قومی کرکٹر فخرزمان نے ریٹارئرمنٹ کے حوالے سے آنے والی خبروں کی تردید کردی ۔

فخرزمان نے پی سی بی ڈیجیٹل کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ میں نے بھی ریٹارئرمنٹ کے حوالے سے کافی خبریں سنی ہیں، میری ریٹائرمنٹ کے حوالے سے خبریں غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ون ڈے فارمیٹ میرا پسندیدہ فارمیٹ ہے، تھائی رائیڈ کی وجہ سے سوچا تھا کہ کرکٹ سے کچھ دیر بریک لوں، ابھی تک میرے ذہن میں ایسا کچھ نہیں ہے، میں چاہتا ہوں کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کھیلوں، انشاء اللہ ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق ایک مہینے کے اندر اندر دوبارہ ٹریننگ شروع کروں گا ۔

انہوں نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی بڑا ایونٹ ہے ، 2017 چیمپئنز ٹرافی کے ساتھ کافی یادیں ہیں، میرے ذہین میں تھا کہ شاید یہ ٹورنامنٹ میرے لئے لکی ثابت ہو گا، ون ڈے فارمیٹ ایسا ہے جو میں پسند کر تا ہوں، میں نے اس ٹورنامنٹ کے لئے خصوصی طور پر کافی کچھ سوچا ہوا تھا، بیماری سے جب ٹھیک ہوا تو اسی ٹورنامنٹ کے لئے تیاری شروع کر دی تھی، ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ آپ زیادہ وقت لو مگر میں نے پہلے ہی تیاری شروع کر دی تھی۔ انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ کافی مضبوط ہوں ، میرے اوپر کافی بار اس طرح کا وقت آیا ہے، اپنے جذبات پر قابو نہیں پاتا کبھی کبھی، بیٹے نے بھی کہاکہ تھا آپ درد میں کھیل رہے تھے۔

فخر زمان نے بتایا کہ جب انجری ہو گئی تو درد سے اندازہ ہو گیا تھا کہ میرے لئے چیمپئنز ٹرافی ختم ہو گئی، نیوزی لینڈ کےخلاف اگر اوپننگ کرتا تھا تو شایدچیزیں مختلف ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ ٹارگٹ میں اوپنرز کا رول ہوتا ہے کہ پہلے 10 اوورز میں تیز رنز کریں۔

انہوں نے کہا کہ انجری کے دوران فیلڈنگ اسی لئے کی تھی تاکہ اوپن کروں، کبھی کبھی لوگوں کی امیدیں زیاد ہ ہوتی ہیں مگر آپ کچھ کر نہیں سکتے۔ مزید کہا کہ میں نے ریڈبال پر بھی فوکس کیا مگر کوچز کی اپنی پلاننگ ہوتی ہے ، ابھی بھی چاہتا ہوں کہ ریڈبال کھیلوں، آج کل اسٹرائیک ریٹ زیادہ ضروری ہے، اگر رسک لیتے ہیں تو رنز بن سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ تھا کہ

پڑھیں:

’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 ستمبر 2025ء ) رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے پر رائے دینے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پہلے جج صاحبان پر پی سی او کے حلف یافتہ ہونے کی پھبتی کسی جاتی تھی کہ انہوں نے آئین کو پس پشت ڈال کر آمروں کی وفاداری کا حلف اٹھایا، پھر 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے اور عدلیہ کے زوال کا ایک نیا دور شروع ہوا، انہوں نے خود پی سی او حلف یافتہ حج ہونے کے باوجود دوسرے پی سی او حلف یافتہ جج صاحبان کو منصب سے فارغ کردیا، اس کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق متکبر جوں اور متشدد وکلاء کا دور شروع ہوا اور آئین کو آمر کے بجائے اپنی خواہشات اور انا کے تابع کر دیا۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز الاحسن، عظمت سعید شیخ، مظاہر نقوی اور منیب اختر وغیرہ نے وہ حشر بپا کیا کہ الامان والحفیظ! مارچ 2009ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے تنزیل و انتشار کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، بعض حجج صاحبان نے ایسے فیصلے دیئے جو آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف ہیں، عدم اعتماد کی بابت پہلے فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کے حکم کی پابندی اُس جماعت کے ارکان پر لازم ہوگی پھر جب مصلحت بدل گئی تو فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کی نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈر کے حکم کی تعمیل لازم ہوگی۔

رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے جعلی ہونے کا مسئلہ ہے، آئین پسندی، نیز دینی منصبی اور اخلاقی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر محاسبے کے لیے پیش کر دیتے اور خود چیف جسٹس کو لکھتے کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے میرے کیس کا فیصلہ صادر کیجیے اور اپنی ڈگری کی اصلیت کو ثابت کر کے سرخرو ہوتے کیونکہ ” آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک‘ یعنی جس کا حساب درست ہے اُسے خود کو محاسبے کے لیے پیش کرنے میں کس بات کا ڈر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہچکچاہٹ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے، جعل سازی کو حرمت عدالت کے غلاف میں لپیٹا نہیں جاسکتا، نیز اصول پسندی اور آئین پابندی کا تقاضا ہے کہ اس کی بابت اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُن کے ہم خیال بقیہ چارج صاحبان کا مؤقف بھی آنا چاہیئے، جوڈیشل کمیشن کا ایسے مسائل کو طویل عرصے تک پس پشت ڈالنا بھی عدل کے منافی ہے، جیسے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا معاملہ اب تک التوا میں ہے۔

مفتی منیب الرحمان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے کورٹ رپورٹر مریم نواز خان نے لکھا کہ چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے، سب بولو سبحان اللہ!

چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے!

سب بولو سبحان اللہ! https://t.co/U41JkKAZL6

— Maryam Nawaz Khan (@maryamnawazkhan) September 17, 2025 اسی حوالے سے صحافی رضوان غلزئی کہتے ہیں کہ مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟

مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟

— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 17, 2025 ایک ایکس صارف انس گوندل نے سوال کیا کہ مفتی منیب الرحمان کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟

مفتی منیب الرحمن کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟

— Anas Gondal (@AnasGondal19) September 17, 2025 صحافی طارق متین نے استفسار کیا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔

مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں

— Tariq Mateen (@tariqmateen) September 17, 2025

متعلقہ مضامین

  • ماں بننے کی خبروں پر کترینہ کیف کا انٹرویو وائرل
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • ’ایکس‘ اکاؤنٹ کے معاملے پر عمران خان سے جیل میں تفتیش: ’وی ٹاک‘ میں اہم خبروں پر تبصرہ
  • ’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
  • آئی سی سی ٹی20 انٹرنیشنل رینکنگ جاری، ٹاپ 10 میں کتنے پاکستانی کرکٹر شامل؟
  • ریفری اینڈی پائی کرافٹ پاکستان کے خلاف بھارت کا ہتھیار، سابق ٹیسٹ کرکٹر نے سب راز کھول دیئے
  • میرے اوپر انڈوں سے حملے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا، بدتمیزی کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا، علیمہ خان
  • ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کیخلاف 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کردیا
  • منشیات کے استعمال پر نیدرلینڈز کے کرکٹر پر پابندی عائد
  • 17 ارکان کے کمیٹیوں سے استعفے میرے پاس آگئے، آج جمع کراؤں گا، سینیٹر علی ظفر