روزہ نہ رکھنے والے محمد شامی کے دفاع میں جاوید اختر اٹھ کھڑے ہوئے
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
ممبئی(شوبز ڈیسک)معروف نغمہ نگار جاوید اختر نے بھارتی کرکٹر محمد شامی کی حمایت کرتے ہوئے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر ہونے والی شدید تنقید پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔
محمد شامی پر آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے دوران پانی پینے اور روزہ نہ رکھنے کے سبب مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراضات کیے گئے تھے۔
جاوید اختر نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کی.
جاوید اختر نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’شامی صاحب، ان قدامت پسند متعصب لوگوں کی بالکل پرواہ نہ کریں، جنہیں اس بات سے مسئلہ ہے کہ آپ دبئی کے تپتے میدان میں دوپہر کے وقت پانی پی رہے تھے، یہ ان کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ آپ بھارتی ٹیم کا ایک عظیم حصہ ہیں جو ہمیں سب کو فخر محسوس کرا رہی ہے۔ میری نیک تمنائیں آپ اور پوری ٹیم کے ساتھ ہیں۔‘
محمد شامی پر روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے آل انڈیا مسلم جماعت کے صدر نے انہیں مذہبی قانون کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا تھا، تاہم جاوید اختر سمیت کئی دیگر شخصیات نے ان کی حمایت کی ہے۔
شامی کے قریبی رشتہ دار، ڈاکٹر ممتاز نے بھی کہا کہ پاکستان کے کئی کرکٹرز کھیل کے دوران روزہ نہیں رکھتے، اس لیے شامی کے خلاف تنقید کرنا غلط ہے۔
ایم سی اے کے چیف روہت پوار نے بھی شامی کی حمایت میں بیان دیا، اور کہا کہ وہ اس تنازعے سے متاثر نہ ہوں اور 9 مارچ کے میچ پر توجہ مرکوز رکھیں۔
یاد رہے کہ محمد شامی نے چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں شاندار پرفارمنس دکھاتے ہوئے آسٹریلیا کے خلاف 10 اوورز میں 48 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں، جو بھارت کی فتح میں اہم کردار ثابت ہوئی۔
مزیدپڑھیں:بھارت کی مرضی ہی چلنی ہے تو فائنل میں ٹاس کی کیا ضرورت؟ برطانوی اخبار پھٹ پڑا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جاوید اختر
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔