ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی امداد روکدی؛ روس کا خیرمقدم اور یورپی ممالک کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی امداد روک دی جس کا روس نے خیرمقدم کیا ہے تاہم یورپی ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق روس نے امریکا کے یوکرین کی فوجی امداد کے روکے جانے کو امن کے قیام کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔
روس نے امید ظاہر کی ہے یوکرین کی جانب سے جنگ نہ کرنے کی ضمانتوں تک فوجی امداد کو معطل رہنا چاہیے۔
دوسری جانب کئی یورپی ممالک نے امریکا کی جانب سے یوکرین کی فوجی امداد روکنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
فرانس نے کہا کہ اس سے امن کے امکانات مزید مدہم ہو جائیں گے کیونکہ اس سے روس کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔
البتہ برطانیہ نے محتاط ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ دونوں ممالک کا مقصد یوکرین میں ایک مستقل اور محفوظ امن قائم کرنا ہے۔
یاد رہے کہ روس کے ساتھ 3 برسوں سے جاری جنگ میں یوکرین کو بڑے پیمانے پر تباہی اور جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فوجی امداد یوکرین کی
پڑھیں:
روس کے یوکرین سے سخت مطالبات، پیوٹن ،ٹرمپ ملاقات منسوخ کردی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:۔ امریکا نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مجوزہ بوڈاپسٹ سربراہی اجلاس منسوخ کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ روس کی جانب سے یوکرین سے متعلق سخت مطالبات پر قائم رہنے کے بعد کیا گیا۔
برطانوی جریدے کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ دونوں ممالک کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان کشیدہ ٹیلی فونک گفتگو کے بعد سامنے آیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس نے جنگ بندی کے بدلے میں یوکرین سے مزید علاقہ چھوڑنے، مسلح افواج میں نمایاں کمی اور نیٹو میں شمولیت سے مستقل انکار جیسے مطالبات دہرائے، جسے امریکا نے ناقابلِ قبول قرار دیا۔
جریدے کے مطابق، وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی ہم منصب مارکو روبیو کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا گیا کہ روس مذاکرات کے لیے کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ اس کے بعد امریکہ نے اجلاس منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
صدر ٹرمپ پہلے ہی یوکرین کی موجودہ جنگ بندی لائن پر فوری فائر بندی کی حمایت کر چکے ہیں۔دوسری جانب، یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے واضح کیا ہے کہ ان کا ملک امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن وہ روسی دبا ﺅ کے تحت مزید علاقہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔