WE News:
2025-07-25@11:10:20 GMT

’سیٹ ون سی‘

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جو آپ کو مجبوراً پڑھنا پڑتی ہیں اور دوسری وہ جو آپ کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ظفر مسعود کی کتاب ’سیٹ ون سی‘ کا شمار مؤخر الذکر کتابوں میں ہوتا ہے۔

ظفر مسعود پیشے کے اعتبار سے بینکر لیکن مورثی اعتبار سے فلسفی، نفسیات دان اور دانشور ہیں۔ ان کا تعلق اس خانوادے سے ہے جس کی رگوں میں نانا سید محمد تقی، رئیس امرہوری اور جون ایلیا کا خون رواں ہے۔ ان کے والد پاکستان کے نامور اداکار منور سعید ہیں۔ جو  ٹی وی فلم اور اسٹیج کا ایک معتبر نام ہے۔

ان کے نانا تقی صاحب وہی ہیں جنہوں نے 1961 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے کہنے ہر کارل مارکس کی کتاب داس کیپٹل کا ترجمہ عربی زبان میں کیا تھا۔

 ہر وہ شخص  جس کو ادب اور صحافت سے رتی بھر بھی علاقہ ہے وہ رئیس امرہوی کے نام اور کام سے واقف ہے۔ جون ایلیا آج بھی نوجوانوں کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔ ان کی شاعری کے تو بہت معترف مل جائیں گے مگر میری رائے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’شائد‘ کا دیباچہ ہے۔ جس نے وہ پڑھا، سمجھا اور سیکھا ہے وہ پھر وہ نہیں رہا۔ جون کا مرید ہو گیا۔ فلسفہ، جون  کی نثر کا وصف رہا ہے یا پھر یہ کہیے کہ یہ میراث ہے جو آج کی نسل میں بھی تقسیم کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ہیرے | عمار مسعود کا کالم

ایک مدت تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ بینکر ’بورنگ‘ ہوتے ہیں۔ روٹین کے کام کرکے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور ہندسوں سے آگے سوچنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ لیکن مشتاق احمد یوسفی نے ان تمام خیالات کو فاسد ثابت کیا۔ وہ 4 بینکوں کے صدر اور بینکنگ کونسل کے چیئرمین رہے۔ نہ کبھی اپنے پیشے کو اپنے فن کی راہ میں حائل ہونے دیا نہ کبھی اپنے شوق کو بینکنگ کی راہ میں روکاوٹ بننے دیا۔ جملہ فرسودہ ہو چکا ہے کہ ’ہم اردو فکاہیہ ادب کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔ اب بات یوں بنتی ہے کہ اردو نثر کی آبرو یوسفی ہی ہیں اور ان سا نثر نگار اردو ادب میں کوئی اور نہیں۔ اور یوسفی ایک لاجواب نثر نگار کے علاوہ ایک باکمال بینکر بھی تھے، یعنی

ہم جیتے جی مصروف رہے

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

ظفر مسعود نے کبھی اپنے خاندان کے حوالے سے خود کو متعارف نہیں کیا، لیکن ’سیٹ ون سی‘ میں اس خانوادے کو ذکر ضرور ہے جس نے ظفر مسعود کی ذہنی تربیت کی ہے۔ پیشے کےا عتبار سے ظفر مسعود ایک گھاگ بینکر ہیں۔ بینکر بھی ایسے کہ بینک آف پنجاب جیسے معروف ادارے  کے سی ای او ہیں۔ دنیا بھر کی بینکوں کا پانی انہوں نے پیا ہوا ہے۔ ہر جگہ اپنے علم و ہنر کا لوہا منوا چکے ہیں۔

’سیٹ ون سی‘ 22 مئی 2020 کے ایک لمحے کی کہانی ہے۔ اس ایک لمحے میں ظفر مسعود کی زندگی ہی نہیں دنیا بھی بدل گئی۔ ان کا جہاز لاہور سے اڑا اور کراچی ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے نزدیکی عمارتوں پر جا رہا۔ یہ پی آئی اے کی پرواز فلائٹ 8303 تھی۔ طیارے میں کل 99 لوگ سوار تھے، ان میں سے 97 اس حادثے کا شکار ہوئے۔ 2 مسافر ظفر مسعود اور محمد زبیر اس جان لیوا حادثے میں زندہ بچ گئے۔

اس قدر شدید حادثے میں بچ جانے پر کسی نے اس واقعے کو  اتفاق مانا، کسی نے کرشمہ کہا اور کسی نے معجزہ قرار دیا۔ ہم نے بھی خوش قسمتی کو کیا کیا نام دیئے ہوئے ہیں۔ شدید زخمی حالت میں زندہ بچ جانے والے بینک آف پنجاب کے سی ای او ظفر مسعود کی جہاز میں نشست کا ’نمبر ون سی‘ تھا۔ یہ کتاب اس لمحے کی داستان ہے۔ اسکے لمحے کے گزر جانے کے بعد کی زندگی  کا احوال ہے۔ جو اس ایک لمحے کی یاد میں پیوست ہے۔

یہ درست ہے کہ اس طرح کے حادثے میں بچ جانا بہت خوش بختی کی بات ہے اور اس پر ایک لاجواب کتاب لکھنا بڑے حوصلے کا کام ہے۔ لیکن میں اس تمام کتاب کو اس خدشے کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں کہ کہیں صاحب کتاب اس حادثے میں بچ جانے کو اپنی کرامات کا نتیجہ تو قرار نہیں دے رہے۔ ایسے میں بندہ خود کو کم از کم ولی یا صوفی تو ضرور سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ظفر مسعود اس خوش گمانی سے تمام کتاب میں بال بال بچتے رہے۔ اگر وہ اس واقعے کو کوئی ذاتی کرامت یا پارسائی کا نتیجہ  قرار دیتے تو پھر اس کتاب کی نہج مخلتف ہوتی۔ پھر اس میں  معجزے اور کرشمے پر بحث ہوتی۔ ما بعد الطبیعات کے فلسفے بتائے جاتے مگر اس حادثے کی عقلی توجیہات تحریر میں میسر نہ آتیں۔

یہ کتاب منطق اور دانش کو بروئے کار لا کر لکھی گئی ہے۔ اس میں اس لمحے کا بارہا ذکر ہے جس میں یہ حادثہ ہوا، مگر اس حوالے سے اپنے حق میں نعرہ لگانے سے گریز کیا گیا ہے۔ اور آپ بیتی کے بہانے جہاں بھر کی نیکیوں  کی تہمت پر لگوانے سے گریز کیا گیا ہے۔

اپنے ہاں سانحوں کے بارے اس پر سطحی جذباتیت سے ماورا ہو کر عقلی بنیادوں پر بحث کرنا سہل کام نہیں۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر سماج کا کتھارسس کرنا آسان مرحلہ نہیں۔ حادثوں پر ماتم کی ہمارے ہاں روایت ہے، مگر ان حادثوں سے سبق سیکھنا ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ یہ کتاب آپ کو اشکبار نہیں کرتی بلکہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

کسی نے کہا کتاب پڑھنا ریل کی سفر کی طرح ہوتا ہے۔ کتاب کے ابواب رستے میں آئے اسٹیشنز کی طرح ہوتے ہیں۔ اہمیت رستے میں آئے اسٹیشنز کی نہیں ہوتی بلکہ منزل کی ہوتی ہے۔ لیکن عجب لطف کی بات ہے اس کتاب کا ہر باب آپ کو منزل تک رسائی دیتا ہے۔ ہرباب ایک واقعے کے حوالے سے دانش، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کا نیا پہلو سامنے لاتا ہے۔ ہر باب اتنا مکمل ہے کہ اس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پھر بات سمجھائی بھی گئی،  کبھی معروف فلسفی کانٹ سے لفظ مستعار لیے گئے،  کبھی کارل مارکس کا حوالہ دیا گیا اور کبھی رئیس امروہوی کے اشعار کے توسط سے مدعا بیان کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:جیل سے آن لائن

پہلا باب ’تکبر‘ اس مصنوعی احساس تفاخر پر بات کرتا ہے جو بدقسمتی سے ہم میں بحیثیت قوم بلاوجہ در آیا ہے۔ دوسرا باب ’واجبات‘ کا ہے، جو اس لمحے کے سکون اور سکوت  پر بات کرتا ہےکہ جب موت یقینی ہو۔ اس لمحے میں کون سے قرض یاد آتے ہیں جنہیں اتارنے کی فرصت سانسیں نہیں دیتیں۔ تیسرا باب ’نیکی‘ ہے جس میں اس سیاح کی بات کو دہرایا گیا ہے کہ جس نے پیدل دنیا بھر کا سفر کیا، کہیں جنگل میں قیام کیا، کسی سے مانگ کر پیٹ بھرا، کسی رستے میں لُٹ گیا لیکن اس کے دنیا بھر کے سفر کا نتیجہ یہ رہا کہ ’انسان مجموعی طور پر اچھے ہوتے ہیں‘۔ چوتھا باب ’خلوص‘ ہے۔ اس باب میں اخلاص کی فلسفیانہ توجہیات بھی موجود ہیں اور ادبی تلمحیات بھی اس کا حصہ ہیں۔ یہ خلوص کبھی ایک بینک کے سی او کی جانب سے ان کے عملے کے لیے محبت کے پیغام کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی 1857 کی جنگ آزادی کے قصے دہراتا ہے۔ پانچواں باب ’معجزات‘ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ کس طرح اس واقعے پر معجزے کے گمان سے مفر کیا گیا ہے۔ حادثے کو حادثہ رکھا اور خود کو نام نہاد صوفی، بزرگ بنانے سے اجتناب کیا گیا۔ چھٹا باب ’قوت ارادی‘ ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ قوت ارادی بہت بڑی چیز ہے مگر سب کچھ نہیں۔ کچھ اختیار میں ہے اور بے شمار جگہ آدمی بے اختیار ہے۔ یہی کائنات ہے اور یہی انسان کی فطرت اور جبلت ہے۔ ساتواں باب ’رسومات‘ کے نام سے ہے۔ یہ سماجی رسومات کا ذکر ہے جہاں فرد خدا بننے سے باز نہیں آتا۔ حقیقت کو اپنے افسانوں پردوں میں پنہاں کر کے اس کو رسم کہنے کی قبیح عادت اس سماج میں  پرانی ہے۔ لیکن اس کا منطقی موازنہ کم کم ہوتا ہے۔ حقیقت کسی بھی رسم سے بڑی ہوتی ہے۔ آٹھواں باب ’دلیرانہ اقدام‘ ہے، اس میں کسی افسانوی ہیرو کا ذکر نہیں، بلکہ ایک ایسے انسان کی سچی کہانی ہے جو طیارے کے حادثے میں زخمی ہوا اور اپنی نفسیاتی صحت کے لیے ماہر نفسیات سے ببانگ دہل مشورہ کرنے کو بہادری بتایا۔

نواں  باب ’ابلاغ‘ کی بات کرتا ہے۔ ایک بات کو ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک منتقل کرنے کے مروج طریقوں پر بحث کرتا ہے۔ اس باب کو میں نے بہت حیرت سے پڑھا اور دیر تک خوشگوار حیرت میں یہ سوچ کر مبتلا رہا  کہ کوئی اور بھی ہے اس زمانے میں جو اس طرح سوچتا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو کہتا ہے کہ فنون کی ترویج سے معاشرہ سدھر سکتا ہے ۔شعر کی تحسین سے سے، پینٹنگ کے اسٹروکس کی توصیف سے، نغمے کی دھن سے کی داد سے، رقص کی جوش کی تعریف سے، کہانی لکھنےوالوں کی حوصلہ افزائی سے یہ سماج سدھر سکتا ہے۔ اس سے مجموعی شدت اور نفرت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ معاشرے کو متوازن اور معتدل بنایا جا سکتا ہے۔ میری ساری عمر کی ریاضت اور تربیت  کا ثمر یہی سبق  ہے اور اس کتاب کے آخری باب کو پڑھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ کوئی اور بھی ہے اس روئے زمین پر جس کو اس بات کا ادراک ہے۔

نواں باب ’ورثہ یا ترکہ‘ ہے۔ یہ اس خیال کو موضوع بناتا ہے کہ اگر زندگی نے موقع دیا تو ہم ترکے میں کیا چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنے والی نسلوں کو کیسا سماج دے کر جارہے ہیں؟ اس سوال کا تعلق حیثیت اور نسب سے نہیں بساط سے ہے۔ کیا ہم اپنی بساط کے مطابق ایک بہتر معاشرے کی تخلیق کر رہے ہیں یا پھر اس بے نام ہیجان اور انتشار کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنی بساط کے مطابق اس عہد کی جھولی میں کیا ڈال رہے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو سب کو سوچنا ہے بلکہ یہی ایک قابل فکر سوال ہے، باقی تو سب آموختہ ہے۔ آخری باب ایک بہتر معاشرے ایک متوازن دنیا ور معتدل سماج کی امید کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے لیے کل نہیں بلکہ آج سے کام شروع کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:الف سے اللہ، ب سے بلوچستان، پ سے پاکستان

کسی حادثے کا شکار ہو کر لوگ س حادثے کے تمام تر محرکات اور امکانات سے تمام عمر خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ ظفر مسعود کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ نہ صرف اب بھی پی آئی اے سے  سفر کرتے ہیں بلکہ بالاصرار اپنی نشست ’سیٹ نمبر ون سی‘ کی ہی درخواست کرتے ہیں۔ یہ صرف خود اعتمادی کا قصہ نہیں اس نظام قدرت پر اعتبار کی بھی بات ہے۔

یہ کتاب پڑھ کر عجب طمانیت کا احساس ہے کہ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ طیارے کے حادثے میں کوئی جانبر ہو جائے اور شاید یہ بات اس  سے بھی زیادہ معتبر بات یہ ہے کہ وہ بچ جانے والا شخص ایسی کتاب لکھے جو حادثے کی سنسنی سے گریز کرے اور اس کے محرکات کو منطقی طور پر سمجھے اور اس واقعے کی ذریعے معاشرے کی خیر کے پہلو سوچے۔ یہ بات اس کتاب کو اور اس کے مصنف کو بہت معتبر بناتی ہے۔ یہ کتاب  صرف حادثے کی تفصیلات نہیں بتاتی بلکہ زندگی کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے:

تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں

تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے

میری ظفر مسعود سے کوئی ملاقات نہیں۔2 دفعہ ایک نابینا دوست کی سفارش کے لیے انہیں فون کیا، جس کا جواب نہایت خندہ پیشانی سے ملا۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ملاقات کی خواہش ہے۔ لفظ ادھوری ملاقات ضرور ہوتے ہیں مگر پوری ملاقات ادھار نہیں رہنا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

بینک بینک آپ پنجاب پی آئی اے جون ایلیا رئیس امروہوی سید تقی ظفر مسعود کارل مارکس۔.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ا ئی اے کارل مارکس ظفر مسعود کی سیٹ ون سی مسعود کا اس واقعے ہوتے ہیں کوئی اور ہیں اور سکتا ہے اس کتاب کیا گیا یہ کتاب کرتا ہے رہے ہیں ہے اور کے لیے گیا ہے خود کو کی بات بات ہے اور اس

پڑھیں:

بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں

بلوچستان کے مسئلے کو عشروں سے جس انداز میں نظر انداز اور غلط طریقے سے نپٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس نے حالات کو مزید پیچیدہ اور نازک بنا دیا ہے۔

ضروری ہے کہ ایک مربوط قومی کوشش کے ذریعے پچھلے برسوں کی غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ مسائل کا حل حکومت کرسکتی ہے اور دیگر سیاسی قیادت معاونت، مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور اسمبلیاں بنیادی جمہوری تقاضا یعنی عوام کے منصفانہ اور شفاف ووٹ سے منتخب ہونے کی شرائط پوری نہیں کرتیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان حکومتوں کو وہ عوامی حمایت حاصل نہیں جو بلوچستان جیسے حساس اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے درکار ہے۔ اس خلاء کو پْر کرنے کے لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کی مدد درکار ہوتی ہے، جو ماضی میں بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ اس مسئلے کو صحیح انداز میں نہیں سنبھال سکی۔ معاشرتی، سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرنا دفاعی اداروں کا کام ہے اورنہ طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھاجائے۔ ان زخموں پر مرہم لگانا ہوگاجو اپنوں اور غیروں نے دیے ہیں۔تاریخی طور پر، خان آف قلات کی وساطت سے بلوچستان نے آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اْس وقت کے تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولہ کے تحت کیا گیا جس میں ریاستوں کو بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا اختیار دیا گیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت نے اس فارمولہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد اور جوناگڑھ پر جبراً قبضہ کیا اور کشمیر پر قبضے کے بعد آج تک قتل و غارتگری جاری ہے۔ بلوچستان کی تاریخی حیثیت ہر لحاظ سے واضح ہے… چاہے وہ افغانستان کے ساتھ قدیمی تعلقات ہوں، برطانوی راج سے آزادی ہو یا پھر گوادَر جیسے ساحلی علاقے کا سلطنتِ عمان سے ریاستی معاہدے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا۔ بلوچستان کا اصل مسئلہ وہاں کے باسیوں کے حقوق کا ہے… بلوچ، پشتون، ہزارہ، اقلیتیں اور دوسرے صوبوں سے آ کر بسنے والے لوگ— سب کسی نہ کسی حد تک متاثر ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صوبوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین نے بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کے عوام افسوس کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی بنا پر مہاجرین کی بڑی تعداد کو صوبہ چھوڑنا پڑا، جس سے تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور صوبہ طویل عرصے تک ماہر افرادی قوت کی تیاری میں پیچھے رہ گیا۔

آج بھی دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہنر مند اور مزدوریہاں اہم خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کی سلامتی اور فلاح نہ صرف انسانی بنیادوں پر ضروری ہے بلکہ بلوچستان کی ترقی کے لیے بھی لازم ہے۔ بلوچستان میں ایسے منصوبے بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی نوجوان بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت بن سکیں۔اب ہمیں ماضی سے نکل کر مستقبل پر توجہ دینی ہے۔ مسائل کے حل کی طرف جانا ہوگا تاکہ بلوچستان ایک پْرامن اور خوشحال خطہ بنے۔ اس کے قدرتی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اصل دولت انسان ہے۔ انسانی وسائل کی ترقی ہی بلوچستان اور پاکستان کی پائیدارترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل دینا ہوگا تاکہ کوئی دوبارہ پہاڑوں کی طرف نہ دیکھے۔

بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ میرٹ کی پامالی ہے۔ اسمبلیاں میرٹ پر منتخب ہوتی ہیں اور نہ ہی نوکریوں و تعلیمی اداروں میں میرٹ کا نظام موجود ہے۔ سرداری نظام صوبے کے باصلاحیت نوجوانوں کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ عوام کو اس غلامی سے نجات دلانا ضروری ہے۔ عام آدمی سرداروں کے خلاف الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

حقیقی حکمرانی اور فیصلوں کا اختیار سرداروں کے پاس ہے۔سو ل انتظامیہ اور دیگر اداروں میں ملازمتیں اور تعلیمی مواقع بھی سرداروں اور بااثر طبقات کو ہی ملتے ہیں۔ یہی نظام کاروبار اور ٹھیکوں میں بھی کام آتا ہے، یہاں تک کہ اسمگلنگ جیسے غیر قانونی کام بھی انھی تعلقات کی بنیاد پر فروغ پاتے ہیں۔

سرداروں اور سرکاری اداروں کا یہ اتحاد بلوچستان کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے۔یہی میرٹ کی پامالی سرکاری و نجی شعبے کے ناکامیوں کی جڑ ہے۔ جو بھی رقم وفاق یا این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے آتی ہے، وہ ضایع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر 100 ڈیمز کا منصوبہ جو مکمل ہونے سے پہلے ہی سیلاب میں بہہ گیا۔

بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور کاروبار کے منصفانہ مواقع دینے سے کئی مسائل خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان مایوس ہیں اور یہ مایوسی بیرونی پروپیگنڈے کو کامیاب بناتی ہے، جس کا مقصد علیحدگی پسند ذہنیت پیدا کرنا ہے۔ ہمیں پہلے اپنی غلطیوں کو دیکھنا چاہیے۔چند مثالیں واضح کریں گی کہ بلوچستان کے عام آدمی کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ گوادر سی پیک کا مرکز ہے، مگر مقامی آبادی حکومتی توجہ سے محروم ہے۔

غریب ماہی گیر غیر قانونی جالوں سے تنگ ہیں جو سمندر کی حیاتیات کو ختم کر رہے ہیں۔ ایرانی سرحد سے ضروری اشیاء کی نقل و حرکت پر عام لوگوں کو روکا جاتا ہے جب کہ اسمگلرز آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ چمن بارڈر پر بھی یہی صورتحال ہے۔ترقی کے اعتبار سے بلوچستان پیچھے ہے۔ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کی سڑکوں، صنعت، اور ہنر سازی میں سرمایہ کاری اور چین کے منصوبوں کو بلوچستان میں لانے میں ناکام رہے، نہ ہی ہم نے سی پیک اسکالرشپ کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ منصوبے رْکے ہوئے ہیں یا تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر صنعتی زونز پر توجہ دی جاتی، تو روزگار اور معیشت میں بہتری آتی۔

بلوچستان کے آئینی حقوق کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کے لیے جائز جدوجہد کو طاقت سے کچلنا بغاوت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اجتماعی سزا اور ''collateral damage'' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل بلوچستان کے امن کو تاراج کررہے ہیں۔

بلوچستان کا ایک اور آئینی حق گیس کی فراہمی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت یہ حق محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے سوئی سے 1950 میں گیس دریافت ہوئی مگر آج تک بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس نہیں ملی۔ جس سے صنعتی ترقی بھی نہیں ہورہی۔ سخت موسم والے علاقوں جیسے ژوب، زیارت، اور قلات کے لوگ گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے قیمتی جنگلات کاٹنے پر مجبور ہیں۔

جماعت اسلامی بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے 25 جولائی 2025 کو کوئٹہ سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہم قومی و صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں تاکہ امن کا روڈ میپ طے کیا جا سکے۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے کچھ عملی منصوبے بھی شروع کریں گے۔ ان میں سے ایک ''بنو قابل'' پروگرام ہے، جسے ہم بلوچستان میں توسیع دے رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کو آئی ٹی کی مہارت دی جا سکے اور انھیں بہتر روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔

جماعت اسلامی نہ صرف ایک قومی جماعت ہے بلکہ اْمتِ مسلمہ اور انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے جڑی ہوئی تحریک ہے، جو ہر قسم کی تقسیم سے بالاتر ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہی اتحاد اور سب کے لیے عدل، خطے میں پائیدار امن اور خوشحالی کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:

 ''اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے...

متعلقہ مضامین

  • ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • ملک میں ایک شخص کی مرضی چل رہی ہے( عمران خان)
  • بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھیں
  • ’اسلام کا دفاع‘
  • جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
  • بارشیں اور حکومتی ذمے داری
  • کتاب ہدایت
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!