نئی دہلی — بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بنگلہ دیش کے بارے میں بظاہر ایک سخت بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ بھارت کے ساتھ کس قسم کے تعلقات چاہتا ہے۔

ان کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش اس سلسلے میں فیصلہ کرے گا۔ لیکن بھارت کو بھی طے کرنا ہو گا کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ کیسے رشتے رکھنا چاہتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے باہمی رشتے مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فریقین باہمی تعلقات کو پٹری پر لانا چاہتے ہیں۔ البتہ ان بیانات کو دونوں کی داخلی سیاست کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ایس جے شنکر نے اتوار کو نئی دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عبوری حکومت ایک طرف اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کے لیے روزانہ مضحکہ خیز انداز میں بھارت کو مورد الزام ٹھہرائے اور دوسری طرف یہ کہے کہ وہ اچھے رشتے چاہتی ہے تو اس بارے میں اسے کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔

بھارتی وزیرِ خارجہ نے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں دو مسائل کا ذکر کیا۔ اُن کے مطابق پہلا مسئلہ اقلیتوں پر حملوں کا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت ہی تشویش کی بات ہے۔ یہ یقینی طور پر ہماری سوچ کو متاثر کرتا ہے، اس پر ہم نے بیان دیا ہے۔


ان کے بقول دوسرا مسئلہ بنگلہ دیش کی داخلی سیاست سے متعلق ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس سے کوئی اتفاق بھی کر سکتا ہے اور اختلاف بھی۔

‘بھارت کو بھی فیصلہ کرنا ہو گا’

بنگلہ دیش کے مشیر برائے امورِ خارجہ محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں یقینی طور پر فیصلہ کرے گا۔ لیکن اسی کے ساتھ بھارت کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے ساتھ کیسے رشتے چاہتا ہے۔

بنگلہ دیش کے سرکاری خبر رساں ادارے ‘بنگلہ دیش سنگباد سنگھسٹ'(بی ایس ایس) کے مطابق محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں ایک واضح مؤقف رکھتا ہے۔ وہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اچھے تعلقات پر زور دیتا ہے۔ اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

نیوز ویب سائٹ ‘دی سکریٹریٹ ڈاٹ اِن’ کے کنسلٹنگ ایڈیٹر اور خبر رساں ادارے ‘پریس ٹرسٹ آف انڈیا’ (پی ٹی آئی) کے ایسٹرن ریجن نیٹ ورک کے سابق انچارج جینتو رائے چودھری کے مطابق بنگلہ دیش کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات آرہے تھے اور شاید اسی وجہ سے جے شنکر نے ایک طرح سے دھمکی آمیز لہجہ اپنایا ہے۔ اسے جے شنکر کی جھنجلاہٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کو غذائی اجناس بھارت سے جاتی ہیں۔ وہ بھارت سے دیگر سہولتیں بھی اٹھاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ بھارت کے خلاف بیان دے تو اس پر ردِعمل تو ہوگا ہی۔

شیخ حسینہ کے بھارت جانے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔

اُنہوں نے محمد توحید حسین کے بیان کے بارے میں کہا کہ ان کو اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اس قسم کے بیانات دینے پڑے ہیں ورنہ وہاں کے میڈیا میں ان پر تنقید ہوتی۔

اُنہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ باہمی رشتے اور بگڑتے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں رہنماؤں نے دو بار ملاقاتیں کی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے باہمی رشتوں کو آگے بڑھانے کی بات کی ہو گی۔ بھارت کی طرح بنگلہ دیش بھی اچھے رشتے چاہتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد باہمی تجارت پر اثر پڑا تھا۔ لیکن وہ پھر آگے بڑھی ہے اور حالیہ دنوں میں دو طرفہ تجارت کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی ٹرانسپورٹ ٹرین جو بند ہو گئی تھی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ حالاں کہ بنگلہ دیش میں اس فیصلے پر تنقید کی گئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف بھارت کے خلاف بیانات دیے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہاں کی سیاسی جماعت ‘بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی’ (بی این پی) اور ‘جماعت اسلامی’ کے لوگ بھارت کے دورے کر رہے ہیں۔

دریں اثنا بنگلہ دیش کے ایک 22 رکنی وفد نے جس میں سیاست داں، سول سوسائٹی کارکن، ماہرین تعلیم اور صحافی شامل ہیں، چین کے 10 روزہ دورے کا آغاز کیا ہے۔

اس سلسلے میں جینتو رائے چودھری کا کہنا تھا کہ اس میں بی این پی کے سیاست دانوں کی اکثریت ہے۔ اس میں حکومت کے اہل کار شامل نہیں ہیں۔

‘بنگلہ دیش کے سیاست دانوں کے بیانات مددگار نہیں ہیں’

نیوز 18 ڈاٹ اِن سے وابستہ تجزیہ کار آشیش ملک کہتے ہیں کہ بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن جس طرح سے وہاں کے سیاست دانوں کے بیانات آرہے ہیں وہ اس معاملے میں مددگار نہیں ہیں۔

ان کے مطابق ایس جے شنکر نے اسی لیے قدرے سخت انداز اختیار کیا ہے۔ بھارت نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اگر تعلقات کو بہتر بنانا ہے تو اس قسم کے بیانات کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب مسقط میں جے شنکر اور محمد توحید حسین کی ملاقات ہوئی تھی تو جے شنکر نے ان سے کہا تھا کہ اگر معاندانہ بیانات دیے جائیں گے تو رشتے معمول پر نہیں آسکتے۔

ادھر محمد توحید حسین نے بھارت میں قیام کے دوران شیخ حسینہ کے بیانات پر تنقید کی اور کہا کہ ان کے بیانات ڈھاکہ اور نئی دہلی کے باہمی رشتوں کے سلسلے میں نقصان دہ ہیں۔

بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے کی شکایات

بھارت نے وہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہندوؤں پر حملوں کے معاملے کو متعدد بار بنگلہ دیش کے سامنے اٹھایا ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر دونوں نے اس معاملے پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔

گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ حکومت کے خلاف طلبہ کے احتجاج اور پانچ اگست کو ان کے بھارت آجانے کے بعد وہاں ہندوؤں پر حملوں کے واقعات پیش آئے تھے۔

بنگلہ دیش کے عبوری حکمراں محمد یونس نے ان حملوں کے دوران بعض اہم مندروں کا دورہ کیا تھا اور ہندوؤں کو ان کے تحفظ کا یقین دلایا تھا۔

بنگلہ دیش کے ایک اخبار ‘ڈھاکہ ٹریبیون’ کے مطابق محمد توحید حسین نے کہا کہ بنگلہ دیش کے اقلیتوں کا معاملہ بھارت کے لیے باعث تشویش نہیں ہونا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی اقلیتوں کا معاملہ اس کا اپنا مسئلہ ہے۔ جس طرح بھارت اپنی اقلیتوں کے ساتھ برتاو کرتا ہے اور اسے اپنا اندرونی معاملہ مانتا ہے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: کہنا تھا کہ ایس جے شنکر فیصلہ کرنا سلسلے میں کے بیانات بھارت کو بھارت کے چاہتا ہے کے مطابق کرنا ہو

پڑھیں:

بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش

پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے کہا ہے کہ پاکستانی پروازوں پر بھارتی فضائی حدود کی پابندی سے پاکستان بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست فضائی رابطوں میں تاخیر کا سامنا ہے، کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان براہ راست بحری رابطوں سے تجارتی سامان کی ترسیل کا دورانیہ بیس روز سے کم ہوکر پانچ چھ دن تک مختصر کیا جاسکتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکے گی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

یہ بات انہوں نے *ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری، چیف ایڈوائزر حکومتِ بنگلہ دیش کے خصوصی معاون کے اعزاز میں منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں کہی، جس کا اہتمام **بورڈ آف مینجمنٹ، قائداعظم ہاؤس میوزیم – انسٹیٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ* نے کراچی میں کیا۔

اقبال حسین خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے اور مثبت دور میں داخل ہو رہے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعاون، دوستی اور عوامی رابطوں کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنے خطاب میں ہائی کمشنر اقبال حسین خان نے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ماضی میں سیاسی جدائی واقع ہوئی، مگر بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام آج بھی باہمی محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔

انہوں نے حالیہ برسوں میں ویزا پالیسی میں مثبت تبدیلیوں کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اب بنگلہ دیشی شہری صرف 24 گھنٹوں میں پاکستانی ویزا حاصل کر سکتے ہیں اور پاسپورٹ جمع کرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں قائم بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن کو اب مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ویزا براہِ راست جاری کرے، جس سے سابقہ رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔

ہائی کمشنر نے *ڈھاکا اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان براہِ راست پروازوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی حدود کی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ فی الحال تاخیر کا شکار ہے، تاہم دونوں ممالک کے متعلقہ ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے *چٹاگانگ اور کراچی کے درمیان براہِ راست بحری رابطے* کی تجویز بھی پیش کی، جس سے مال برداری کا وقت بیس دن سے کم ہو کر صرف پانچ یا چھ دن رہ جائے گا۔ ان کے مطابق یہ اقدام تجارتی سرگرمیوں میں تیزی اور دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ پہنچائے گا۔

اقبال حسین خان نے تعلیم، سیاحت، صحت اور ثقافتی تبادلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی وفود اور جامعاتی سطح پر کھیلوں کے تبادلے شروع ہو چکے ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔

قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل بلڈنگ کے وائس چیئرمین اکرام سہگل نے اپنے خطاب میں دونوں ممالک کے تاریخی و ثقافتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستان اور بنگلہ دیش آج دو علیحدہ ممالک ہیں، مگر وہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور اقدار کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم دو ممالک ضرور ہیں، لیکن ایک قوم ہیں۔''

انہوں نے زور دیا کہ اگر دونوں ممالک ویزا کی پابندیوں کو ختم کر دیں، باہمی تجارت پر محصولات عائد نہ کریں اور ایک دوسرے کی کرنسی کو قابلِ تبادلہ قرار دیں تو خطے میں خیرسگالی، اعتماد اور معاشی ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ اقدامات پیچیدہ معاہدوں کے بغیر ایک ہی صفحے کے فیصلے سے ممکن ہیں۔

اکرام سہگل نے دونوں ممالک کے درمیان *براہِ راست پروازوں اور بحری رابطوں * کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ کراچی اور چٹاگانگ سمیت دیگر بندرگاہوں سے تجارت تیز رفتار اور مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر برآمدات بالخصوص *بنگلہ دیش کی گارمنٹس انڈسٹری* براہِ راست یورپ تک پہنچنے لگے تو دونوں ممالک کی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے 1971 کے واقعات سے متعلق ذاتی مشاہدات کا بھی ذکر کیا اور زور دیا کہ دونوں ممالک کو ''حقیقت پسندی، مفاہمت اور سچائی'' کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اکرام سہگل نے آخر میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش اگر باہمی اعتماد، سچائی اور نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھیں تو دونوں ممالک مشترکہ اقدار اور مقصد کے تحت خوشحالی کے ایک نئے دور میں داخل ہو سکتے ہیں۔

تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر اے ایس ایم انیس الزمان چوہدری مشیر خزانہ بنگلہ دیش نے کہا کہ دونوں ملکوں کو حقیقت تسلیم کرنی ہوگی، دونوں ملکوں کے درمیان بدگمانیاں پھیلائی گئیں ہمیں اپنے دشمن پر نظر رکھنا ہوگی جو اس وقت بھی بدگمانیاں پھیلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں کمی اور غلط معلومات نے فاصلے پیدا کیے اسلام آباد میں دو اہم سڑکیں تحریک پاکستان کی سرکردہ بنگالی شخصیات کے نام سے موسوم ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی محمد علی جناح اور دیگر سرکردہ شخصیات کے نام پر ادارے آج بھی قائم ہیں ہمیں یہ معلومات اور اعتماد نئی نسل کو منتقل کرنا ہوگی۔

انہوں نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکسان نے ساٹھ کی دہائی مں تیزی سے ترقی کی جب کوریا انتہائی غربت کا شکار تھا اور پاکستان سے مددکا خواہش مند تھا۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں کے فنڈز کے بجائے خود انحصاری کو پائیدار ترقی کا راستہ قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • بھارتی فضائی حدودکی پابندی سےپاکستان سےبراہ راست فضائی رابطوں میں تاخیرکاسامنا ہے،ہائی کمشنربنگلادیش
  • شادی میں دلہن کے والد کا نیا انداز، جیب پر کیو آر کوڈ چسپاں کرکے ‘آن لائن سلامی’ وصول کی
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ
  • اسحاق ڈار کا کینیڈین ہم منصب سے رابطہ، تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • پاکستان نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے
  • امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ، خطے میں نئی صف بندی کا آغاز