحلے کا آغاز WhatsAppFacebookTwitter 0 25 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھجوانے کے منصوبے کے دوسرے مرحلے کا آغاز کردیا گیا۔وزارت داخلہ کی دستاویز کے مطابق دوسرے مرحلے میں افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو واپس بھجوایا جائے گا، پاکستان میں تقریبا 8لاکھ افراد اے سی سی کارڈ پر ہیں، قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو بھی اسلام آباد راولپنڈی سے نکالنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔
اسی طرح وزارت داخلہ نے وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس کے فیصلوں پر عمل درآمد شروع کردیا، افغان شہریوں کی وفاقی دارالحکومت اورراولپنڈی سے منتقلی کیلئے 31مارچ کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے، افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو 31 مارچ تک دوسرے شہروں اور اس کے بعد افغانستان منتقل کیا جائے گا۔دستاویز میں بتایا گیا کہ تیسرے ملک جانے کے خواہشمند افغانیوں کے قیام کی اجازت میں 30جون تک کی توسیع کی جائے گی جبکہ کسی اور ملک کے ویزے کے منتظر افغان شہری بھی اسلام آباد میں نہیں رہ سکتے۔خیال رہے دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ خفیہ اداروں کی عملدرآمد رپورٹ وزارت داخلہ ہر 15 روز بعد وزراعظم آفس کو بھیجے گی، اگر ستمبر تک کسی اور ملک نے ویزے نہ دیئے تو افغان باشندے غیرقانونی تصور ہوں گے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کو واپس
پڑھیں:
پیسہ پیسہ کرکے!!
جانے آپ نے کبھی غور کیا یا نہیں مگر میں گزشتہ چند دن سے اس پر غور و فکر کر رہی ہوں اور حیرت میں ڈوبتی جاتی ہوں ۔ ایک دکان سے پھل اور سبزی خریدتی ہوں، سبزیوں کے نرخ اس طرح سے ہیں کہ میرا بل بنتا ہے سات سو اٹھائیس روپے، میں دکاندار کو سات سو پچاس روپے دیتی ہوں تو وہ مجھے بیس روپے واپس کر دیتا ہے۔ میں کپڑوں کی دکان پر کچھ خریداری کرتی ہوں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ میرا بل چار ہزار سات سو پچانوے روپے ہے۔
میں اسے پانچ ہزار کا نوٹ دیتی ہو تو وہ مجھے دو سو روپے بقایا دیتا ہے۔ میں دوا خریدنے جاتی ہوں تو دوا کی ڈبیا پر دوا کی قیمت لکھی ہوئی ہے چار سو ستاسٹھ روپے۔ میں اسے پانچ سو روپے کا نوٹ دیتی ہوں اور وہ مجھے بقایا دیتا ہے تیس روپے۔ پٹرول کی فی لٹر قیمت کے حساب سے اگر آپ کا بل اتنا بنتا ہو کہ پانچ روپے سے کم بقایا بنتا ہو تو واپسی پر آپ کو پانچ روپے سے کم کی وہ رقم واپس نہیں ملتی۔
آپ تصور کریں کہ کسی پٹرول پمپ پر، کسی سبزی پھل کی دکان پر یا کسی کپڑے ، جوتے یا کتابوں کی دکان پر… ایک دن میں کتنے گاہک آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا بقایا پانچ روپے سے کم ہو تو انھیں وہ واپس نہیں ملتا اور کوئی اس کے بارے میں فکر بھی نہیں کرتا کیونکہ اس وقت پچاس اور سو روپے کی اتنی بھی وقعت نہیں ہے تو پانچ دس روپے کی کیا وقعت ہے کہ کسی کو واپس نہ ملنے پر دکھ ہو۔
اس دکاندار کو سوچیں جو کہ دن میں جانے کتنے ہی لوگوں سے اتنی چھوٹی چھوٹی رقوم جمع کر کے ایک دن، ہفتے ، مہینے یا سال میں کتنی رقم جمع کرتا ہے جس کا نہ کوئی شمار ہوتا ہے اور نہ حساب۔ درست بل دینا کہ جس پر ٹیکس نمبر بھی لکھا ہو، وہ ہمارے یہاں چھوٹے دکاندار کو عادت ہی نہیں، بل اس وقت دیتے ہیں جب آپ مطالبہ کریں۔ کارڈ سے بل نہیں لیتے کیونکہ وہ ریکارڈ میں آجاتا ہے اور اس پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ کتنے ہی کاروبار ہیں جو کہ آپ کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ کیش میں ادائیگی کریں تو آپ کو کچھ رعایت مل جاتی ہے۔
ہم سب اس جال میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ ہمیں اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم ملکی مفاد میں سوچیں تو ہمیں ایسی پیشکش کو ٹھکرا دینا چاہیے مگر جب ہم کسی کو اس بارے میں آگاہی دینے کی کوشش کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ انھیں ٹیکس دے کر کیا ملتا ہے؟ سارا ٹیکس تو انھیں کے اللوں تللوں اور ان کے شاہانہ اخراجات میں چلا جاتا ہے جو پہلے سے ہی اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر رہ رہے ہیں۔
ہمیں کون سا ان ممالک کی طرح بنیادی انسانی سہولیات میسر ہیں جیسی کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں، جہاں لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری دنیا بھر میں ہوتی ہے مگر ہم شاید اس میں بھی پہلے نمبر پر ہوں گے کیونکہ ہم ایسی چیزوں میں درجہء کمال پر ہیں جو درست نہیں ہیں۔
سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک میں پیسے کی نقل و حمل پر پابندی لگائی جائے۔ آپ کارڈ پر ادائیگی کرنا چاہیں تو دکانداروں کی مشین نہیں چلتی، بڑے بڑے دکاندار بھی کئی بار کہہ دیتے ہیں کہ مشین میں کوئی مسئلہ ہے یا آپ کے کارڈ میں۔ اگر کارڈ پر بل لینے کو مان بھی جائیں تو کہتے ہیں کہ کارڈ کی فیس گاہک کو دینا ہو گی۔ بڑے بڑے سنار ( جیولرز) لاکھوں اور کروڑوں کے بل لیتے ہیں، وہ ساری سیل نہ چھپاتے ہوں تو بھی کچھ نہ کچھ چھپا جاتے ہیں۔
ٹیکس نیٹ میں ہر چھوٹے بڑے کاروباری کو لانا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والے اپنے کھاتے سدھار سکتے ہیں اور نہ حکومت۔ بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ٹیکس کے محکمے کے ہی لوگ ، ملوث ہیں جو کہ لوگوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتاتے ہیں۔ پھر میںنے عہد کیا کہ چھوٹے ٹھیلوں، سڑک کے کنارے ریڑھی بانوں یا کسی کو نقد دینے کے علاوہ میں ہر جگہ کارڈ استعمال کروں گی۔
اس دوران میں نے غور کیا کہ کپڑے کا بڑے سے بڑا کاروباری برانڈ بھی آپ کو بل بتاتا ہے گیارہ سو ستر… جب آپ کارڈ سے رقم ادا کرتے ہیں تو آپ کے گیارہ سو ستاسٹھ روپے کٹتے ہیں، استفسار کریں کہ انھوں نے توبل گیارہ سو ستر بتایا تھا تو جواب ملے گا کہ انھوں نے اس رقم کو Round up کر دیا تھا۔ راؤنڈ اپ تو گیارہ سو ساٹھ یا پنسٹھ بھی ہو سکتے ہیں مگرکسی کے پاس اب کہاں سکے ہوتے ہیں اور دس روپے تک کا نوٹ بھی متروک ہو چکا ہے۔ کارڈ پر ادائیگی کر کے آپ کچھ نہیں تو ہر ماہ کچھ رقم بچا سکتے ہیں۔اگر آپ کو کوئی پر کشش پیش کش کرتا ہے ، نقد دینے پر ٹیکس میں اتنی چھوٹ ہو گی تو اس جال میں نہ پھنسیں، ذمے داری کا ثبوت دیں۔ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ملک اور نظام کو خراب نہ ہونے دیں۔