مسلم بچوں کو سائنسداں بنانے والے یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان ناقابل اعتبار ہے، اپوزیشن
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
ان کا کہنا ہے کہ یوپی کے وزیراعلٰی کے قول و فعل میں تضاد ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ مسلم بچوں کی جدید تعلیم کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف انکے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مسلم بچوں کی تعلیم دینے کے یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان کو اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے ناقابل اعتبار قرار دیا ہے اور "کچھ ملا" جیسے الفاظ کے استعمال پر اعتراض جتایا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی حکومت کے بجٹ میں کسانوں، نو جوانوں اور غریبوں کے لئے کچھ نہیں رہا ہے۔ اکھلیش یادو نے کہا کہ بھگوا کپڑے پہنے سے نہیں بلکہ زبان، برتاؤ اور طرز عمل سے کوئی یوگی بنتا ہے اور پورا سناتنی سماج اور عام آدمی جانتا ہے وہ جو راون نے سیتا کو اغوا کیا تھا تو وہ سادھو کے لباس میں آیا تھا اور ہم سب کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ سماجوادی پارٹی کے سینیئر لیڈر اور رکن اسمبلی کمال اختر، رکن اسمبلی ضیاء الدین رضوی اور کانگریس لیڈر ارشد اعظمی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلٰی کے بیان پر سخت تنقید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلٰی کے قول و فعل میں تضاد ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ مسلم بچوں کی جدید تعلیم کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے بجٹ میں کٹوتی کرتے ہیں۔ مدرسہ جدید کاری اسکیم کو بند کر دیا گیا ہے اور اقلیتوں کے لئے پولیٹیکینک اور آئی ٹی آئی جیسے تعلیمی اداروں کو منظوری نہیں دی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ جو اٹھارہ پولی ٹیکنک اسکول پہلے قائم کئے جاچکے ہیں، ان پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے اور سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ اقلیتوں کے لئے بجٹ کے نام پر صرف بچوں کے لئے وظیفہ کا اعلان کیا گیا ہے۔ کمال اختر نے "کچھ ملا" جیسے الفاظ کے استعمال پر وزیراعلٰی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس لفظ کا صیح معنی جاہل کا اور جاہل ہر مذہب اور ہر طبقہ میں موجود ہیں، اس کو کسی خاص مذہب سے جوڑنا لا علمی کی نشانی ہے۔
سماجوادی پارٹی کے ایک دیگر رکن ضیاء الدین رضوی نے کہا کہ وزیراعلٰی سے اقلیتوں کو کوئی امید وابستہ نہیں رکھنا چاہیئے اور ان سے کوئی شکوہ بھی نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ وزیراعلٰی ہندتوا ایجنڈے کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم بچوں مدرسوں کے خلاف ان کا نظریہ منفی ہے اور ہندوستان کے مشترکہ کلچر کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ضیاء الدین رضوی کے مطابق آئین میں سبھی کو پسند کی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ آئین سے ہی چلے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سماج کو ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان کی بھی ہے اور مولانا، پادری اور پنڈت کی بھی ہے، اس کے لئے ہندوستانی کلچر کی حفاظت اور طبقوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سماجوادی پارٹی مسلم بچوں کرتے ہیں ہے اور کے لئے کہا کہ
پڑھیں:
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
بھارتی اداروں میں بی جے پی کی بے جا مداخلت اور مذہبی خودمختاری پر حملے تیز ہو چکے ہیں۔
بھارت میں سکھوں کے جائز مطالبات کو دبانے کے لیے انہیں ’خالصتانی‘ اور ’ملک دشمن‘ قرار دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے، جبکہ 1984 کے مظلوم سکھوں کو انصاف دلانے کے بجائے بی جے پی کی حکومت قاتلوں کو بچانے میں مصروف عمل ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق دہلی کے وزیر منجندر سنگھ سرسا نے 1984 سکھ فسادات کی رپورٹ طلب کرنے کےلیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ رپورٹ میں سابق وزیراعلیٰ مدھیہ پردیش کمل ناتھ کی گوردوارہ پر موجودگی کا ذکر موجود ہے، جبکہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق ہجوم نے کمل ناتھ کی قیادت میں دو سکھوں، اندر جیت سنگھ اور منموہن سنگھ، کو گوردوارہ رکاب گنج صاحب میں زندہ جلا دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2022 کے حکم پر مرکز کی جانب سے جمع کروائے گئے حلف نامے میں دانستہ طور پر کمل ناتھ کے کردار کو نظرانداز کیا گیا، جو انصاف کے نظام پر بڑا سوال ہے۔ وکیل ایچ ایس پھولکا کے مطابق پولیس ریکارڈ اور اخبارات میں کمل ناتھ کی جائے وقوعہ پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں، اس کے باوجود ٹرائل کورٹ نے تمام ملزمان کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔
صحافی سنجے سوری کی عینی شاہد رپورٹ اور پولیس ریکارڈز میں شواہد کے باوجود کمل ناتھ کی موجودگی کو نظرانداز کرنا مودی کی قیادت اور جانبدار عدالتی نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 1984 کے فسادات میں کمل ناتھ کے کردار کو حلف نامے میں چھپا کر انصاف پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
بی جے پی حکومت سکھ کارکنوں کو دانستہ طور پر ’خالصتانی‘ کہہ کر گرفتاریوں اور میڈیا بلیک آؤٹ کو جواز فراہم کرتی ہے، جبکہ گردوارہ بورڈز کی تشکیل نو سے لے کر دہلی ایس جی پی سی کے استعفوں تک یہ اقدامات منظم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ محض پی آر اقدامات کے ذریعے مودی سرکار سکھ برادری میں حکمران جماعت کے خلاف اجنبیت کم نہیں کر سکتی، اور 1984 کی سکھ نسل کشی میں ملوث افراد کو تحفظ فراہم کرنا اس حکومت کی اقلیت دشمن پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔