کھٹمنڈو میں پاکستانی مشن کی عمارت تعمیر نہ ہونے سے 18 کروڑ سے زائد کا نقصان
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
کھٹمنڈو میں پاکستانی مشن کی عمارت تعمیر نہ ہونے سے 18 کروڑ سے زائد کا نقصان WhatsAppFacebookTwitter 0 4 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )پبلک اکا ئو نٹس کمیٹی کے اجلاس میں منگل کو انکشاف کیا گیا ہے کہ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں سفارت خانے کی عمارت تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے کرائے کی مد میں 18 کروڑ 10 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، حالانکہ اس وقت مشن کے پاس تعمیر کے لیے 14 لاکھ ڈالر موجود تھے۔چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت پبلک اکانٹس کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ کٹھمنڈو میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے دفتر اور رہائشی کمپلیکس کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ سے کرائے کی مد میں یہ اخراجات ہوئے۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2008 میں عمارت بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔دوسری جانب دفتر خارجہ نے موقف اختیار کیا کہ کٹھمنڈو میں ہمارے پاس پلاٹس ہیں لیکن فنڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے عمارت نہیں بنا سکے۔آڈٹ حکام نے کہا کہ اس وقت مشن کے پاس 14 لاکھ ڈالر موجود تھے، اس عمارت کے لیے پلاٹ پہلے سے خریدا جا چکا ہے۔ چار لاکھ 58 ہزار ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو آگاہ کریں۔
کمیٹی رکن ثنا اللہ مستی خیل نے سوال کیا کہ ایک پراجیکٹ کو درمیان میں کیوں چھوڑا گیا؟جبکہ جبکہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ کرائے کی مد میں حکومت بہت سارے ممالک میں پیسے ضائع کر رہی ہے، اگر مورٹگیج کی طرف جاتے تو بہت ساری عمارتیں ہماری ملکیت میں ہوتیں۔بعدازاں کمیٹی نے یہ معاملہ ذیلی کمیٹی کے سپرد کر دیا۔
اجلاس کے دوران وزارت خارجہ کے افسران کو دوہری ادائیگیوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ دوہری ادائیگیوں کی وجہ سے افسران کو 50 لاکھ روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی اور انہیں تنخواہوں اور الانسز کی مد میں ڈبل ادائیگی کی گئی۔ دفتر خارجہ کے حکام نے کہا کہ ان افسران کو معلوم نہیں تھا کہ دوہری تنخواہ آ رہی ہے۔
کمیٹی کے اراکین نے اس بات پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ کمیٹی رکن سینیٹر افنان اللہ نے کہا: یہ تو کمیٹی کو بے وقوف بنانے والی بات ہے رچیئرمین پبلک اکانٹس کمیٹی نے سوال کیا کہ اس وقت تنخواہیں واپس کیوں نہیں کیں؟بعدازاں کمیٹی نے ایک ماہ میں اس معاملے کی انکوائری کرنے کی ہدایت کر دی۔ اجلاس کے دوران برطانیہ کے شہر لندن اور فرانس کے شہر پیرس میں مشنز کی جانب سے اجازت کے بغیر تقریبا پانچ کروڑ روپے کی تنخواہیں ادا کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور کنٹیجینٹ پیڈ سٹاف پر چار کروڑ 90 لاکھ روپے کے غیر مجاز اخراجات سے متعلق آڈٹ اعتراض کا جائزہ لیا گیا۔
وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ جب کیس ان کے پاس آئے گا تو جائزہ لیں گے، جس پر کمیٹی رکن نوید قمر نے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا: کیا چار سال تک آپ تک کیس نہیں پہنچا، جو اس پر ایکشن نہیں لیا گیا؟بعد ازاں چیئرمین پی اے سی نے 15 روز میں معاملے کو حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ وزارت خزانہ کے سامنے معاملہ اٹھایا جائے۔ اس معاملے کے ساتھ وزیراعظم کے سیلاب ریلیف فنڈ کی مد میں وصول ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کینیا سے پاکستان نہ بھیجے جانے کے معاملے پر بھی بحث ہوئی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: نہ ہونے
پڑھیں:
اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟