بلوچستان احتجاج ختم کروانے میں ناکامی پر تین ڈپٹی کمشنرز کا تبادلہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
سرکاری اعلامیہ کے مطابق تین مختلف اضلاع میں امن و امان کی صورتحال اور انتظامی أمور میں ناکامی کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنرز کو تبدیل کر دیا۔ مبینہ طور پر تینوں ڈپٹی کمشنرز حکام بالا کی ہدایات کے مطابق احتجاج ختم کروانے میں ناکام رہے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی حکومت نے بلوچستان کے تین مختلف اضلاع میں امن و امان کی صورتحال اور انتظامی أمور میں ناکامی کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنرز کو تبدیل کر دیا۔ تینوں ڈپٹی کمشنرز حکام بالا کی ہدایات کے مطابق احتجاج ختم کروانے میں ناکام رہے تھے۔ سرکاری اعلامیہ کے مطابق ڈپٹی کمشنر قلات لیفٹیننٹ (ر) بلیل شہیر، ڈپٹی کمشنر سوراب کیپٹن (ر) زوالفقار علی اور ڈپٹی کشمنر مستونگ کیپٹن (ر) میرباز خان کو ایس اینڈ جی اے ڈی رپورٹ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ جبکہ ان تینوں اضلاع میں نئے ڈپٹی کمشنرز تعینات کئے گئے ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق کیپٹن (ر) جمیل احمد بلوچ کو ڈپٹی کمشنر، حبیب نصیر کو ڈپٹی کمشنر سوراب، جبکہ زوہیب اللہ کو ڈپٹی کمشنر مستونگ تعینات کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حکومت بلوچستان نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو اپنے اضلاع میں احتجاج سے نمٹنے کا حکم دیا تھا، ناکامی کی صورت میں کارروائی کا عندیہ دیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈپٹی کمشنرز ڈپٹی کمشنر اضلاع میں کے مطابق
پڑھیں:
بلوچستان شدید خشک سالی کے خطرے سے دوچار، ماحولیاتی تبدیلی اور کم بارشیں بڑا چیلنج
ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات اور بارشوں میں تشویشناک کمی کے نتیجے میں بلوچستان ایک بار پھر ممکنہ خشک سالی کے خطرے کی زد میں آ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں ڈرپ اریگیشن کا کامیاب آغاز، خشک سالی میں نئی امید
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقوں میں مغربی ہواؤں کے زیر اثر معمول کے مطابق بارشوں کا امکان ہے تاہم بلوچستان اور سندھ کے بیشتر علاقوں میں اس سال معمول سے کم بارشیں ہوں گی جس کے باعث زیر زمین پانی کی کمی اور زرعی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے وہ علاقے جہاں زیرِ زمین پانی پہلے ہی کم تھا اب خشک سالی کے مزید خطرات کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔
چاغی، نوشکی، پنجگور اور گوادر جیسے اضلاع کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے جہاں پانی کی کمی زراعت اور مالداری دونوں کے لیے سنگین چیلنج بن چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان کا موسمی نظام واضح طور پر بدل گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جہاں کبھی سردیوں کے آغاز پر پہاڑی سلسلوں پر برف باری اور وقت پر بارشیں ہوتی تھیں وہیں اب کئی مہینے بارش نہ ہونے کے باعث خشک سالی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیے: بارشوں اور برف باری میں کمی، کیا بلوچستان میں خشک سالی ہوسکتی ہے؟
کسان اتحاد کے چیئرمین خالد حسین باٹ کے مطابق رواں برس بلوچستان میں ماضی کے مقابلے میں بارشیں بہت کم ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح 1000 سے 1500 فٹ تک نیچے چلی گئی ہے جس سے صوبے میں پانی کی قلت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
خالد حسین زیر زمین پانی کی کمی کے باعث فصلوں اور پھلوں کی پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
ان کے مطابق پانی کی کمی صرف زراعت ہی نہیں بلکہ روزگار اور دہی معیشت کو بھی متاثر کر رہی ہے اور اگر صورتحال برقرار رہی تو کسانوں کے بڑے پیمانے پر کاروبار چھوڑنے کا خدشہ ہے۔
ماہرِ ارضیات دین محمد کاکڑ نے بلوچستان میں جاری خشک سالی کو موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بارشوں کے نظام میں نمایاں بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔
محمد کاکڑ نے کہا کہ ملک کے دیگر حصوں میں شدید بارشیں اور اربن فلڈنگ دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن بلوچستان مسلسل بارشوں کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: گوادر میں پانی کا بحران، وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ہنگامی اقدامات کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ شمالی اضلاع میں سولر ٹیوب ویل کے ذریعے بے تحاشہ پانی نکالا جا رہا ہے مگر اس کی جگہ دوبارہ بھر نہیں رہی اور ہر گزرتے سال پانی کی سطح مزید نیچے جا رہی ہے
انہوں نے کہا کہ کبھی بلوچستان کے کئی علاقوں میں پانی کاریزوں کے ذریعے قدرتی طور پر بہتا تھا اور انہی کاریزوں نے صدیوں تک باغبانی اور فصلوں کو سہارا دیا مگر اب تقریباً تمام کاریزیں خشک ہو چکی ہیں۔
ماہر ارضیات نے کہا کہ اگر پانی کے تحفظ کے لیے فوری پالیسی نہ بنائی گئی تو وہ علاقے جو کبھی کھیتی باڑی اور باغات کے لیے مشہور تھے آنے والے سالوں میں بالکل بنجر ہو جائیں گے۔
ماہرین اور کسانوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹیوب ویل کے بے تحاشہ استعمال پر پابندی اور نگرانی کی جائے اور واٹر مینجمنٹ پالیسی فوری طور پر نافذ کی جائے۔
یہ بھی پڑھیے: زیارت: خشک سالی اور حکومتی بے توجہی نے پھلوں کے بیشتر باغات اجاڑ دیے
ماہرین کے مطابق شہریوں میں پانی کے بچاؤ کی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ بلوچستان کی زراعت اور مستقبل نسلوں کو پانی کی شدید قلت سے بچایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان خشک سالی بلوچستان کی خواتین ماحولیاتی تبدیلی