فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو جنگی جرم قرار دیا جائے، اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے جدہ، سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کی جانب سے فوری سفارشات بھی پیش کیں جن میں جنگ بندی معاہدے پر تین مراحل میں مکمل اور فوری عمل درآمد شامل ہے، دشمنی کا مستقل خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، غیر محدود انسانی امداد تک رسائی اور تعمیر نو کا ایک جامع منصوبہ بھی پاکستان کی تجاویز کا حصہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے مسلم امہ پر زور دیا ہے کہ فلسطینی عوام کی غزہ یا مغربی کنارے سے زبردستی نقل مکانی کو نسلی تعصب کی بنیاد پر بے دخلی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرم قرار دیا جائے۔ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اسحٰق ڈار نے جدہ، سعودی عرب میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ کی کونسل کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کی جانب سے فوری سفارشات بھی پیش کیں جن میں جنگ بندی معاہدے پر تین مراحل میں مکمل اور فوری عمل درآمد شامل ہے، دشمنی کا مستقل خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، غیر محدود انسانی امداد تک رسائی اور تعمیر نو کا ایک جامع منصوبہ بھی پاکستان کی تجاویز کا حصہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 (2024ء) پر عمل درآمد کے مطالبے کی مکمل حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت ختم ہونی چاہیے، جنین، تلکرم، نور الشمس اور الفارع میں پناہ گزین کیمپوں کی تباہی نے غزہ کی تباہی کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جبری نقل مکانی، غیر قانونی قبضے اور آباد کاروں پر تشدد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 2720 (2024ء) اور 2334 (2016ء) کے مطابق تبدیل کیا جانا چاہیے اور الحرم الشریف/مسجد اقصیٰ کی قانونی اور تاریخی حیثیت کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔ اسحٰق ڈار نے کہا کہ فلسطینیوں کو وسیع اور بلا روک ٹوک انسانی امداد ملنی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کو بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 (5) کے تحت اسرائیل کا قانونی فرض تھا کہ وہ اس کام میں آسانی پیدا کرے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد اس ذمہ داری کو تقویت دیتی اور انسانی امداد میں رکاوٹ ڈالنے کی تمام کوششوں کی مذمت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امدادی اداروں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ایک غیر اخلاقی عمل اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، انسانی امداد کو کبھی بھی ہتھیار نہیں بنانا چاہیے، جبکہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو سرخ لکیر کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ نائب وزیراعظم نے امت مسلمہ پر زور دیا کہ او آئی سی کو اجتماعی طور پر فلسطینیوں کو ان کے آبائی وطن سے منتقل کرنے کی کسی بھی کوشش کی مخالفت اور روکنا چاہیے، چاہے وہ براہ راست جبر کے ذریعے ہو یا انسانی امداد اور تعمیر نو کی آڑ میں ہو، اس طرح کا کوئی بھی اقدام نسلی تعصب کی بنیاد پر بے گھر کرنے کا عمل اور بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل کی جانب ایک قابل اعتماد اور ناقابل واپسی سیاسی عمل کی بحالی اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، یہی پائیدار امن کا واحد قابل عمل حل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی کو فلسطین کی ریاست کو اقوام متحدہ کے مکمل رکن کے طور پر تسلیم کرانے کے لیے بھی اپنے اجتماعی اثر و رسوخ کو متحرک کرنا چاہیے۔ فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ صدارت میں جون میں ہونے والی آئندہ کانفرنس کے حوالے سے اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ کانفرنس مسئلہ فلسطین کے پرامن اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے ایک اہم موقع ہو گا۔ او آئی سی کو غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کو اس کے جرائم کا جوابدہ ٹھہرانے کے لیے فیصلہ کن سفارتی اور اقتصادی اقدامات کرنے چاہئیں، اس میں تجارتی پابندیاں، مسلسل سفارتی دباؤ اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی شامل ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے مصر کی طرف سے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ منصوبہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک متوازن، عملی اور موثر طریقہ کار پیش کرتا ہے، یہ حقیقت کہ فلسطینیوں کو اس منصوبے کو حتمی شکل دینے میں شامل کیا گیا ہے اور ان کے مستقبل کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے کا تصور کیا گیا ہے، اس سے اس منصوبے کو مزید تقویت ملتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اور بین الاقوامی اقوام متحدہ کی اسح ق ڈار نے پاکستان کی نقل مکانی نے کہا کہ انہوں نے کی جانب کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں بڑی انسانی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی السیستانی
عراق میں مقیم اعلی دینی مرجع نے غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے وہاں رونما ہونیوالی بڑی انسانی تباہی کو فی الفور روکنے پر تاکید کی ہے اسلام ٹائمز۔ عراق میں مقیم اعلی دینی مرجع آیت اللہ سید علی السیستانی نے تاکید کی ہے کہ غزہ کے خلاف تقریباً 2 سالوں سے جاری مسلسل قتل و غارت و تباہی کہ جس میں نہ صرف لاکھوں عام شہری شہید و زخمی ہوئے ہیں بلکہ شہروں کے شہر اور اکثر رہائشی عمارتیں بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں، کے بعد غزہ کی پٹی کے مظلوم فلسطینی عوام اس وقت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، خصوصا خوراک کی شدید قلت کہ جس کے باعث قحط پھیل چکا ہے اور حتی کمسن بچے، بیمار اور بوڑھے بھی اس سے محفوظ نہیں۔
اس حوالے سے آیت اللہ سیستانی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ اگرچہ فلسطینی عوام کو ان کے وطن سے بے گھر کرنے کی مسلسل کوششوں کے تناظر میں قابض صیہونیوں سے، اس ہولناک بربریت کے سوا کسی دوسری چیز کی توقع بھی نہیں لیکن دنیا، بالخصوص عرب و اسلامی ممالک کو اس عظیم انسانی تباہی کے تسلسل کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہیئے اور توقع ہے کہ وہ ان جرائم کا خاتمہ کریں گے اور معصوم فلسطینی شہریوں کے لئے خوراک و بنیادی ضروریات کی جلد از جلد فراہمی کے لئے قابض رژیم اور اس کے حامیوں کو اپنی تمام طاقت کے ذریعے مجبور کریں گے۔
مرجع عالیقدر نے تاکید کی کہ غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر قحط کے ہولناک مناظر جو میڈیا کے ذریعے نشر کئے جا رہے ہیں، کسی بھی با ضمیر شخص کو سکون سے کھانے پینے کی اجازت تک نہیں دیتے جیسا کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے بلاد اسلامی میں کسی عورت کے خلاف زیادتی کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسے کسی واقعے پر غم و غصے سے اپنی جان بھی دے دے تو بھی اس پر کوئی ملامت نہیں بلکہ میرے خیال میں وہ اس کا سزاوار ہے۔