سالانہ 60 لاکھ نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
ڈیجیٹل یوتھ حب حتمی مراحل میں ہے جس کا اجراء رواں ماہ میں کر دیا جائے گا
نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت سے با اختیار اور بر سر روزگار بنا ئیں گے، وزیر اعظم
وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے نوجوانوں کو مارکیٹ اور صنعتوں میں درکار ہنر اور کھپت کے مطابق تربیتی پروگرامز فراہم کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ اس منصوبے کے تحت آئندہ 4 برس میں 24 لاکھ سالانہ سے لے کر 60 لاکھ سالانہ تک نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر کی فراہمی سے روزگار کے مواقع حاصل کرنے میں مدد کی جائے گی ،وزیرِ اعظم منصوبے پر عمل درآمد کے عمل کی خود نگرانی کریں گے جبکہ اس حوالے سے ماہانہ جائزہ اجلاس کی خود صدارت کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔انہوں نے نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت کے لیے مقامی صنعتوں سے مسلسل روابط اور افرادی قوت کے بین الاقوامی اداروں کی کھپت کو مد نظر رکھنے جبکہ مقامی صنعتوں میں درکار ہنر کے حوالے سے ایک جامع ڈیٹا بیس قائم کرنے کی بھی ہدایت دی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے باصلاحیت نوجوان ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت اور ضروری ہنر کی فراہمی سے با اختیار اور بر سر روزگار بنا رہے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو بین الاقوامی معیار کی تربیت کی فراہمی سے افرادی قوت کی برآمد کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔قبل ازیں، وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت نیشنل یوتھ ایمپلائمنٹ پلان پر جائزہ اجلاس ہوا جس میں وزیرِاعظم کو آئندہ 4 برس میں مختلف اداروں کے ذریعے تربیت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لائحہ عمل سے آگاہ کیا گیا۔اجلاس کو بتایا گیا کہ آئندہ 4 برس میں 24 لاکھ سالانہ سے لے کر 60 لاکھ سالانہ تک نوجوانوں کو پیشہ ورانہ تربیت اور ہنر کی فراہمی سے روزگار کے مواقع حاصل کرنے میں مدد کی جائے گی جبکہ نوجوانوں کی ہنر و پیشہ ورانہ تربیت کی فراہمی کے لیے مارکیٹ اور صنعتوں و بین الاقوامی سطح پر افرادی قوت کی کھپت کو مد نظر رکھا جا رہا ہے۔اجلاس میں وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ ڈیجیٹل یوتھ حب حتمی مراحل میں ہے جس کا اجراء رواں ماہ میں کر دیا جائے گا۔وزیرِ اعظم نے متعلقہ تمام وزارتوں و اداروں کی اس حوالے سے کاوشوں کی تعریف کی۔اجلاس میں وفاقی وزراء احد خان چیمہ، شزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد خان، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
امدادی کٹوتیاں: یو این ادارہ نائیجریا میں کارروائیاں بند کرنے پر مجبور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے نائجیریا میں تشدد اور بھوک کی لپیٹ میں آئے شمال مشرقی علاقے میں 13 لاکھ لوگوں کے لیے ہنگامی غذائی مدد کی فراہمی معطل کر دی ہے۔
ادارے نے بتایا ہے کہ امدادی کارروائیوں کی بدولت رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران اسے علاقے میں بھوک کو پھیلنے سے روکنے میں نمایاں کامیابی ملی لیکن وسائل کی کمی کے باعث یہ کامیابیاں خطرے میں ہیں اور ضروری امدادی پروگرام رواں ماہ کے آخر تک بند ہونے کا خدشہ ہے۔
Tweet URL'ڈبلیو ایف پی' کے پاس مقوی خوراک کے ذخائر پوری طرح ختم ہو چکے ہیں اور وسائل کی ہنگامی بنیاد پر فراہمی کے بغیر لاکھوں لوگ امدادی خوراک سے محروم ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)
ادارے نے بتایا ہے کہ باقیماندہ وسائل تقسیم ہو جانے کے بعد لاکھوں لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا کرنے، نقل مکانی یا خطے میں سرگرم شدت پسند گروہوں کے ہاتھوں استحصال کا نشانہ بننے جیسے خطرات درپیش ہوں گے۔
بچوں کے لیے بدترین حالاتنائجیریا میں 'ڈبلیو ایف پی' کے ڈائریکٹر ڈیوڈ سٹیونسن نے کہا ہے کہ ملک میں تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا ہے ضروری امداد کی فراہمی معطل ہونے سے بچوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
بورنو اور یوبے میں ادارے کی معاونت سے چلنے والے 150 سے زیادہ ایسے طبی مراکز بند ہونے کو ہیں جہاں کمزور بچوں کو غذائیت فراہم کی جاتی ہے۔ ان مراکز کے لیے وسائل کی اشد ضرورت ہے، بصورت دیگر تین لاکھ بچے ان خدمات سے محروم ہو جائیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ محض انسانی بحران نہیں بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی بڑھتا ہوا خطرہ ہے جبکہ بدترین حالات سے دوچار لوگوں کے پاس مدد کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔
شدت پسند گروہوں کا خطرہنائجیریا کے شمالی علاقوں میں شدت پسند گروہوں کے تشدد کے باعث بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ جھیل چاڈ کے علاقے میں رہنے والے تقریباً 23 لاکھ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ان حالات میں محدود وسائل پر بوجھ کہیں بڑھ گیا ہے اور ہنگامی غذائی مدد کی عدم موجودگی میں نوجوانوں کے ان گروہوں کا حصہ بننے کا خدشہ ہے۔
سٹیونسن نے کہا ہے کہ جب امداد کی فراہمی بند ہو جائے گی تو بہت سے لوگ خوراک اور پناہ کی تلاش میں دوسرے علاقوں کی جانب جائیں گے جبکہ دیگر اپنی بقا کے لیے ممکنہ طور پر شدت پسند گروہوں کے لیے کام کرنے لگیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ غذائی مدد کی فراہمی سے ان حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے 'ڈبلیو ایف پی' کو رواں سال کے آخر تک 130 ملین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔