Express News:
2025-11-11@16:55:47 GMT

کیا ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کو مسلمانوں نے قتل کیا

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

ماسٹر تارا سنگھ تقسیم برصغیر کے وقت پنجاب میں سکھوں کے ایک سرکردہ رہنما تھے۔جب مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کے مطالبے نے بہت زور پکڑا تو پنجاب کے کچھ سکھ رہنمائوں نے ہندو رہنمائوںسے مل کر پاکستان کی مخالفت شروع کر دی۔ماسٹر تارا سنگھ 1947کی پنجاب قانون ساز اسمبلی کے ایک ممبر اور بہت با اثر سکھ رہنما تھے۔ماسٹر تارا سنگھ ،راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان میں مندرہ کے قریب ایک گائوں ہریال میں ملہوترہ کھتری خاندان میں پیدا ہوئے۔

انھوں نے خالصہ کالج لائل پور)فیصل آباد(سے گریجویشن کی اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔ان کے نام کے ساتھ ماسٹر کا لفظ اسی حوالے سے لگا ہوا ہے کیونکہ وہ معلمی کا پیشہ اختیار کر چکے تھے۔ماسٹر تارا سنگھ بعد میں سیاست میں آ گئے اور اس میدان میں اپنی شعلہ بیانی کے سبب بہت کامیابی حاصل کی۔خیال کیا جاتا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں مسلم لیگ کی سیاست اور پاکستان کے مطالبے کے خلاف استعمال کیا۔قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کم از کم تین مرتبہ سکھ رہنمائوں سے ملاقات کر کے انھیں پاکستان کے اندر بہت کچھ دینے کی پیش کش کی لیکن مہاراجہ پٹیالہ اور ماسٹر تارا سنگھ نے قائدِ اعظم کی پیش کش کو کوئی اہمیت نہ دی۔تقسیمِ برصغیر کے بعد پنڈت نہرو نے سکھ رہنمائوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا کوئی پاس نہیں کیا۔

اس طرح ہندوستان کے اندر سکھوں کو اپنی مرضی کے مطابق سکھ ریاست نہ ملی اور وہ پاکستان کے اندر ملنے والے ان گنت اختیارات و چودھراہٹ سے بھی محروم رہے۔ماسٹر تارا سنگھ کی سیاست کی وجہ سے سکھ خالی ہاتھ رہے۔اس سیاست سے سکھوں کو بہت نقصان ہوا،پنجاب دو ٹکڑے ہو کر برباد ہوا،پنجاب کی بہت بڑی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی،بڑا قتلِ عام ہوا اور پاکستان کو پورا پنجاب نہ ملا۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چونکہ ماسٹر تارا سنگھ کے پورے خاندان کو ضلع راولپنڈی کے مسلمانوں نے تہہ تیغ کر دیا تھا اس لیے ماسٹر تارا سنگھ کے دل میں مسلمانوں کے خلاف آگ لگی ہوئی تھی۔وہ اسی لیے قیامِ پاکستان کے خلاف انتہائی سرگرمِ عمل تھے۔شاید اسی لیے ماسٹر صاحب نے پاکستان کے خلاف نعرہ بھی لگایا۔اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق یہ صحیح ہے کہ 3مارچ1947کو ماسٹر تارا سنگھ چند ساتھی سکھ ممبرانِ اسمبلی کے ہمراہ پنجاب اسمبلی سے باہر آئے ،سیڑھیوں پرپورے زور سے پاکستان کے خلاف نعرہ لگایا اور کرپان لہرائی۔ یہ تاثر عام ہے کہ ماسٹر تارا سنگھ کی اس بے جا جارحیت کی وجہ سے ان کے گائوں سے ملحقہ بستی کے مسلمانوں نے ان کے سارے خاندان کو مار ڈالا۔ مرنے والوں میں ان کی والدہ اور بڑے بھائی بخشی سنت سنگھ بھی شامل تھے۔آج تک یہ وجہ بتا کر کہا جاتا ہے کہ خاندان کے اسی قتلِ عام کی وجہ سے ماسٹر تارا سنگھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اور پاکستان کے دشمن رہے۔

مشہور تاریخ دان جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین نے کچھ دن پہلے امریکا میں سکھوں کی ایک بیٹھک سے خطاب کیا۔سکھوں کے ساتھ ہونے والے اس خطاب کے دوران چند افراد نے ان سے معلوم کیا کہ تقسیمِ برصغیر کے وقت ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا،کیا ان کے خاندان کے سبھی افراد کو مسلمانوں نے مار ڈالا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے انھیں سکھوں کی مرتب کردہ دو رپورٹوں کے حوالے دے کر بتایا کہ اگر اتنا بڑا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہوتا تو اس کا ذکر ان رپورٹوں میں ضرور ہوتا۔پہلی رپورٹ شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی نے شائع کی جسے گوربچن سنگھ طالب نے مرتب کیا۔یہ رپورٹ 1949میں شائع کی گئی۔اسی سلسلے کی دوسری رپورٹ جسٹس جی ڈی کھوسلہ نے مرتب کر کے شائع کی۔

یہ رپورٹ پہلی رپورٹ کے کچھ ہی عرصے بعدغالباً1950کے شروع میں شائع کی گئی۔ان دونوں رپورٹوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو مرتب کیا گیا ہے۔یہ رپورٹیں سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بیان نہیں کرتیں۔یہ دونوں رپورٹیں ماسٹر تارا سنگھ کے خاندان کے تہہ تیغ ہونے کے ذکر سے یکسر خالی ہیں۔ڈاکٹر اشتیاق صاحب کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بعد سکریت سنگھ جو ماسٹر تارا سنگھ کی نواسی کرن جوت کور کے بیٹے ہیں انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا اور اپنی والدہ محترمہ کرن جوت کور سے بات کروائی۔

محترمہ نے بتایا کہ ان کے نانا ماسٹر تارا سنگھ اس وقت لاہور قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور اپنی فیملی کے ساتھ لاہور میں مقیم تھے،البتہ کبھی کبھی اپنے گائوں جا کر بڑے بھائی اور رشتے داروں سے مل آتے تھے۔محترمہ کرن جوت کور نے کہا کہ میں آپ کی بات اپنی کزن اور بخشی سنت سنگھ کی نواسی سرجیت کور سے کروا دیتی ہوں۔محترمہ سرجیت کور کی والدہ چونکہ تقسیم کے دنوں میں گائوں ہریال میں موجود تھیں اس لیے وہ اس سلسلے میں زیادہ بہتر طور پر بیان کر سکتی ہیں۔بعد میں محترمہ سرجیت کور نے ایک ویڈیو بیان میں اس سارے واقعے کو بیان کیا۔

محترمہ سرجیت کورنے کہا کہ میں صرف اتنی بات کروں گی جتنی بات میری والدہ جو بخشی سنت کی بیٹی تھیں انھوں نے بتائی۔محترمہ نے کہا کہ اس وقت میری عمر86برس ہے۔ مجھے میری والدہ نے بتایا کہ تحصیل گوجر خان کے ریلوے جنکشن مندرہ سے کوئی تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارا گائوں ہریال ہے۔ہریال میں صرف سکھ آبادی تھی،کوئی مسلمان اس آبادی میں نہیں رہتا تھا۔ ہریال گائوں کے قریب ہی ایک اور بستی تھی جسے موہڑہ تیلیاں کہا جاتا تھا۔ موہڑے میں مسلمان مختلف بیجوں سے تیل نکالنے کا کام کرتے تھے،اسی لیے اس آبادی کو موہڑہ تیلیاں کہا جاتا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ کے بڑے بھائی بخشی سنت سنگھ ہریال میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان کرتے تھے۔بخشی سنت سنگھ ماسٹر صاحب سے تین سال بڑے تھے۔

3مارچ کو موہڑہ تیلیاں کی مسجد میں ساری آبادی اکٹھی ہوئی۔وہاں پر کیا بات ہوئی اس کی تفصیل کا علم نہیں۔مسجد میں جو لوگ اکٹھے ہوئے ان میں سے دو فرد بخشی سنت سنگھ کے بہت دوست تھے۔ایک کا نام فقیر تھا۔فقیر کی والدہ بچے کی پیدائش کے بعد فوت ہو گئی تھی۔فقیرکو سنت سنگھ کی والدہ نے گود لے لیا اور اپنا دودھ پلا کر بڑا کیا۔فقیر اس وجہ سے بخشی سنت سنگھ اور ان کے گھر سے بہت پیار کرتا تھا۔مسجد میں بات چیت ختم ہوئی تو مسلمانوں نے فقیر کو روک لیا۔ان کے خیال میں فقیر باہر نکل کر بخشی سنت سنگھ کے پاس پہنچ کر اسے حملے سے پیشگی آگاہ کر دیتا اور حملہ ناکام ہو جاتا۔ مسجد میں ایک دوسرا فرد بوستان نامی تھا۔بوستان فقیر کی طرح بخشی سنت سنگھ سے جڑا ہوا تو نہیں تھا لیکن وہ بھی ان کا بہت دوست تھا۔وہ مسجد سے نکل کر چھپتا چھپاتا بخشی سنت سنگھ کے پاس پہنچ گیا اور بتایا کہ رات کو آپ لوگوں پر حملہ ہو گا۔بخشی کو اطلاع ملتے ہی اس نے سارے خاندان کو رات ہوتے ہی نکلنے کی ہدایت کر دی۔

رات کا اندھیرا پھیلتے ہی یہ خاندان پیدل نکل کھڑا ہوا۔پہلے یہ مندرہ پہنچے اور پھر پیدل ہی گوجر خان ۔گوجر خان سے یہ خاندان امرتسر چلا گیا۔ محترمہ سرجیت کور نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے افراد ہریال سے نکلے اور کتنے منزلِ مقصود پر پہنچے کیونکہ ان کی والدہ نے انھیں یہ نہیں بتایا تھا۔محترمہ کا ویڈیو بیان جو کہ دیکھا جا سکتا ہے، اور سکھوں کی مرتب کردہ دونوں رپورٹوں کے مطابق ماسٹر تارا سنگھ کا خاندان بالکل قتل نہیں ہوا۔پورے خاندان کا تہہ تیغ ہونا محض ایک منفی پروپیگنڈہ ہے،جب کہ یہ لوگ بسلامت گائوں سے نکل کر امرتسر چلے گئے تھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماسٹر تارا سنگھ کے محترمہ سرجیت کور بخشی سنت سنگھ کے ساتھ ہونے مسلمانوں کے پاکستان کے ہریال میں خاندان کے خاندان کو کے خاندان کے خلاف ا نے کہا کہ کی والدہ سکھوں کے گوجر خان بتایا کہ شائع کی سنگھ کی

پڑھیں:

امریکہ، انتخابات میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب

اسلام ٹائمز: کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نهاد عوض کے مطابق غزہ جنگ اور اس کے دوران منظرِ عام پر آنے والی قتل و محاصرے کی تصاویر جو امریکہ کی براہِ راست اسرائیلی حمایت سے منسلک تھیں، انہوں نے امریکی مسلم رائے عامہ کو سیاسی سطح پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق بہت سے مسلمانوں نے صرف فلسطین کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ واشنگٹن کی پالیسی ترجیحات کے خلاف احتجاج کے طور پر سیاست میں قدم رکھا، جہاں امریکی مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسامہ ابو ارشید کا خیال ہے کہ مقامی اور ریاستی سطح پر یہ کامیابیاں مستقبل میں کانگریس اور وفاقی مناصب تک رسائی کے لیے ایک کلیدی قدم ثابت ہوں گی۔ خصوصی رپورٹ:

چند دہائیاں پہلے تک امریکہ کی سیاست میں مسلمانوں کی موجودگی محض علامتی سمجھی جاتی تھی، لیکن حالیہ انتخابات نے ثابت کیا کہ ایک نئی نسل کے مسلم سیاست دان اب ایسی طاقت بن کر ابھرے ہیں جو منظم سیاسی سرگرمی، عوامی اعتماد، اور عالمی حالات، خصوصاً غزہ جنگ کے ردِعمل کی بنیاد پر عدم نمائندگی کی دیواروں کو توڑ کر اثرورسوخ کے حقیقی مناصب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ 

ایک تاریخی موڑ
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں متعدد مسلم امیدواروں کی کامیابی، ملک کی سیاسی و سماجی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق امریکی سیاسی ڈھانچے میں مسلمانوں کی موجودگی اب اس سطح تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ نہ صرف داخلی پالیسی سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعتیں اپنے اندرونی اختلافات اور بڑھتی ہوئی تقسیم کا سامنا کر رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں اور مبصرین نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ کامیابیاں اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی مسلمان سیاست کے حاشیے سے نکل کر مرکزی دھارے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب ان کی شرکت محض علامتی نہیں بلکہ طاقت اور نمائندگی کی حقیقی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ پیش رفت مسلمانوں کے لیے فعال شہری حیثیت کو مضبوط کرتی ہے اور انہیں ایسے سیاسی و سماجی اوزار فراہم کرتی ہے جن سے وہ اپنے حقوق کا دفاع اور نئے نظریات و زاویے پیش کر سکیں۔ الجزیرہ نے لکھا کہ مسلم امیدواروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ان کی کامیابیوں کا سب سے اہم سبب رہا۔

اس اضافے نے انتخابی کامیابی کے امکانات کو بڑھایا، بالخصوص ایسے ماحول میں جہاں اسلامی تنظیموں نے منظم حمایت اور وسائل مہیا کیے۔ یہ تمام عوامل مل کر امریکی مسلم برادری کے لیے وفاقی سطح پر مزید کامیابیوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں، اگرچہ انہیں اب بھی کئی چیلنجز اور بعض اوقات مخالفتوں کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، یہ پیش رفت گزشتہ ہفتے کے انتخابات کے دوران سامنے آئی جب امریکہ کی مختلف ریاستوں سے 76 مسلمان امیدوار میدان میں اترے اور 38 امیدوار کامیاب ہو کر میئر، ریاستی اسمبلیوں کے اراکین اور ڈپٹی گورنر جیسے مناصب تک پہنچے۔

کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے مطابق یہ نتائج تاریخی ریکارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کامیابیوں میں سب سے نمایاں واقعہ زهران ممدانی کا نیویارک کے میئر کے طور پر انتخاب ہے، یہ اس شہر کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کوئی مسلمان اس منصب تک پہنچا ہے۔ نیویارک خصوصاً معیشت اور میڈیا کے میدان میں امریکہ کا سب سے بڑا اور اثر انگیز شہر ہے۔ اسی طرح غزاله ہاشمی ریاست ورجینیا کی ڈپٹی گورنر منتخب ہوئیں۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے ان نتائج کو ایک بے مثال ریکارڈ اور امریکی مسلم برادری کے عروج کی علامت قرار دیا۔

اسباب اور پس منظر:
الجزیرہ کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی انتخابی کامیابیوں میں نمایاں اضافہ ایک ایسے سیاسی، تنظیمی اور سماجی عوامل کے مجموعے کا نتیجہ ہے جنہوں نے امریکی سیاسی نظام میں ان کی بے مثال موجودگی کے لیے زمین ہموار کی۔ یہ عوامل ایک جانب امریکہ میں مسلم برادریوں کی منظم و منصوبہ بند سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ہیں، اور دوسری جانب ان کا تعلق امریکی معاشرے کی اندرونی تبدیلیوں اور ریپبلکن و ڈیموکریٹ جماعتوں کے اندر بڑھتی ہوئی خلیج سے ہے۔ 

کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نهاد عوض نے اس پیش رفت کو مسلم برادری کے اندر ایک مؤثر ادارہ جاتی ڈھانچے کے قیام کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ ڈھانچہ مالیاتی کمیٹیوں، سیاسی لابیز، تربیتی و بااختیاری اداروں پر مشتمل ہے جو اب محض اخلاقی حمایت تک محدود نہیں رہے، بلکہ مسلم امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے پیشہ ورانہ وسائل فراہم کرتے ہیں، جن میں اسٹریٹجک منصوبہ بندی، مالی وسائل کا انتظام، اور میڈیا میسجنگ شامل ہے۔ یہ پیغامات مذہبی و شناختی موضوعات کے ساتھ ساتھ امریکی ووٹر کے حقیقی مسائل جیسے روزگار، صحت اور تعلیم پر بھی مرکوز ہوتے ہیں۔

عوض کے بقول غزہ جنگ اور اس کے دوران منظرِ عام پر آنے والی قتل و محاصرے کی تصاویر جو امریکہ کی براہِ راست اسرائیلی حمایت سے منسلک تھیں، انہوں نے امریکی مسلم رائے عامہ کو سیاسی سطح پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق بہت سے مسلمانوں نے صرف فلسطین کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ واشنگٹن کی پالیسی ترجیحات کے خلاف احتجاج کے طور پر سیاست میں قدم رکھا، جہاں امریکی مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسامہ ابو ارشید کا خیال ہے کہ یہ پیش رفت دراصل امریکی شناخت کے مستقبل پر جاری بڑے مکالمے کا حصہ ہے۔

ان کے مطابق آیا دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ ایک کثیرالثقافتی اور مساوات پر مبنی معاشرہ بنے گا یا ایک بند، نسل پرستانہ معاشرہ کی سمت بڑھے گا، دباؤ، امتیازی قوانین اور منفی میڈیا مہمات کے باوجود اس مکالمے میں مسلمانوں کی شمولیت ان کی مطابقت پذیری اور اثراندازی کا ثبوت ہے، یہ احساس صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ امریکی نوجوانوں، ترقی پسند ڈیموکریٹس اور بعض ریپبلکن شخصیات نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ امریکی امور کے ماہر محمد علاء غانم کے مطابق مقامی اور ریاستی سطح پر یہ کامیابیاں مستقبل میں کانگریس اور وفاقی مناصب تک رسائی کے لیے ایک کلیدی قدم ثابت ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کو اسکے جائز حقوق نہ ملے تو یہ کبھی ترقی کے منازل طے نہیں کرے گا، حیدر عباس رضوی
  • ’وہ زندہ ہیں‘، دھرمیندر کی موت کی خبروں پر اہلِ خانہ کا سخت ردِعمل
  • پشاور: وزیراعلیٰ خیبر پختو نخوا محمد سہیل آفریدی تھا نہ تا تارا کے دورے کے موقع پر ریکارڈ رجسٹر چیک کر رہے ہیں
  • امریکہ، انتخابات میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب
  • ویزا اور ماسٹر کارڈ کا تاجروں سے تاریخی معاہدہ، کارڈ فیس اور انعامی نظام میں بڑی تبدیلی متوقع
  • آر ایس ایس پر پابندی کتنی ضروری ؟
  • اقبال نے مسلمانوں کو جداگانہ شناخت کا احساس دلایا، ارشدکاظمی
  • ہندوتوا کی آگ اور بھارت کا مستقبل
  • جلی ہوئی لاشیں، چیختے بچے: ایک فون چارجر نے پورے خاندان کی جان لے لی
  • لاہور،14تھانوں کے انچارج انویسٹی گیشنز کے تقرر و تبادلے