Express News:
2025-06-09@21:13:25 GMT

مصنوعی ذہانت اور صحافت: چیلنجز، مواقع اور مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

مصنوعی ذہانت نے گزشتہ چند برسوں میں جس طرح دنیا بھر کے کئی شعبوں کو متاثر کیا ہے، وہیں صحافت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کی دن بہ دن بڑھتی مقبولیت اور جدت نے صحافت کے روایتی طریقہ کار کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، جس کے نتیجے میں صحافیوں کو ایک طرف تو کئی چیلنجز درپیش ہیں تو دوسری طرف کئی نئے مواقع بھی دستیاب ہوئے ہیں۔


1۔ مصنوعی ذہانت کا صحافت پر اثر

مصنوعی ذہانت نے روایتی صحافت کے مختلف شعبوں (مراحل) کو متاثر کیا ہے، خبروں کی تلاش، تحقیق اور ترتیب کا کام اب اے آئی نے سنھال لیا ہے، جس سے خبروں کا عمل تیز، موثر، اور کم خرچ بھی ثابت ہورہا ہے، وہیں یہ ایسے صحافیوں کے روزگار کےلیے خطرہ بھی بن رہی ہے جو خود کو وقت کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں کر پا رہے۔


(الف) خودکار خبر نگاری (Automated Journalism)

AI ٹولز جیسے کہ GPT-4، BERT اور دیگر نیچرل لینگویج پروسیسنگ (NLP) ماڈلز کی مدد سے خبروں کو خودکار طریقے سے لکھا جاسکتا ہے۔ یہ ٹولز ڈیٹا کو کھنگال کر انتہائی برق رفتاری سے اس کا جائزہ لے کر خبروں کی تشکیل کرتے ہیں، خاص طور پر مالیاتی رپورٹس، موسم کی پیش گوئی یا اور کھیلوں کے نتائج جیسی خبریں۔

اردو اور انگریزی خبروں کی تخلیق: AI ٹولز کو مختلف زبانوں میں تربیت دیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں خبریں لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ٹولز ڈیٹا بیس، سرچ انجنز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے معلومات اکٹھی کرکے چند لمحوں کے اندر انہیں نئی خبر کی شکل میں ڈھال سکتے ہیں۔

خبروں کی تحقیق: AI بڑے پیمانے پر اور بہت تیز رفتاری کے ساتھ ڈیٹا کا تجزیہ کرکے خبروں کے لیے اہم معلومات کو تلاش کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈز کو کھنگال کر عوامی رائے کا جائزہ بھی لے سکتا ہے۔

خبروں کی ترتیب: AI مختصر ہدایات پر عمل کرتے ہوئے خبروں کو ترتیب دے کر انہیں قارئین کی ترجیحات کے مطابق بھی پیش کرسکتا ہے۔ یہ ٹولز خبروں کی اہمیت کے لحاظ سے انہیں ترتیب دیتے ہیں اور صارفین کو ذاتی دلچسپی سے متعلق خبریں فراہم کرتے ہیں۔


(ب) ڈیٹا جرنلزم (Data Journalism)

AI کی مدد سے صحافی بڑے ڈیٹا سیٹس کا تجزیہ کرکے پیچیدہ معلومات کو آسان اور قابل فہم شکل میں سامنے لاسکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر معاشی، سماجی اور سیاسی رپورٹس کے لیے مفید ہے۔


(ج) فوٹو اور ویڈیو جرنلزم

AI ٹولز مثلاً ڈیپ فیک (Deepfake) اور امیج ریکگنیشن کی مدد سے تصاویر اور ویڈیوز کو کھنگال کر ان کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ AI کی مدد سے فوٹو اور ویڈیو مواد کو خودکار طریقے سے تیار بھی کیا جا سکتا ہے۔


2۔ مصنوعی ذہانت صحافیوں کے روزگار کے لیے خطرہ؟

مصنوعی ذہانت کے صحافت میں بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا AI صحافیوں کے روزگار کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟


(الف) روزگار پر ممکنہ اثرات

روایتی خبر نگاری کےلیے خطرات: خودکار خبر نگاری کے ٹولز کی وجہ سے بنیادی خبروں کی تخلیق کے شعبے میں صحافیوں کی ضرورت کم ہوسکتی ہے۔

ملازمتوں میں تبدیلی: AI کی وجہ سے کچھ ملازمتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی نئی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے، جیسے کہ AI ٹولز کو مینیج کرنے والے ماہرین کی ضرورت زیادہ درپیش ہوسکتی ہے۔

 

(ب) صحافیوں کے لیے مواقع

معیاری صحافت: AI کی مدد سے صحافی زیادہ گہرائی اور وسعت کے ساتھ تحقیق کرکے معیاری رپورٹس تیار کر سکتے ہیں۔

نئے شعبے: AI کو سیکھ کر کام کرنے والے صحافیوں کے لیے نئے شعبے مثلاً ڈیٹا جرنلزم اور AI ٹولز کو اپنی ضرورت کے مطابق مزید صلاحیت دے کر استعمال کرنے کے مواقع موجود ہیں۔


3۔ صحافیوں کو درپیش چیلنجز

مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ صحافیوں کو کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔


(الف) خودکار خبر نگاری کا مقابلہ

صحافیوں کو AI کی بنائی ہوئی خبروں کے مقابلے میں اپنی خبروں کو منفرد اور معیاری بنانے کی ضرورت ہوگی۔


(ب) ڈیٹا کی تصدیق

AI کی مدد سے بنائی گئی خبروں اور مواد کی تصدیق کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا، خاص طور پر جب ڈیپ فیک جیسی ٹیکنالوجیز کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔


(ج) اخلاقی مسائل

AI کے استعمال کے دوران صحافیوں کو اخلاقی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، مثلاً غلط معلومات کا ابلاغ، پرائیویسی کے مسائل، کاپی رائٹس یا پھر متعصبانہ مواد سے بچ کر اسے حقیقی اور غیر جانبدارانہ ذرائع سے تصدیق کرکے تیار کرنا۔


4۔ مصنوعی ذہانت کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری مہارتیں

مستقبل میں صحافیوں کو مصنوعی ذہانت کے ساتھ کام کرنے کے لیے نئی مہارتیں سیکھنی ہوں گی۔


(الف) ڈیٹا کا تجزیہ کرنا (Data Analysis)

صحافیوں کو مستقبل میں ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور اسے خبروں کی شکل میں ڈھالنے کی مہارت حاصل کرنی ہوگی، جس کے لیے وسیع تحقیق، مطالعہ اور مشق بنیادی ضرورت ہیں۔


(ب) AI ٹولز کا استعمال

صحافیوں کو AI ٹولز جیسے کہ NLP، ڈیٹا ویژولائزیشن اور خودکار خبر نگاری کے ٹولز کو استعمال کرنے کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔


(ج) تنقیدی سوچ (Critical Thinking)

AI کی بنائی ہوئی خبروں کی تصدیق اور تنقیدی تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی صحافیوں کے لیے ضروری ہوگی۔


(د) اخلاقیات اور پرائیویسی

صحافیوں کو AI کے استعمال کے دوران اخلاقیات اور پرائیویسی کے اصولوں کو سمجھنا لازمی ہوگا۔


مصنوعی ذہانت دنیا کے تقریباً تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی انقلاب برپا کر رہی ہے۔ یہ جہاں صحافیوں کے لیے نئے مواقع لے کر آئی ہے، وہیں اس نے کئی چیلنجز بھی پیدا کیے ہیں۔ صحافیوں کو مستقبل میں کامیاب ہونے کے لیے نئی مہارتیں سیکھنے کے ساتھ ساتھ AI ٹولز کے ساتھ کام کرنے کے لیے پُرعزم ہونا پڑے گا۔

اگرچہ AI کی وجہ سے صحافت میں کچھ روایتی ملازمتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ صحافت کے معیار کو بہتر بنانے اور نئے شعبے پیدا کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ مصنوعی ذہانت کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خودکار خبر نگاری مصنوعی ذہانت کے صحافیوں کے لیے صحافیوں کو AI کی مدد سے استعمال کے کا تجزیہ کی تصدیق کام کرنے خبروں کی سکتا ہے ٹولز کو کے ساتھ AI ٹولز

پڑھیں:

سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز

جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا

رضوان طاہر مبین

ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!

ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔

اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟

یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔

اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘

اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟

’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔

بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟

اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:

آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟

کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟

آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔

یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!

کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘

 بھارت کا سفارتی رافیل

ابنِ امین

ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔

اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔

تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔ 

یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔

 ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔

پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صحافیوں نے اقتصادی سروے کے اعداد و شمار چیلنج کردیے
  • حنیف عباسی کی بانی پی ٹی آئی سے ڈیل کی خبروں کی تردید
  • رضوان، شان کا بطور کپتان مستقبل خطرے میں!
  • سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
  • پانی کے چیلنجز کم کرنے کیلئے فعال منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، اسحاق ڈار
  • بجلی کے 2 میٹر لگانے پر پابندی کی خبروں کی حقیقت سامنے آگئی
  • پاور ڈویژن نے دو بجلی میٹرز پر پابندی کی خبروں کی تردید کر دی
  • اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان
  • انسانی بال سے بھی باریک برطانیہ میں دنیا کی سب سے چھوٹا وائلن تیار
  • برطانیہ میں صحافیوں کو نشانہ بنانے کی مبینہ سازش میں  تین ایرانی افراد پر فردِ جرم عائد