کیا ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کو مسلمانوں نے قتل کیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
ماسٹر تارا سنگھ تقسیم برصغیر کے وقت پنجاب میں سکھوں کے ایک سرکردہ رہنما تھے۔جب مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کے مطالبے نے بہت زور پکڑا تو پنجاب کے کچھ سکھ رہنمائوں نے ہندو رہنمائوںسے مل کر پاکستان کی مخالفت شروع کر دی۔ماسٹر تارا سنگھ 1947کی پنجاب قانون ساز اسمبلی کے ایک ممبر اور بہت با اثر سکھ رہنما تھے۔ماسٹر تارا سنگھ ،راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان میں مندرہ کے قریب ایک گائوں ہریال میں ملہوترہ کھتری خاندان میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے خالصہ کالج لائل پور)فیصل آباد(سے گریجویشن کی اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ان کے نام کے ساتھ ماسٹر کا لفظ اسی حوالے سے لگا ہوا ہے کیونکہ وہ معلمی کا پیشہ اختیار کر چکے تھے۔ماسٹر تارا سنگھ بعد میں سیاست میں آ گئے اور اس میدان میں اپنی شعلہ بیانی کے سبب بہت کامیابی حاصل کی۔خیال کیا جاتا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں مسلم لیگ کی سیاست اور پاکستان کے مطالبے کے خلاف استعمال کیا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کم از کم تین مرتبہ سکھ رہنمائوں سے ملاقات کر کے انھیں پاکستان کے اندر بہت کچھ دینے کی پیش کش کی لیکن مہاراجہ پٹیالہ اور ماسٹر تارا سنگھ نے قائدِ اعظم کی پیش کش کو کوئی اہمیت نہ دی۔تقسیمِ برصغیر کے بعد پنڈت نہرو نے سکھ رہنمائوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا کوئی پاس نہیں کیا۔
اس طرح ہندوستان کے اندر سکھوں کو اپنی مرضی کے مطابق سکھ ریاست نہ ملی اور وہ پاکستان کے اندر ملنے والے ان گنت اختیارات و چودھراہٹ سے بھی محروم رہے۔ماسٹر تارا سنگھ کی سیاست کی وجہ سے سکھ خالی ہاتھ رہے۔اس سیاست سے سکھوں کو بہت نقصان ہوا،پنجاب دو ٹکڑے ہو کر برباد ہوا،پنجاب کی بہت بڑی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی،بڑا قتلِ عام ہوا اور پاکستان کو پورا پنجاب نہ ملا۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چونکہ ماسٹر تارا سنگھ کے پورے خاندان کو ضلع راولپنڈی کے مسلمانوں نے تہہ تیغ کر دیا تھا اس لیے ماسٹر تارا سنگھ کے دل میں مسلمانوں کے خلاف آگ لگی ہوئی تھی۔وہ اسی لیے قیامِ پاکستان کے خلاف انتہائی سرگرمِ عمل تھے۔شاید اسی لیے ماسٹر صاحب نے پاکستان کے خلاف نعرہ بھی لگایا۔اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق یہ صحیح ہے کہ 3مارچ1947کو ماسٹر تارا سنگھ چند ساتھی سکھ ممبرانِ اسمبلی کے ہمراہ پنجاب اسمبلی سے باہر آئے ،سیڑھیوں پرپورے زور سے پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا اور کرپان لہرائی۔ یہ تاثر عام ہے کہ ماسٹر تارا سنگھ کی اس بے جا جارحیت کی وجہ سے ان کے گائوں سے ملحقہ بستی کے مسلمانوں نے ان کے سارے خاندان کو مار ڈالا۔ مرنے والوں میں ان کی والدہ اور بڑے بھائی بخشی سنت سنگھ بھی شامل تھے۔آج تک یہ وجہ بتا کر کہا جاتا ہے کہ خاندان کے اسی قتلِ عام کی وجہ سے ماسٹر تارا سنگھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اور پاکستان کے دشمن رہے۔
مشہور تاریخ دان جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین نے کچھ دن پہلے امریکا میں سکھوں کی ایک بیٹھک سے خطاب کیا۔سکھوں کے ساتھ ہونے والے اس خطاب کے دوران چند افراد نے ان سے معلوم کیا کہ تقسیمِ برصغیر کے وقت ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا،کیا ان کے خاندان کے سبھی افراد کو مسلمانوں نے مار ڈالا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے انھیں سکھوں کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کے حوالے دے کر بتایا کہ اگر اتنا بڑا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہوتا تو اس کا ذکر ان رپورٹوں میں ضرور ہوتا۔پہلی رپورٹ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے شائع کی جسے گوربچن سنگھ طالب نے مرتب کیا۔یہ رپورٹ 1949میں شائع کی گئی۔اسی سلسلے کی دوسری رپورٹ جسٹس جی ڈی کھوسلہ نے مرتب کر کے شائع کی۔
یہ رپورٹ پہلی رپورٹ کے کچھ ہی عرصے بعدغالباً1950کے شروع میں شائع کی گئی۔ان دونوں رپورٹوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو مرتب کیا گیا ہے۔یہ رپورٹیں سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بیان نہیں کرتیں۔یہ دونوں رپورٹیں ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کے تہہ تیغ ہونے کے ذکر سے یکسر خالی ہیں۔ڈاکٹر اشتیاق صاحب کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد سکریت سنگھ جو ماسٹر تارا سنگھ کی نواسی کرن جوت کور کے بیٹے ہیں انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا اور اپنی والدہ محترمہ کرن جوت کور سے بات کروائی۔
محترمہ نے بتایا کہ ان کے نانا ماسٹر تارا سنگھ اس وقت لاہور قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور اپنی فیملی کے ساتھ لاہور میں مقیم تھے،البتہ کبھی کبھی اپنے گائوں جا کر بڑے بھائی اور رشتے داروں سے مل آتے تھے۔محترمہ کرن جوت کور نے کہا کہ میں آپ کی بات اپنی کزن اور بخشی سنت سنگھ کی نواسی سرجیت کور سے کروا دیتی ہوں۔محترمہ سرجیت کور کی والدہ چونکہ تقسیم کے دنوں میں گائوں ہریال میں موجود تھیں اس لیے وہ اس سلسلے میں زیادہ بہتر طور پر بیان کر سکتی ہیں۔بعد میں محترمہ سرجیت کور نے ایک ویڈیو بیان میں اس سارے واقعے کو بیان کیا۔
محترمہ سرجیت کورنے کہا کہ میں صرف اتنی بات کروں گی جتنی بات میری والدہ جو بخشی سنت کی بیٹی تھیں انھوں نے بتائی۔محترمہ نے کہا کہ اس وقت میری عمر86برس ہے۔ مجھے میری والدہ نے بتایا کہ تحصیل گوجر خان کے ریلوے جنکشن مندرہ سے کوئی تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارا گائوں ہریال ہے۔ہریال میں صرف سکھ آبادی تھی،کوئی مسلمان اس آبادی میں نہیں رہتا تھا۔ ہریال گائوں کے قریب ہی ایک اور بستی تھی جسے موہڑہ تیلیاں کہا جاتا تھا۔ موہڑے میں مسلمان مختلف بیجوں سے تیل نکالنے کا کام کرتے تھے،اسی لیے اس آبادی کو موہڑہ تیلیاں کہا جاتا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ کے بڑے بھائی بخشی سنت سنگھ ہریال میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان کرتے تھے۔بخشی سنت سنگھ ماسٹر صاحب سے تین سال بڑے تھے۔
3مارچ کو موہڑہ تیلیاں کی مسجد میں ساری آبادی اکٹھی ہوئی۔وہاں پر کیا بات ہوئی اس کی تفصیل کا علم نہیں۔مسجد میں جو لوگ اکٹھے ہوئے ان میں سے دو فرد بخشی سنت سنگھ کے بہت دوست تھے۔ایک کا نام فقیر تھا۔فقیر کی والدہ بچے کی پیدائش کے بعد فوت ہو گئی تھی۔فقیرکو سنت سنگھ کی والدہ نے گود لے لیا اور اپنا دودھ پلا کر بڑا کیا۔فقیر اس وجہ سے بخشی سنت سنگھ اور ان کے گھر سے بہت پیار کرتا تھا۔مسجد میں بات چیت ختم ہوئی تو مسلمانوں نے فقیر کو روک لیا۔ان کے خیال میں فقیر باہر نکل کر بخشی سنت سنگھ کے پاس پہنچ کر اسے حملے سے پیشگی آگاہ کر دیتا اور حملہ ناکام ہو جاتا۔ مسجد میں ایک دوسرا فرد بوستان نامی تھا۔بوستان فقیر کی طرح بخشی سنت سنگھ سے جڑا ہوا تو نہیں تھا لیکن وہ بھی ان کا بہت دوست تھا۔وہ مسجد سے نکل کر چھپتا چھپاتا بخشی سنت سنگھ کے پاس پہنچ گیا اور بتایا کہ رات کو آپ لوگوں پر حملہ ہو گا۔بخشی کو اطلاع ملتے ہی اس نے سارے خاندان کو رات ہوتے ہی نکلنے کی ہدایت کر دی۔
رات کا اندھیرا پھیلتے ہی یہ خاندان پیدل نکل کھڑا ہوا۔پہلے یہ مندرہ پہنچے اور پھر پیدل ہی گوجر خان ۔گوجر خان سے یہ خاندان امرتسر چلا گیا۔ محترمہ سرجیت کور نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے افراد ہریال سے نکلے اور کتنے منزلِ مقصود پر پہنچے کیونکہ ان کی والدہ نے انھیں یہ نہیں بتایا تھا۔محترمہ کا ویڈیو بیان جو کہ دیکھا جا سکتا ہے، اور سکھوں کی مرتب کردہ دونوں رپورٹوں کے مطابق ماسٹر تارا سنگھ کا خاندان بالکل قتل نہیں ہوا۔پورے خاندان کا تہہ تیغ ہونا محض ایک منفی پروپیگنڈہ ہے،جب کہ یہ لوگ بسلامت گائوں سے نکل کر امرتسر چلے گئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماسٹر تارا سنگھ کے محترمہ سرجیت کور بخشی سنت سنگھ کے ساتھ ہونے مسلمانوں کے پاکستان کے ہریال میں خاندان کے خاندان کو کے خاندان کے خلاف ا نے کہا کہ کی والدہ سکھوں کے گوجر خان بتایا کہ شائع کی سنگھ کی
پڑھیں:
کینیڈین وزیراعظم بتائیں، مودی سے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر بات ہوئی؟ سکھ فار جسٹس
خالصتان نواز تنظیم ’سکھ فار جسٹس‘ کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واضح طور پر بتائیں کہ آیا انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کینیڈین شہری اور خالصتان ریفرنڈم کے کوآرڈینیٹر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا معاملہ اٹھایا تھا یا نہیں۔
یہ مطالبہ اس موقع پر سامنے آیا ہے جب 18 جون کو ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کو 2 سال مکمل ہو گئے۔ واضح رہے کہ نجر کو سری، برٹش کولمبیا میں دن دیہاڑے قتل کیا گیا تھا۔
سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور کینیڈین پولیس نے نجر کے قتل کا الزام بھارتی خفیہ ایجنسیوں پر عائد کیا تھا، جس پر بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
سرکاری اعلامیے میں نجر کے قتل کا کوئی ذکر نہیںکارنی اور مودی کے درمیان 17 جون کو دو طرفہ ملاقات کے بعد جاری کردہ سرکاری اعلامیے میں صرف دونوں ممالک کے ہائی کمشنرز کی تقرری کا ذکر کیا گیا، لیکن نجر کے قتل یا بھارت کی مبینہ مداخلت پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
View this post on Instagram
A post shared by Sikhs For Justice (@sikhsforjustice)
’سفارتی تعلقات انصاف پر قربان نہیں ہو سکتے‘سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کا کہنا ہے کہ خالصتان نواز کینیڈین شہری، جن کی جانیں اور حقوق بھارتی ریاستی دھمکیوں کی زد میں ہیں، یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا وزیراعظم کارنی نے بھارتی وزیراعظم سے نجر کے قتل میں ملوث بھارتی ایجنٹوں کا سوال اٹھایا یا نہیں؟
یہ بھی پڑھیے خالصتان تحریک: ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے 2 ماہ پہلے بھارت نے کیا خفیہ حکم جاری کیا تھا؟
ان کا کہنا ہے کہ نجر کے قتل کا انصاف سفارتی یا تجارتی مفادات پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔
بھارتی سفیر کی واپسی ’آسان سفر‘ نہیں ہوگیسکھ فار جسٹس نے واضح طور پر کہا ہے کہ کینیڈا اور بھارت کے درمیان سفارتی بحالی کے باوجود بھارت کے ہائی کمشنر کا کینیڈا میں کام کرنا ’آسان سفر‘ نہیں ہوگا بالخصوص جب تک ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر شفاف تحقیقات اور جوابدہی نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیے بھارت خالصتان تحریک کے رہنما ہردیپ سنگھ نجار سے متعلق دستاویزی فلم سے خوفزدہ
’کینیڈا بھارتی حکومت سے معمول کے سفارتی تعلقات اس وقت تک نہیں رکھ سکتا جب تک ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں نہ لایا جائے۔ اگر یہ معاملہ نظر انداز کیا گیا تو خالصتان حامی سکھ قانونی اور سیاسی مزاحمت جاری رکھیں گے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سکھ فار جسٹس کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی گرپتونت سنگھ پنوں ہردیپ سنگھ نجر