Express News:
2025-04-25@10:32:59 GMT

مصنوعی ذہانت

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

مصنوعی ذہانت کیا کمال دکھا رہی ہے ۔ اس کا حال ہی میں ایسا ثبوت سامنے آیا ہے کہ برطانوی سائنسدان بھی اس کے کرشمے پر حیرت زدہ رہ گئے ہیں۔

برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ طبی ادارے امپریل کالج لندن سے وابستہ طبی ماہر اس بات پر تحقیق کر رہے تھے کہ اینٹی بائیو ٹیکس کچھ ناقابل علاج امراض پر اثر کیوں نہیں کرتیں۔ وہ اس تحقیق میں پچھلے بارہ برس سے مصروف تھے لیکن پچھلے ہفتے پروفیسر جوز نے گوگل کے نئے آئی ٹی تحقیقی ٹول 'سائنٹسٹ کو' سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو پروفیسر اور دیگر سائنسدان یہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئے کہ وہ بارہ سال طویل تحقیق کے بعد جن نتائج پر پہنچے تھے وہی 'کوسائنٹسٹ ' نے صرف2دن میں نکال دیے ۔

ایک طرف ترقی یافتہ دنیا اے آئی کے میدان میں زقندیں ماررہی ہے تو دوسری طرف آپ دیکھیں افغانستان میں کیا ہورہا ہے ۔ وہاں گھروں کی کھڑکیوں کو تختے لگا کر بند کیا جارہا ہے تاکہ عورتیں گھر سے باہر نہ جھانک سکیں ۔ نئے گھروں میں بڑی کھڑکیاں بنانے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ اس طرح انھیں مزید قید کیا جارہا ہے جو پہلے ہی حالت قید میں ہیں ۔ 6سال سے زیادہ عمر کی بچی اسکول نہیں جا سکتی ۔ کیونکہ طالبان کو اس میں ایک عورت نظر آتی ہے ۔

ان کی باریک بینی کا اندازہ لگائیں اور اس کی داد دیں ۔ لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک فحاشی اور بے حیائی ہے ۔ ان کے دماغوں میں عورت بس ایک جنس کا نام ہے ۔ چاہے وہ کمسن بچی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان کا دماغ اسے بہن یا بیٹی کے روپ میں قبول نہیں کرسکتا ۔

افغانستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو جن حالات کا سامنا ہے یقیناً دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ افغانستان میں خواتین کو ان بدترین حالات میں مبتلا کرنے والا صرف اور صرف امریکا اور اس کا پالا ہوا، انتہاپسند طبقہ ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ جاتے جاتے مفت میں ہی تخت کابل ان طالبان انتہاپسندوں کے حوالے کرگیا۔ جب افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا ، میں شائد واحد قلم کار تھا جو اس بات کی مسلسل نشاندہی کررہا تھا کہ یہ انخلاء ایک ڈیل کے تحت ہوا ہے ۔

طالبان کو اقتدار اس ڈیل کے تحت ملا ہے۔ حال ہی میں اس کا انکشاف صدر ٹرمپ کے اس مطالبے پر ہوا، جس میں انھوں نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ انھیں دیا گیا، امریکی اسلحہ واپس کریں۔ ابھی تو افغان طالبان نے یہ اسلحہ واپس کرنے سے انکارکردیا ہے جس کی مالیت 7ارب ڈالر ہے کیونکہ انھوں نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہے ۔اس طرح آخر کار اس ڈیل کا بھانڈا پھوٹ گیا جس پر اب تک پردہ پڑا ہوا تھا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہوئی تھی ۔ردعمل میں صدر ٹرمپ نے افغانستان کو دی جانے والی وہ خیرات معطل کردی جو 60ملین ڈالر ہفتہ وار پر مشتمل تھی۔

اب صورت حال یہ ہے کہ یہ سودی امداد معطل ہونے سے افغانستان میں مہنگائی میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے اور غربت مزید بڑھ گئی ہے ، افغانستان کی نصف آبادی جو پہلے ہی سے غربت کا شکار ہے اب اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ اب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں ۔ آج کا افغانستان اور اس سے ملحقہ وسط ایشیاء علاقے ہمیشہ سے برصغیر پاک وہند کے زرخیز خطے کی مرہون منت رہے ہیں۔

برصغیر پاک وہند کا زرخیز خطہ صدیوں سے وسط ایشائی علاقے کے لوگوں کو غلہ، کاٹن اور دیگر اشیاء مہیا کرتا رہا ہے ۔ وسط ایشیا میں ہونے والی مقامی اقتداری جنگ ہمیشہ برصغیر تک پہنچی ہے، اسی طرح برصغیر پاک و ہند میں اقتدار کی لڑائیوں میں حکمران درباریوں کا ایک طاقتور گروپ ہمیشہ وسط ایشیاء و ایران کے حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کرکے انھیں مدد کے لیے بلاتا رہا ہے ، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔

یہ حملہ آور مقامی سہولت کاروں کے تعاون سے آتے رہے ، ان حملہ آوروں کے مقامی اتحادی برصغیر پاک و ہند میں اقتدار حاصل کرتے رہے اور معاوضے میں غیرملکی حملہ آور اربوں کھربوں کا مال و دولت لوٹ کر واپس جاتے ہیں۔ اب تقریباً دو سو برس سے یہ سہولت ختم ہوچکی ہے، البتہ سرد جنگ کے فائنل راونڈ میں سوویت یونین اور امریکا و اتحادیوں کے درمیان افغانستان میں جو معرکہ ہوا، اس کے نتیجے میں ڈالروں کی فراوانی ہوئی تو پرانی امنگ دوبارہ جاگ گئی ہیں۔اب ان خوارجی دہشتگردوں کے مقامی سہولت کار، مددگار ، ہمدرد جو ہمارے شہروں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، اس انتظار میں ہیں کہ کب یہ خوارج پاکستان پر قبضہ کرکے انھیں دوبارہ اقتدار پر بٹھائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں برصغیر پاک

پڑھیں:

کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟

19 اپریل کو پاک افغان مذاکرات کے دوران زیادہ تر گفتگو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات میں بہتری اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق رہی۔ پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار نے افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہی بات کی کہ 2 سال سے زائد عرصے سے دونوں مُلکوں کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکی جس سے دونوں ممالک مواقع کھو رہے ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک افغان تعلقات میں جو بہتری متوقع تھی وہ تو نہ آ سکی بلکہ 15 اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا جس میں زیادہ تر واقعات میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد، پاکستان نہ صرف افغان عبوری حکومت بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر شیئر کرتا رہا۔

پھر ستمبر 2024 میں تمام افغان غیر قانونی افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ فیصلہ افغان عبوری حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اِس پر اُنہوں نے اپنی ناراضی کا برملا اظہار بھی کیا۔

19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ  اسحاق ڈار کا دورہ  کابل اس سارے عرصے میں دونوں مُلکوں کے درمیان اعلٰی سطحی مذاکرات کا پہلا موقع تھا جس کو تمام سفارتی اور سکیورٹی ماہرین کی جانب سے نہ صرف خوش آئند قرار دیا گیا بلکہ معاملات کی درستی کے لیے اُٹھایا گیا قدم قرار دیا گیا۔

اسحاق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے سلسلے میں بات چیت کی۔ افغان مہاجرین کے اس مسئلے پر دونوں مُلکوں کے درمیان کابل میں بھی بات چیت ہوئی اور آج افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کر دی گئی۔

اسحاق ڈار کے دورے کی سب سے اہم بات دونوں مُلکوں کے درمیان ازبکستان، افغانستان پاکستان 647 کلومیٹر ریلوے ٹریک تعمیر کا اعلان تھا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان افغانستان اور چین سہ فریقی فورم کو فعال کرنے کا اعلان بھی ہوا اور 30 جون تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تجارتی معاہدے کی تجدید کی بات بھی کی گئی۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک تجارتی روابط میں بہتری چاہتے ہیں۔

ایمبیسیڈر عبدالباسط

پاکستان کے سابق سینئر سفارتکار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کی شروعات حوصلہ افزا ہے۔ ایک سوال کہ آیا ان مذاکرات سے پاکستان کو درپیش دہشتگردی کا معاملہ ختم ہو پائے گا؟ کے جواب میں ایمبیسیڈر عبدالباسط نے کہا کہ اُن کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اِسلامک سٹیٹ آف خُراسان بدستور ایک خطرہ رہے گا۔

سلمان بشیر

سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ایک معاملہ ہے جبکہ نائب وزیراعظم نے وہاں مختلف دیگر موضوعات و مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔

پاک افغان مذاکرات میں ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق بات چیت ہوئی۔

افغان اُمور کے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ پاک افغان تعلقات میں تلخی کا بڑا سبب دونوں مُلکوں کے تجارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں کوئی صنعت نہیں اور تجارت ہی اُن کا ذریعہ معاش ہے جس کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے سے اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن ایک تو یہ کہ ایران کے ساتھ افغانستان کا صرف ایک بارڈر ملتا ہے جس سے افغانستان کے تجارتی سامان کو بندرگاہ تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن سمیت زیادہ گزرگاہیں ہیں۔ افغان تجارت کے لیے پاکستان موزوں ترین مُلک ہے۔

افغان اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی فخر کاکاخیل کے مطابق جب پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈرز کو بند کرتا ہے تو وہاں کاروبار کا شدید نقصان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں غم و غصّہ بڑھتا ہے۔

نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا فوکس تجارت ہی رہی۔ افغان اُمور کےماہرین کا خیال ہے کہ تجارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کر سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں چھوٹا افغانستان
  • برصغیر کے امن سے کھلواڑ بھارت کو مہنگا پڑے گا، حمزہ شہباز
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • مصنوعی ذہانت محنت کشوں کی جان کے لیے بھی خطرہ، مگر کیسے؟
  • افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
  • مصنوعی ذہانت محنت کشوں کے لیے دو دھاری تلوار، آئی ایل او
  • افغانستان!خواتین کے چائے،کافی اور قہوہ خانوں کی دلفریبیاں
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • انسانیت کے نام پر