Express News:
2025-06-09@15:22:22 GMT

مصنوعی ذہانت

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

مصنوعی ذہانت کیا کمال دکھا رہی ہے ۔ اس کا حال ہی میں ایسا ثبوت سامنے آیا ہے کہ برطانوی سائنسدان بھی اس کے کرشمے پر حیرت زدہ رہ گئے ہیں۔

برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ طبی ادارے امپریل کالج لندن سے وابستہ طبی ماہر اس بات پر تحقیق کر رہے تھے کہ اینٹی بائیو ٹیکس کچھ ناقابل علاج امراض پر اثر کیوں نہیں کرتیں۔ وہ اس تحقیق میں پچھلے بارہ برس سے مصروف تھے لیکن پچھلے ہفتے پروفیسر جوز نے گوگل کے نئے آئی ٹی تحقیقی ٹول 'سائنٹسٹ کو' سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو پروفیسر اور دیگر سائنسدان یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہ بارہ سال طویل تحقیق کے بعد جن نتائج پر پہنچے تھے وہی 'کوسائنٹسٹ ' نے صرف2دن میں نکال دیے ۔

ایک طرف ترقی یافتہ دنیا اے آئی کے میدان میں زقندیں ماررہی ہے تو دوسری طرف آپ دیکھیں افغانستان میں کیا ہورہا ہے ۔ وہاں گھروں کی کھڑکیوں کو تختے لگا کر بند کیا جارہا ہے تاکہ عورتیں گھر سے باہر نہ جھانک سکیں ۔ نئے گھروں میں بڑی کھڑکیاں بنانے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ اس طرح انھیں مزید قید کیا جارہا ہے جو پہلے ہی حالت قید میں ہیں ۔ 6سال سے زیادہ عمر کی بچی اسکول نہیں جا سکتی ۔ کیونکہ طالبان کو اس میں ایک عورت نظر آتی ہے ۔

ان کی باریک بینی کا اندازہ لگائیں اور اس کی داد دیں ۔ لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک فحاشی اور بے حیائی ہے ۔ ان کے دماغوں میں عورت بس ایک جنس کا نام ہے ۔ چاہے وہ کمسن بچی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان کا دماغ اسے بہن یا بیٹی کے روپ میں قبول نہیں کرسکتا ۔

افغانستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو جن حالات کا سامنا ہے یقیناً دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ افغانستان میں خواتین کو ان بدترین حالات میں مبتلا کرنے والا صرف اور صرف امریکا اور اس کا پالا ہوا، انتہاپسند طبقہ ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ جاتے جاتے مفت میں ہی تخت کابل ان طالبان انتہاپسندوں کے حوالے کرگیا۔ جب افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا ، میں شائد واحد قلم کار تھا جو اس بات کی مسلسل نشاندہی کررہا تھا کہ یہ انخلاء ایک ڈیل کے تحت ہوا ہے ۔

طالبان کو اقتدار اس ڈیل کے تحت ملا ہے۔ حال ہی میں اس کا انکشاف صدر ٹرمپ کے اس مطالبے پر ہوا، جس میں انھوں نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ انھیں دیا گیا، امریکی اسلحہ واپس کریں۔ ابھی تو افغان طالبان نے یہ اسلحہ واپس کرنے سے انکارکردیا ہے جس کی مالیت 7ارب ڈالر ہے کیونکہ انھوں نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہے ۔اس طرح آخر کار اس ڈیل کا بھانڈا پھوٹ گیا جس پر اب تک پردہ پڑا ہوا تھا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہوئی تھی ۔ردعمل میں صدر ٹرمپ نے افغانستان کو دی جانے والی وہ خیرات معطل کردی جو 60ملین ڈالر ہفتہ وار پر مشتمل تھی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ یہ سودی امداد معطل ہونے سے افغانستان میں مہنگائی میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے اور غربت مزید بڑھ گئی ہے ، افغانستان کی نصف آبادی جو پہلے ہی سے غربت کا شکار ہے اب اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ اب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں ۔ آج کا افغانستان اور اس سے ملحقہ وسط ایشیاء علاقے ہمیشہ سے برصغیر پاک وہند کے زرخیز خطے کی مرہون منت رہے ہیں۔

برصغیر پاک وہند کا زرخیز خطہ صدیوں سے وسط ایشائی علاقے کے لوگوں کو غلہ، کاٹن اور دیگر اشیاء مہیا کرتا رہا ہے ۔ وسط ایشیا میں ہونے والی مقامی اقتداری جنگ ہمیشہ برصغیر تک پہنچی ہے، اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں اقتدار کی لڑائیوں میں حکمران درباریوں کا ایک طاقتور گروپ ہمیشہ وسط ایشیاء و ایران کے حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کرکے انھیں مدد کے لیے بلاتا رہا ہے ، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔

یہ حملہ آور مقامی سہولت کاروں کے تعاون سے آتے رہے ، ان حملہ آوروں کے مقامی اتحادی برصغیر پاک و ہند میں اقتدار حاصل کرتے رہے اور معاوضے میں غیرملکی حملہ آور اربوں کھربوں کا مال و دولت لوٹ کر واپس جاتے ہیں۔ اب تقریباً دو سو برس سے یہ سہولت ختم ہوچکی ہے، البتہ سرد جنگ کے فائنل راونڈ میں سوویت یونین اور امریکا و اتحادیوں کے درمیان افغانستان میں جو معرکہ ہوا، اس کے نتیجے میں ڈالروں کی فراوانی ہوئی تو پرانی امنگ دوبارہ جاگ گئی ہیں۔اب ان خوارجی دہشتگردوں کے مقامی سہولت کار، مددگار ، ہمدرد جو ہمارے شہروں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ خوارج پاکستان پر قبضہ کرکے انھیں دوبارہ اقتدار پر بٹھائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں برصغیر پاک

پڑھیں:

افغانستان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، امریکی تھنک ٹینک

پریس ریلیز کے مطابق کیتھی گینن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت کوبھی سراہا۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر صحافی اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی افغانستان اور پاکستان کے لیے نیوز ڈائریکٹر کیتھی گینن نے کہا ہے کہ افغان سر زمین پر عسکریت پسند گروپوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ انسٹیٹوٹ آف ریجنل اسٹیڈیز (آئی آر ایس) کے زیر انتظام اسلام آباد میں منعقدہ ’جیوپولیٹیکل شفٹس اینڈ سیکیورٹی چینلجز‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیتھی گینن کا کہنا تھا کہ شاید افغانستان یہ نہ چاہتا ہو کہ عسکریت پسند گروپس افغانستان کی سرزمین استعمال کریں، لیکن اِس سب کے باوجود وہ (عسکریت پسند گروہ) وہاں بدستور موجود ہیں۔

واضح رہے کہ وہ 2014 میں افغانستان میں رپورٹنگ کرتے ہوئے زخمی ہوگئیں تھیں۔ پریس ریلیز کے مطابق کیتھی گینن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت کوبھی سراہا۔ کیتھی گینن نے کہا کہ پاکستان کو اپنے علاقائی مقاصد کے حصول میں افغان حکومت کو ایک برابر اور شراکت دار کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلام آباد کو اپنے اندرونی سیکیورٹی مسائل کے حل کے لیے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ایک مضبوط اور طویل المدتی حکمت علمی کے ساتھ کارروائیاں کرنا ہوں گی۔

کیتھی گینن کا کہنا تھا کہ چین کے افغانستان میں معدنی وسائل پر اثر و رسوخ کی وجہ سے افغانستان اب بھی امریکا کی پالیسی سازوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اس موقع پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف دُرانی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں، جو ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شمولیت، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بہتری کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ آصف درانی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہہ ملکی مذاکرات میں دہشت گردی ختم کرنے پراتفاق ہوا۔

پریس ریلیز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بہتری کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی آر ایس کے صدر جوہر سلیم نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود، علاقائی جغرافیائی سیاست اور باہمی مفادات نے دونوں ممالک کو مختلف سطحوں پر منسلک اور دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مجبور کیا ہے۔ آئی آر ایس میں افغانستان پروگرام کے سربراہ آرش خان نے کہا کہ طالبان بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن افغانستان عبوری حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف حالیہ دنوں میں ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • پاک افغان تعلقات میں بہتری: کیا طورخم بارڈر سے تجارت پر اثر پڑے گا؟
  • افغانستان سے مذاکرات میں کے پی کو بھی شامل کیا جائے، علی امین گنڈا پور
  • طالبان حکومت کا عیدالاضحیٰ پر ملک چھوڑنے والے مغرب نواز افغانوں کیلئے عام معافی کا اعلان
  • طالبان کا مغرب نواز شہریوں کیلیے عام معافی کا اعلان؛ افغانستان واپس آنے کی دعوت
  • غیرقانونی غیر ملکیوں اورافغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی باعزت وطن واپسی کا عمل جاری
  • افغانستان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، امریکی تھنک ٹینک
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ