Islam Times:
2025-06-09@14:58:52 GMT

 ایف اے ٹی ایف، امریکی محکمہ خزانہ کا آلہ کار

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

 ایف اے ٹی ایف، امریکی محکمہ خزانہ کا آلہ کار

اسلام ٹائمز: 2014 میں، ڈیوڈ کوہن، جو امریکی محکمہ خزانہ میں دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس کے دفتر کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے، نے واضح طور پر کہا تھا کہ امریکی پابندیوں کی کامیابی کا انحصار "ایک شفاف اور منظم مالیاتی نظام کے وجود" پر ہے۔ اس حقیقت پر جون زرتے کی کتاب ٹریژری وار میں کئی بار زور دیا گیا ہے۔ لہذا بینکنگ لین دین میں زیادہ سے زیادہ شفافیت خطرے کے امکان کی حامل ثانوی پابندیوں کے نفاذ اور ان کی تاثیر کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ رپورٹ: احسان احمدی

 امریکی وزارت خزانہ کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مالی اعانت اور پابندیوں سے بچنے کے لیے جدید ترین اسکیموں کی جانچ کے لیے عوام سے مشاورت کے لیے ایک نئے اقدام کا اعلان کیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کے بارے میں ایف اے ٹی ایف کے مسلسل سخت موقف اور پابندیوں سے بچنے کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانے کی کوششوں کی بھی تعریف کی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ کے بیان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کا اندازہ لگانے اور اسے دبانے کے لیے درپیش خطرے کو مدنظر رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ پابندیوں کے نفاذ میں مدد کرنے والی کسی بھی کارروائی کے لیے امریکی حمایت "پابندیوں" اور "ایف اے ٹی ایف" کے درمیان واضح تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ رسک محور ممکنہ پابندیوں کے ڈھانچے کو سمجھنا اور ایف اے ٹی ایف مشن کے بارے میں آگاہی، دونوں کے درمیان درپردہ لیکن پائیدار اور اٹوٹ تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔

رسک محور ثانوی پابندیوں کے ذریعے ایران پر دباؤ:
2005 اور 2010 کے درمیان ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد، امریکہ نے دباؤ ڈالنے کے لیے پابندیوں کی ایک نئی نسل متعارف کروائی، جسے "خطرے کے امکان کی حامل ثانوی پابندیاں" کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی پابندیوں نے، دنیا کے بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ڈالر پر انحصار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ضروری انتظامات کر کے (پابندی والے ممالک کے ساتھ تعاون کے خطرے کا اندازہ لگانے کی بنیاد پر) ان اداروں کو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مالی تعلقات کو محدود کرنے پر مجبور کیا۔ ایسا کرنے سے امریکہ نے اپنی پابندیوں کے نفاذ کو مؤثر طریقے سے آؤٹ سورسنگ کی۔

امریکہ نے اس طرح دنیا کے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو بھاری جرمانے کیے، اور سزائیں دیں جن میں ڈالر کے نظام اور بین الاقوامی مالیاتی نظام سے کٹ جانا بھی شامل ہے۔ اس قسم کی پابندی کے موثر نفاذ کی بنیاد امریکی محکمہ خزانہ کی دنیا بھر میں مالی لین دین سے متعلق "معلومات" تک رسائی کی صلاحیت ہے۔ بینک ٹرانزیکشنز سے متعلق ڈیٹا پر کارروائی اور تجزیہ کرنے سے محکمہ خزانہ کے دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (OFAC) کو اس بات کا تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کون سا بینک ٹرانزیکشن کے کس سلسلے سے لین دین کا حصہ ہے اور اس سلسلہ کو آخر کار کون فائدہ پہنچاتا اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

2014 میں، ڈیوڈ کوہن، جو امریکی محکمہ خزانہ میں دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس کے دفتر کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے، نے واضح طور پر کہا تھا کہ امریکی پابندیوں کی کامیابی کا انحصار "ایک شفاف اور منظم مالیاتی نظام کے وجود" پر ہے۔ اس حقیقت پر جون زرتے کی کتاب ٹریژری وار میں کئی بار زور دیا گیا ہے۔ لہذا بینکنگ لین دین میں زیادہ سے زیادہ شفافیت خطرے کے امکان کی حامل ثانوی پابندیوں کے نفاذ اور ان کی تاثیر کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ 

مالیاتی لین دین میں زیادہ سے زیادہ شفافیت کی ذمہ داری:
ایف اے ٹی ایف نے اپنے ایجنڈے میں منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی مالی معاونت جیسے اقدامات کو شامل کیا ہے۔ اس سلسلے میں عالمی معیارات کی وضاحت اور دنیا بھر کے ممالک کو ان معیارات پر عمل کرنے کی سطح کی بنیاد پر ان کا جائزہ اور درجہ بندی شامل ہے۔ تنظیم کی ویب سائٹ اس کے آپریٹنگ طریقہ کار کے بارے میں بتاتی ہے کہ ادارہ مسلسل نگرانی کرتا ہے کہ کس طرح مجرم اور دہشت گرد مالی وسائل اکٹھا کرتے، استعمال کرتے اور منتقل کرتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ اس سے مالیاتی لین دین سے متعلق "زیادہ سے زیادہ شفافیت اور معلومات کا اشتراک" کیا جا سکے اور حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کو ٹارگٹ کرنا اس کے اہم مشن میں سے ایک قرار دیا جائے۔ اسی لئے سفارشات نمبر 24، 25 اور ان کے تشریحی بیانات کے ساتھ ساتھ سفارش نمبر 40 میں زور دیا گیا ہے۔ صرف ایک مثال کے طور پر ایف اے ٹی ایف کی سفارش 40 کے تشریحی بیان کا پیراگراف 7 کہتا ہے کہ "مالیاتی انٹیلی جنس یونٹوں کو دوسرے ممالک کے مالیاتی انٹیلی جنس یونٹوں کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرنا چاہیے۔"

پابندیوں کے ساتھ  ہم آہنگی: 
امریکہ کی طرف سے لگائی جانے والی ثانوی پابندیاں، جو ڈالر پر عالمی انحصار اور مالیاتی لین دین کی شفافیت سے فائدہ اٹھاتی ہیں، ان پابندیوں سے زیادہ سے زیادہ موثر نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک شفاف اور منظم مالیاتی نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ یہیں سے اس قسم کی پابندیوں کے نفاذ میں سہولت کار کے طور پر ایف اے ٹی ایف کا کردار واضح ہو جاتا ہے۔ منی لانڈرنگ، دہشت گردوں کی مالی معاونت، اور مالیاتی معلومات کی شفافیت سے نمٹنے کے لیے عالمی معیارات کی وضاحت کرتے ہوئے، یہ ادارہ بالواسطہ طور پر لین دین کا سراغ لگانے اور بین الاقوامی سطح پر حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف  کی سفارشات اور جائزوں کے ذریعے فروغ پانے والی یہ زیادہ سے زیادہ شفافیت بالکل وہی ہے جس کی امریکی محکمہ خزانہ کو فراہم کردہ ڈیٹا پر کارروائی کرنے اور لین دین کے سلسلے کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے الفاظ میں، بین الاقوامی تعاون اور معلومات کے تبادلے کے لیے ایک فریم ورک بنا کر، ایف اے ٹی ایف مؤثر طریقے سے رسک محور ثانوی پابندیوں کے مؤثر نفاذ کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ امریکہ کا ایف اے ٹی ایف کے معیارات پر عمل کرنے والے ممالک پر اصرار کرنے کی وجہ پابندیوں کے ٹولز کے اثر کو مضبوط کرنا اور بین الاقوامی مالیاتی نظام پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنا ہے، جو ان ٹارگٹ ممالک کی شہ رگ ہے۔

امریکی رسک محور ثانوی پابندیاں، جو ڈالر پر دنیا کےانحصار پر منحصر ہیں، ان پابندیوں کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانےکے لیے ایک شفاف اور کڑے نظم و ضبط والا مالیاتی نظام ضروری ہے۔ دریں اثنا ایف اے ٹی ایف بین الاقوامی تعاون اور مالیاتی معلومات کے اشتراک کے لیے عالمی معیارات کی وضاحت کرکے ان پابندیوں کے نفاذ میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ شفافیت امریکی محکمہ خزانہ کو ممالک کے لین دین کو ٹریک کرنے اور حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ لہذا ایف اے ٹی ایف عملی طور پر معاشی دباؤ اور عالمی مالیاتی نظام پر امریکی غلبہ کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک ٹول یعنی آلہ کار ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی محکمہ خزانہ ثانوی پابندیوں کے پابندیوں کے نفاذ زور دیا گیا ہے بین الاقوامی ایف اے ٹی ایف مالیاتی نظام ایک شفاف اور اور مالیاتی کی پابندیوں کے لیے ایک کی مالی لین دین کرتا ہے کرنے کے کرنے کی کے ساتھ

پڑھیں:

امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،'ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں'

واشنگٹن:

امریکی صدر اور دنیا کے امیر ترین فرد ایلون مسک کے درمیان ہونے والے جھگڑے کے بعد وائٹ ذرائع نے بتایا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان ہونے والے جھگڑے سے باخبر وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایلون مسک سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان عوامی سطح پر جھگڑا ہوا تھا۔

ایلون مسک نے اس جھگڑے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی اور کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ جیفری ایپسٹین کی فائلیں عوام کے سامنے نہیں لا رہی ہے کیونکہ ٹرمپ کی حقیقت ان فائلوں میں موجود ہے۔

مسک نے ایکس پر بیان میں کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ میرے بغیر انتخاب میں ہار چکے ہوتے اور ڈیموکریٹس کو ایوان میں برتری حاصل ہوتی اور ری پبلکنز کو سینیٹ میں 51 کے مقابلے میں 49 نشستیں حاصل ہوتیں۔

دوسری طرف ٹرمپ نے ایلون مسک کو منشیات استعمال کرنے کا الزام عائد کیا اور سرکاری معاہدے منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دے دی ہے۔

خیال رہے کہ ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ سے متعدد امور پر اختلافات کے بعد اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے استعفیٰ دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • جمعرات تک ہیٹ ویو کا خدشہ،سورج سے بچیں اور پانی زیادہ پئیں
  • خبردار رہیں !محکمہ موسمیات کی جانب سے الرٹ جاری کر دیا گیا
  • پنجاب میں گرمی کا نیا ریکارڈ؛ عید کے تیسرے دن سورج سوا نیزے پر آگیا، شہری بے حال
  • آج سے 12جون تک ملک بھر میں شدید گرمی کی لہر کی پیشگوئی
  • سورج کا قہر جاری؛ لاہور سمیت پورا پنجاب شدید گرمی کی لپیٹ میں
  • کراچی میں وقفے وقفے سے تیز ہوائیں چلنے کا امکان
  • برطانیہ کی اکثریت اسرائیل کیخلاف پابندیوں کی خواہاں ہے، سروے
  • عید کی تعطیلات اور آئندہ ہفتے کے دوران موسم کیسا رہے گا؟
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،'ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں'
  • وزیرخزانہ کی ڈیجیٹل اثاثوں کیلئے قانونی فریم ورک جلد نافذ کرنے کی ہدایت