غیر آئینی ترامیم ختم ، سیاسی قیدی رہا کریں، اپوزیشن اتحاد کا مشترکہ اعلامیہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
8فروری 2024ء کے دھاندلی شدہ انتخابات کے نتائج ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کے ذمہ دار ہیں،موجودہ پارلیمنٹ کے وجود کی کوئی اخلاقی، سیاسی اور قانونی حیثیت نہیں
ہمارا آئین کسی پاکستانی شہری کو سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کیلئے ہراساں، گرفتار یا جیل میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا ،تمام سیاسی اسیروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے، اپوزیشن اتحاد
اپوزیشن اتحاد ’تحریک تحفظ آئین پاکستان ‘کی قومی یکجہتی کانفرنس نے پیکا سمیت تمام غیر آئینی ترامیم ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے وجود کی کوئی اخلاقی، سیاسی اور قانونی حیثیت نہیں ہے ۔اپوزیشن اتحاد تحریک ’تحفظ آئین پاکستان ‘کی قومی یکجہتی کانفرنس کے جاری اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ چوری شدہ انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی غیرنمائندہ حکومت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے سیاسی عدم استحکام، مایوسی، معاشی مشکلات اور صوبوں میں بگڑتی ہوئی امن عامہ کی صورتحال کے پیش نظر شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی کی دعوت پر ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے کانفرنس میں شرکت کی۔ کانفرنس میں ملک بھر سے سول سوسائٹی کے دانشوروں، میڈیا اور صحافی برادری، سینئر وکلا اور ان کی نمائندہ تنظیمیں بھی شریک ہوئیں۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ کانفرنس میں ملک کے بگڑتے ہوئے حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور 2روزہ بحث کے بعد وطن عزیز کو بحران سے نکالنے کیلئے تجاویز پیش کی گئیں۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ ایک نکتے پر حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر شرکا نے مکمل اتفاق تھا اور وہ یہ کہ ہمارا وطن عزیز آئین کی بالادستی اور اس کی حرمت کے تحفظ کے بغیر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے بغیر اور قابل اعتبار نظام عدل کی غیر موجودگی میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ شرکاء نے اتفاق کیا ہے کہ ملک کے مسائل کا حل صرف اور صرف آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں ہے۔8فروری 2024ء کے دھاندلی شدہ انتخابات کے نتائج ملک کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کے ذمہ دار ہیں۔شرکاء نے اتفاق کیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے وجود کی کوئی اخلاقی، سیاسی اور قانونی حیثیت نہیں،ہم آئین کی روح سے متصادم تمام ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔شرکاء نے کہا کہ آئینی انسانی حقوق کی بے دریغ پامالی ملک میں قانون کی حکمرانی کی مکمل نفی ہے اور اس غیر نمائندہ حکومت کی فسطایت کی واضح دلیل ہے۔شرکاء نے اتفاق کیا کہ ہمارا آئین کسی پاکستانی شہری کو سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کیلئے ہراساں، گرفتار یا جیل میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا ،تمام سیاسی اسیروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ شرکاء نے کہا کہ ہم عوام اور میڈیا کی زبان بندی کرنے کیلئے کی گئی پیکا ترامیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔شرکاء نے اتفاق کیا کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ میں لوگوں کی شکایات اور شکووں، خاص طور پر پانی کے وسائل کی تقسیم 1991 کے واٹر ایکورڈ کے مطابق ہونی چاہیے، اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اور ان کو حل کئے بغیر ملک میں امن عامہ کی روزبروز بگڑتی ہوئی صورتحال کو سنبھالا نہیں جاسکتا۔اعلامئے کے مطابق شرکاء نے کہا کہ ملک کے موجودہ بحران کا واحد حل آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے، آج ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کی قومی قیادت اپنے حالات اور معاملات کو پس پشت ڈال کر ایک قومی ڈائیلاگ کے ذریعہ پاکستان کو مستحکم کرنے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے ایک متفقہ حکمت عملی تیار کرے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتیں اس علامئے کے مندراجات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اجتماعی عملی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کرتی ہیں اور یہ جدوجہد پاکستان کے مسائل کے حل اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانے تک جاری رہے گی۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ، جرگہ بلانے کا فیصلہ
پشاور:وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ٹیلیفونک رابطے کیے اور صوبائی اسمبلی کی اِن ہاؤس کمیٹی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل جرگہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان سے بھی ٹیلیفون پر گفتگو کی جس میں صوبے کی امن و امان کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے سینیٹر ایمل ولی خان کو اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کی جانب سے منعقد کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کی دعوت دی، سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ پارٹی سے مشاورت کے بعد اے پی سی میں شرکت سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے بتایا کہ انہوں نے صوبے کے دیگر سیاسی رہنماؤں، جن میں مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، امیر مقام، آفتاب شیرپاؤ اور محمد علی شاہ باچا شامل ہیں، سے بھی رابطے کیے ہیں۔ ان تمام رہنماؤں سے صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن کے قیام پر کوئی دو رائے نہیں، امن و استحکام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر امن سب کا مشترکہ ہدف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے تمام سیاسی رہنماؤں کو باضابطہ طور پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام فریقین کو ساتھ لے کر صوبے میں پائیدار امن اور استحکام یقینی بنایا جائے گا۔