بھارتی نژاد کینیڈین تاجر انکت سریواستو کے کینیڈا میں خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
بھارتی حکومت کی دیگر ممالک میں غیر قانونی کاروائیوں میں ملوث رہنے کا ایک اور واقعہ بھارتی نژاد کینیڈین تاجر انکت سریواستو کی کینیڈا میں خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی خبر کے بعد منظر عام پر آگیا ہے۔
اس حوالے سے ماضی میں بھی مختلف رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں، کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل سے لے کر امریکا میں قتل کی سازش تک سب کچھ عیاں ہے۔
گلوبل نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی کاروباری گروپ ’سریواستو گروپ‘ کا ہیڈکوارٹر کینیڈا میں ہے، یہ گروپ نئی دہلی کے ایک خاندان کے زیر انتظام ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے بھارتی حکومت کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ کردیا
گلوبل نیوز کے مطابق سریواستو گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے دفاتر بیلجیم، سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا میں ہیں، یہ گروپ اخباروں اور تیل و گیس کی صنعت کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
کینیڈین قومی سلامتی کے حکام کے مطابق ’سریواستو گروپ‘ اور اس کے سینیئر عہدیداران خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ 2009 میں بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سریواستو گروپ کے نائب چیئرمین انکت سریواستو کو کینیڈا کے سیاستدانوں پر اثرانداز ہونے کی ’ہدایت‘ دی تھی۔
کینیڈین سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے انکت سریواستو کو کینیڈا کے سیاستدانوں کو مالی امداد اور پروپیگنڈا مواد فراہم کرکے بھارت کے حق میں ان کی حمایت حاصل کرنے کا کہا۔
یہ بھی پڑھیے: بھارتی سکھ یاتری حکومت پاکستان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
سی ایس آئی ایس کی 2015 کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سریواستو گروپ پر یہ الزام تھا کہ وہ جعلی ویب سائٹس چلا رہا ہے جو نیوز آؤٹ لیٹس کی طرح نظر آتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ویب سائٹ کا مقصد بھارت کے حق میں مواد شائع کرنا اور پاکستان کے خلاف مواد پھیلانا تھا، کینیڈا کے امیگریشن حکام نے تشویش ظاہر کی کہ انھوں نے انکت سریواستو کو کینیڈا آنے سے روکتے ہوئے اسے ’کینیڈا کے لیے ایک سنگین خطرہ‘ قرار دیا۔
کینیڈین حکام نے یہ بھی کہا کہ سریواستو گروپ کی ویب سائٹس جعلی خبریں پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہی تھیں، ان ویب سائٹس کا مقصد کینیڈا کی عوامی رائے اور انتخابی عمل پر اثرانداز ہونا تھا۔
یہ کیس اس وقت سامنے آیا جب کینیڈا بھارتی حکومت کی طرف سے غیر ملکی مداخلت اور انفارمیشن جنگ کے الزامات کا سامنا کر رہا تھا۔
یہ بھی
سی ایس آئی ایس اور کینیڈا کے دیگر حکام کا کہنا ہے کہ سریواستو گروپ نے یورپ میں بھی بھارت کے حق میں مہم چلائی۔ کینیڈا میں سریواستو گروپ کے خلاف الزامات سامنے آنے کے بعد اس کی ویب سائٹ بند ہو گئی اور اس کے دفتر بھی خالی ہو چکے ہیں۔
انکت سریواستو کو کینیڈا کے حکام نے کینیڈا میں مستقل رہائش دینے سے انکار کر دیا جبکہ سفارتی حلقے ان کی ان سرگرمیوں کو دوسرے ممالک میں کھلی مداخلت قرار دیتے ہیں۔
سفارتی ذرائع کے مطابق انکت سریواستو کی یہ سرگرمیاں ثابت کرتی ہیں کہ بھارتی باشندے غیر ملکی سرزمین پر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں، بھارتی حکومت کی غیر ملکی سرزمین پر غیر قانونی سرگرمیوں کے شواہد واضح کرتے ہیں کہ بھارت دوسرے ممالک میں کھلی مداخلت کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈیا سریواستو گروپ کینیڈا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈیا کینیڈا بھارتی حکومت کینیڈا میں کینیڈا کے کے مطابق میں ملوث یہ بھی
پڑھیں:
منہ میں موجود بیکٹیریا کا خطرناک اعصابی بیماری سے تعلق کا انکشاف
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ رعشے کے مریض کے منہ اور پیٹ میں پائے جانے والے بیکٹیریا میں ہونے والی تبدیلیاں ان مریضوں کی علامات کے بدتر ہونے کے حوالے سے ابتدائی اشارے کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے سائنس دانوں نے بیماری سے متاثر افراد میں ان بیکٹیریل تبدیلیوں اور دماغی مسائل کے درمیان تعلق کی نشاند ہی کی۔
محققین نے بتایا کہ معالجین ٹاکسنز کو ’مارکرز‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ان رعشے کے مریضوں کی شناخت کر سکتے ہیں جن کے ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کے خطرات زیادہ ہوں۔
رعشے کا مرض ایک ارتقائی کیفیت ہے جو دماغ کو متاثر کرتی ہے جس کی علامات میں جسم کے ہلنے کے ساتھ ڈپریشن، توازن کا کھونا، نیند کے مسائل اور یادداشت کا جانا شامل ہے۔
الزائمرز سوسائٹی کے مطابق پارکنسنز میں مبتلا افراد کا ایک تہائی حصہ بالآخر ڈیمیشنیا میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کنگز کالج لندن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سعید شعے کا کہنا تھا کہ انسان کے پیٹ اور منہ کے بیکٹیریا کا تعلق ان اعصابی بیماریوں کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
کنگز کالج لندن کے ماہرین کی سربراہی میں کی جانے والی یہ تحقیق جرنل گٹ مائیکروبز میں شائع ہوئی جس میں سائنس دانوں نے رعشے کے 41 معتدل دماغی مسائل کا شکار رعشے کے مریضوں، 47 رعشے اور ڈیمینشیا کے مریضوں اور 26 صحت مند افراد سے حاصل ہونے والے 228 تھوک اور فضلے کے نمونوں کا جائزہ لیا۔