کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو آپ کو مجبوراً پڑھنا پڑتی ہیں اور دوسری وہ جو آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ظفر مسعود کی کتاب ’سیٹ ون سی‘ کا شمار مؤخر الذکر کتابوں میں ہوتا ہے۔
ظفر مسعود پیشے کے اعتبار سے بینکر لیکن مورثی اعتبار سے فلسفی، نفسیات دان اور دانشور ہیں۔ ان کا تعلق اس خانوادے سے ہے جس کی رگوں میں نانا سید محمد تقی، رئیس امرہوری اور جون ایلیا کا خون رواں ہے۔ ان کے والد پاکستان کے نامور اداکار منور سعید ہیں۔ جو ٹی وی فلم اور اسٹیج کا ایک معتبر نام ہے۔
ان کے نانا تقی صاحب وہی ہیں جنہوں نے 1961 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے کہنے ہر کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل کا ترجمہ عربی زبان میں کیا تھا۔
ہر وہ شخص جس کو ادب اور صحافت سے رتی بھر بھی علاقہ ہے وہ رئیس امرہوی کے نام اور کام سے واقف ہے۔ جون ایلیا آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ ان کی شاعری کے تو بہت معترف مل جائیں گے مگر میری رائے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’شائد‘ کا دیباچہ ہے۔ جس نے وہ پڑھا، سمجھا اور سیکھا ہے وہ پھر وہ نہیں رہا۔ جون کا مرید ہو گیا۔ فلسفہ، جون کی نثر کا وصف رہا ہے یا پھر یہ کہیے کہ یہ میراث ہے جو آج کی نسل میں بھی تقسیم کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ہیرے | عمار مسعود کا کالم
ایک مدت تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ بینکر ’بورنگ‘ ہوتے ہیں۔ روٹین کے کام کرکے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور ہندسوں سے آگے سوچنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ لیکن مشتاق احمد یوسفی نے ان تمام خیالات کو فاسد ثابت کیا۔ وہ 4 بینکوں کے صدر اور بینکنگ کونسل کے چیئرمین رہے۔ نہ کبھی اپنے پیشے کو اپنے فن کی راہ میں حائل ہونے دیا نہ کبھی اپنے شوق کو بینکنگ کی راہ میں روکاوٹ بننے دیا۔ جملہ فرسودہ ہو چکا ہے کہ ’ہم اردو فکاہیہ ادب کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔ اب بات یوں بنتی ہے کہ اردو نثر کی آبرو یوسفی ہی ہیں اور ان سا نثر نگار اردو ادب میں کوئی اور نہیں۔ اور یوسفی ایک لاجواب نثر نگار کے علاوہ ایک باکمال بینکر بھی تھے، یعنی
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
ظفر مسعود نے کبھی اپنے خاندان کے حوالے سے خود کو متعارف نہیں کیا، لیکن ’سیٹ ون سی‘ میں اس خانوادے کو ذکر ضرور ہے جس نے ظفر مسعود کی ذہنی تربیت کی ہے۔ پیشے کےا عتبار سے ظفر مسعود ایک گھاگ بینکر ہیں۔ بینکر بھی ایسے کہ بینک آف پنجاب جیسے معروف ادارے کے سی ای او ہیں۔ دنیا بھر کی بینکوں کا پانی انہوں نے پیا ہوا ہے۔ ہر جگہ اپنے علم و ہنر کا لوہا منوا چکے ہیں۔
’سیٹ ون سی‘ 22 مئی 2020 کے ایک لمحے کی کہانی ہے۔ اس ایک لمحے میں ظفر مسعود کی زندگی ہی نہیں دنیا بھی بدل گئی۔ ان کا جہاز لاہور سے اڑا اور کراچی ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے نزدیکی عمارتوں پر جا رہا۔ یہ پی آئی اے کی پرواز فلائٹ 8303 تھی۔ طیارے میں کل 99 لوگ سوار تھے، ان میں سے 97 اس حادثے کا شکار ہوئے۔ 2 مسافر ظفر مسعود اور محمد زبیر اس جان لیوا حادثے میں زندہ بچ گئے۔
اس قدر شدید حادثے میں بچ جانے پر کسی نے اس واقعے کو اتفاق مانا، کسی نے کرشمہ کہا اور کسی نے معجزہ قرار دیا۔ ہم نے بھی خوش قسمتی کو کیا کیا نام دیئے ہوئے ہیں۔ شدید زخمی حالت میں زندہ بچ جانے والے بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعود کی جہاز میں نشست کا ’نمبر ون سی‘ تھا۔ یہ کتاب اس لمحے کی داستان ہے۔ اسکے لمحے کے گزر جانے کے بعد کی زندگی کا احوال ہے۔ جو اس ایک لمحے کی یاد میں پیوست ہے۔
یہ درست ہے کہ اس طرح کے حادثے میں بچ جانا بہت خوش بختی کی بات ہے اور اس پر ایک لاجواب کتاب لکھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ لیکن میں اس تمام کتاب کو اس خدشے کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں کہ کہیں صاحب کتاب اس حادثے میں بچ جانے کو اپنی کرامات کا نتیجہ تو قرار نہیں دے رہے۔ ایسے میں بندہ خود کو کم از کم ولی یا صوفی تو ضرور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ظفر مسعود اس خوش گمانی سے تمام کتاب میں بال بال بچتے رہے۔ اگر وہ اس واقعے کو کوئی ذاتی کرامت یا پارسائی کا نتیجہ قرار دیتے تو پھر اس کتاب کی نہج مخلتف ہوتی۔ پھر اس میں معجزے اور کرشمے پر بحث ہوتی۔ ما بعد الطبیعات کے فلسفے بتائے جاتے مگر اس حادثے کی عقلی توجیہات تحریر میں میسر نہ آتیں۔
یہ کتاب منطق اور دانش کو بروئے کار لا کر لکھی گئی ہے۔ اس میں اس لمحے کا بارہا ذکر ہے جس میں یہ حادثہ ہوا، مگر اس حوالے سے اپنے حق میں نعرہ لگانے سے گریز کیا گیا ہے۔ اور آپ بیتی کے بہانے جہاں بھر کی نیکیوں کی تہمت پر لگوانے سے گریز کیا گیا ہے۔
اپنے ہاں سانحوں کے بارے اس پر سطحی جذباتیت سے ماورا ہو کر عقلی بنیادوں پر بحث کرنا سہل کام نہیں۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر سماج کا کتھارسس کرنا آسان مرحلہ نہیں۔ حادثوں پر ماتم کی ہمارے ہاں روایت ہے، مگر ان حادثوں سے سبق سیکھنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ یہ کتاب آپ کو اشکبار نہیں کرتی بلکہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
کسی نے کہا کتاب پڑھنا ریل کی سفر کی طرح ہوتا ہے۔ کتاب کے ابواب رستے میں آئے اسٹیشنز کی طرح ہوتے ہیں۔ اہمیت رستے میں آئے اسٹیشنز کی نہیں ہوتی بلکہ منزل کی ہوتی ہے۔ لیکن عجب لطف کی بات ہے اس کتاب کا ہر باب آپ کو منزل تک رسائی دیتا ہے۔ ہرباب ایک واقعے کے حوالے سے دانش، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کا نیا پہلو سامنے لاتا ہے۔ ہر باب اتنا مکمل ہے کہ اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پھر بات سمجھائی بھی گئی، کبھی معروف فلسفی کانٹ سے لفظ مستعار لیے گئے، کبھی کارل مارکس کا حوالہ دیا گیا اور کبھی رئیس امروہوی کے اشعار کے توسط سے مدعا بیان کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:جیل سے آن لائن
پہلا باب ’تکبر‘ اس مصنوعی احساس تفاخر پر بات کرتا ہے جو بدقسمتی سے ہم میں بحیثیت قوم بلاوجہ در آیا ہے۔ دوسرا باب ’واجبات‘ کا ہے، جو اس لمحے کے سکون اور سکوت پر بات کرتا ہےکہ جب موت یقینی ہو۔ اس لمحے میں کون سے قرض یاد آتے ہیں جنہیں اتارنے کی فرصت سانسیں نہیں دیتیں۔ تیسرا باب ’نیکی‘ ہے جس میں اس سیاح کی بات کو دہرایا گیا ہے کہ جس نے پیدل دنیا بھر کا سفر کیا، کہیں جنگل میں قیام کیا، کسی سے مانگ کر پیٹ بھرا، کسی رستے میں لُٹ گیا لیکن اس کے دنیا بھر کے سفر کا نتیجہ یہ رہا کہ ’انسان مجموعی طور پر اچھے ہوتے ہیں‘۔ چوتھا باب ’خلوص‘ ہے۔ اس باب میں اخلاص کی فلسفیانہ توجہیات بھی موجود ہیں اور ادبی تلمحیات بھی اس کا حصہ ہیں۔ یہ خلوص کبھی ایک بینک کے سی او کی جانب سے ان کے عملے کے لیے محبت کے پیغام کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی 1857 کی جنگ آزادی کے قصے دہراتا ہے۔ پانچواں باب ’معجزات‘ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کس طرح اس واقعے پر معجزے کے گمان سے مفر کیا گیا ہے۔ حادثے کو حادثہ رکھا اور خود کو نام نہاد صوفی، بزرگ بنانے سے اجتناب کیا گیا۔ چھٹا باب ’قوت ارادی‘ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ قوت ارادی بہت بڑی چیز ہے مگر سب کچھ نہیں۔ کچھ اختیار میں ہے اور بے شمار جگہ آدمی بے اختیار ہے۔ یہی کائنات ہے اور یہی انسان کی فطرت اور جبلت ہے۔ ساتواں باب ’رسومات‘ کے نام سے ہے۔ یہ سماجی رسومات کا ذکر ہے جہاں فرد خدا بننے سے باز نہیں آتا۔ حقیقت کو اپنے افسانوں پردوں میں پنہاں کر کے اس کو رسم کہنے کی قبیح عادت اس سماج میں پرانی ہے۔ لیکن اس کا منطقی موازنہ کم کم ہوتا ہے۔ حقیقت کسی بھی رسم سے بڑی ہوتی ہے۔ آٹھواں باب ’دلیرانہ اقدام‘ ہے، اس میں کسی افسانوی ہیرو کا ذکر نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی سچی کہانی ہے جو طیارے کے حادثے میں زخمی ہوا اور اپنی نفسیاتی صحت کے لیے ماہر نفسیات سے ببانگ دہل مشورہ کرنے کو بہادری بتایا۔
نواں باب ’ابلاغ‘ کی بات کرتا ہے۔ ایک بات کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک منتقل کرنے کے مروج طریقوں پر بحث کرتا ہے۔ اس باب کو میں نے بہت حیرت سے پڑھا اور دیر تک خوشگوار حیرت میں یہ سوچ کر مبتلا رہا کہ کوئی اور بھی ہے اس زمانے میں جو اس طرح سوچتا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو کہتا ہے کہ فنون کی ترویج سے معاشرہ سدھر سکتا ہے ۔شعر کی تحسین سے سے، پینٹنگ کے اسٹروکس کی توصیف سے، نغمے کی دھن سے کی داد سے، رقص کی جوش کی تعریف سے، کہانی لکھنےوالوں کی حوصلہ افزائی سے یہ سماج سدھر سکتا ہے۔ اس سے مجموعی شدت اور نفرت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ معاشرے کو متوازن اور معتدل بنایا جا سکتا ہے۔ میری ساری عمر کی ریاضت اور تربیت کا ثمر یہی سبق ہے اور اس کتاب کے آخری باب کو پڑھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کوئی اور بھی ہے اس روئے زمین پر جس کو اس بات کا ادراک ہے۔
نواں باب ’ورثہ یا ترکہ‘ ہے۔ یہ اس خیال کو موضوع بناتا ہے کہ اگر زندگی نے موقع دیا تو ہم ترکے میں کیا چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنے والی نسلوں کو کیسا سماج دے کر جارہے ہیں؟ اس سوال کا تعلق حیثیت اور نسب سے نہیں بساط سے ہے۔ کیا ہم اپنی بساط کے مطابق ایک بہتر معاشرے کی تخلیق کر رہے ہیں یا پھر اس بے نام ہیجان اور انتشار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی بساط کے مطابق اس عہد کی جھولی میں کیا ڈال رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو سب کو سوچنا ہے بلکہ یہی ایک قابل فکر سوال ہے، باقی تو سب آموختہ ہے۔ آخری باب ایک بہتر معاشرے ایک متوازن دنیا ور معتدل سماج کی امید کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے لیے کل نہیں بلکہ آج سے کام شروع کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:الف سے اللہ، ب سے بلوچستان، پ سے پاکستان
کسی حادثے کا شکار ہو کر لوگ س حادثے کے تمام تر محرکات اور امکانات سے تمام عمر خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ ظفر مسعود کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ نہ صرف اب بھی پی آئی اے سے سفر کرتے ہیں بلکہ بالاصرار اپنی نشست ’سیٹ نمبر ون سی‘ کی ہی درخواست کرتے ہیں۔ یہ صرف خود اعتمادی کا قصہ نہیں اس نظام قدرت پر اعتبار کی بھی بات ہے۔
یہ کتاب پڑھ کر عجب طمانیت کا احساس ہے کہ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ طیارے کے حادثے میں کوئی جانبر ہو جائے اور شاید یہ بات اس سے بھی زیادہ معتبر بات یہ ہے کہ وہ بچ جانے والا شخص ایسی کتاب لکھے جو حادثے کی سنسنی سے گریز کرے اور اس کے محرکات کو منطقی طور پر سمجھے اور اس واقعے کی ذریعے معاشرے کی خیر کے پہلو سوچے۔ یہ بات اس کتاب کو اور اس کے مصنف کو بہت معتبر بناتی ہے۔ یہ کتاب صرف حادثے کی تفصیلات نہیں بتاتی بلکہ زندگی کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے:
تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے
میری ظفر مسعود سے کوئی ملاقات نہیں۔2 دفعہ ایک نابینا دوست کی سفارش کے لیے انہیں فون کیا، جس کا جواب نہایت خندہ پیشانی سے ملا۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ملاقات کی خواہش ہے۔ لفظ ادھوری ملاقات ضرور ہوتے ہیں مگر پوری ملاقات ادھار نہیں رہنا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
بینک بینک آپ پنجاب پی آئی اے جون ایلیا رئیس امروہوی سید تقی ظفر مسعود کارل مارکس۔.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ا ئی اے کارل مارکس ظفر مسعود کی سیٹ ون سی مسعود کا اس واقعے ہوتے ہیں کوئی اور ہیں اور سکتا ہے اس کتاب کیا گیا یہ کتاب کرتا ہے رہے ہیں ہے اور کے لیے گیا ہے خود کو کی بات بات ہے اور اس
پڑھیں:
عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں
ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحیٰ پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ عیدالاضحٰی کی بنیاد ایثار ومحبت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔
یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللّہ سے لا زوال محبت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِنظر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللّہ کی اطاعت اور والد کی محبت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔ پھر اللّہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔
قربانی در اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔
قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللّہ تعالٰی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 37)
لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِقرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحٰی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِقرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمودونمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللّہ کے یہاں مقبول نہیں کیوںکہ رب تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔
وہ بندوں کی شکل و صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔
عیدِقرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خوب دعوتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں! کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہے؟ در حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا تو ویسے بھی انتہائی غیراخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔
قربانی کرنے سے قبل قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟
قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللّہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔
قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امت محمدی ﷺ تک تقریباً ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللّہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امت محمدی ﷺ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی، جب کہ امت محمدی ﷺ کو اللّہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔
فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو اپنے رب کے حکم اور مرضی و منشا پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار میں مضمر اس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔
عیدقرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔
عیدِقرباں کے موقع پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللّہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتے دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللّہ تعالٰی نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔
اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔
اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اور اللّہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی، تو نبی ﷺ نے دریافت کیا، اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کل امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا جو اللّہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔
علاوہ ازیں، گذشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خوب بڑھ گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانے اور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصاویر، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی مہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمائش سے نہ صرف لوگوں میں حسد، جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا تو جس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابر ہو، تب بھی اللّہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔
صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔
آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللّہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)