Daily Ausaf:
2025-09-18@11:13:09 GMT

زندگی مختصر ہے، معاف کرنا سیکھیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

وہ تھے ہی ایسے۔سمندرکوکوزے میں بندکر دینے والے۔کیسی خوب صورت اوردل کش بات کی تھی انہوں نے۔اورکوئی ایک بات،بس سنتے جائیں اور ان میں سے چندایک پرعمل کی توفیق مل جائے توکیاکہنے واہ۔ میرارب ان سے راضی تھا۔اسی لئے تووہ ایسی باتیں کرتے تھے۔یہ خوش نصیبی ہے،توفیق ہے،عطاہے۔بس جسے چاہے نوازدے،ہاں یہ تعلق ہے، ہاں یہ ہے خوشی، ہاں یہ ہے رب کااپنے بندے اوربندے کااپنے خالق سے رشتہ،تصویراور مصور،مخلوق اور خالق، جدھر دیکھتا ہوں میں،ادھرتوہی توہے۔ایک دن کہاکم ظرف انسان دوسروں کوخوش دیکھ کرہی غم زدہ ہوجاتاہے۔وہ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتاکہ لوگ خوش رہیں۔وہ ان کی خوشیوں کوبرباد کرنے پرتل جاتاہے۔اس کی خوشی یہ ہے کہ لوگ خوشی سے محروم ہوجائیں۔وہ اپنے لئے جنت کو وقف سمجھتاہے اوردوسروں کو دوزخ سے ڈراتاہے۔
ایک بخیل انسان خوش رہ سکتاہے،نہ خوش کرسکتا ہے۔ سخی سدابہاررہتاہے۔سخی ضروری نہیں کہ امیرہی ہو۔ایک غریب آدمی بھی سخی ہوسکتا ہے، اگر وہ دوسروں کے مال کی تمناچھوڑ دے ۔جن لوگوں کاایمان ہے کہ اللہ کا رحم اس کے غضب سے وسیع ہے،وہ کبھی مغموم نہیں ہوتے۔وہ جانتے ہیں کہ غربت کدے میں پلنے والاغم اس کے فضل سے ایک دن چراغِ مسرت بن کردلوں کے اندھیرے دورکر سکتا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ پیغمبربھی تکالیف سے گزارے گئے لیکن پیغمبرکاغم امت کی فلاح کے لئے ہے۔ غم سزاہی نہیں غم انعام بھی ہے۔یوسفؑ کنویں میں گرائے گئے،ان پرالزام لگاانہیں قیدخانے سے گزرناپڑا لیکن ان کے تقرب اورحسن میں کمی نہیں آئی۔ان کابیان احسن القصص ہے۔
دراصل قریب کردینے والاغم دورکردینے والی خوشیوں سے بدرجہابہترہے۔منزل نصیب ہو جائے توسفرکی صعوبتیں کامیابی کاحصہ کہلائیں گی اوراگر انجام محرومی منزل ہے تو راستے کے جشن ناعاقبت اندیشی کے سوا کیاہوسکتے ہیں۔ زندگی کاانجام اگرموت ہی ہے توغم کیااورخوشی کیا؟کچھ لوگ غصے کوغم سمجھتے ہیں،وہ زندگی بھرناراض رہتے ہیں۔کبھی دوسروں پرکبھی اپنے آپ پر، انہیں ماضی کاغم ہوتاہے۔حال کاغم ہوتاہے اورمستقبل کی تاریکیوں کاغم،ایسے غم آشنا لوگ دراصل کم آشناہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ گزرے ہوئے زمانے کاغم دل میں رکھنے والاکبھی آنے والی خوشی کااستقبال کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔ان کاغم امربیل کی طرح ان کی زندگی کو ویران کردیتاہے۔یہ غم،غم نہیں یہ غصہ ہے۔یہ نفرت ہے۔
غم تودعوتِ مژگاں ساتھ لاتاہے اورچشمِ نم آلودہی چشمِ بینابنائی جاتی ہے۔غم کمزورفطرتوں کاراکب ہے اورطاقتورانسان کامرکب۔خوشی کا تعاقب کرنے والاخوشی نہیں پاسکتا۔یہ عطا ہے مالک کی، جواس کی یاداوراس کی مقررکی ہوئی تقدیرپر راضی رہنے سے ملتی ہے۔نہ حاصل نہ محرومی،نہ غم،نہ خوشی نہ آرزو نہ شکست، آرزویہ بڑی خوش نصیبی ہے۔ اپنے نصیب پرخوش رہنا چاہئے۔اپنی کوششوں پرراضی رہناچاہئے اور کوششوں کے انجام پربھی راضی رہناچاہئے۔دوسرے انسانوں کے نصیب سے مقابلہ نہیں کرناچاہئے۔جوذرہ جس جگہ وہیں آفتاب ہے۔
ہے ناں کوزے میں دریا کوبندکرنا۔اس کے بعدرہ ہی کیاجاتاہے بات کرنے کو۔مگرہم انسان ہیں،کلام کئے بغیرکیسے رہ سکتے ہیں اورکرنابھی چاہیے۔ دیکھئے آپ ماہ رمضان المبارک میں بھوک پیاس برداشت کررہے ہیں،آپ کی اپنی راتیں رب کاکلام سننے اور پڑھنے میں گزررہی ہیں۔ کس لئے؟اس لئے ناں کہ ہم سب کارب ہم سے راضی ہو جائے ۔ ہم سب نے اپنی حیثیت کے مطابق خلقِ خدا کی خبرگیری کی، دادرسی کی۔سب کچھ دیا بھی رب کاہے اورہم نے پھر اسے لوٹایابھی۔جب سب کچھ اس کاہے توپھرہم نے کیاکمال کیا۔ لیکن میرارب کتنا بلندوبالاعظمت وشان والاہے کہ آپ نے مخلوق کی خدمت کی اوروہ آپ کا نگہبان بن گیا۔اورجس کاوہ نگہبان بن جائے پھراسے کسی اورکی ضرورت نہیں رہتی،قطعانہیں رہتی۔
نبی کریم ﷺکی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ روزے دارکواپنے اعمال،قول وفعل کی عام دنوں سے زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ جیسے چغلی، غیبت، جھوٹ،لڑائی جھگڑے،کسی کوبرابھلاکہنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔نبی کریم ﷺنے فرمایاکہ اگرکوئی روزے کی حالت میں تم سے لڑائی کرے،توبس اتنا کہہ دوکہ میں روزے سے ہوں ۔ایک اورجگہ فرمایا کہ اللہ کوتمہارے بھوکاپیاسا رہنے کی ضرورت نہیں۔احادیث کی روسے پتاچلتاہے کہ چاہے کوئی کتناہی برابرتاؤکیوں نہ کرے،مگرروزے دارکواپنے غصے پرضبط رکھنا چاہیے۔ درحقیقت روزہ توباطنی بیماریوں جیسے غیبت، بداخلاقی، بدکلامی وغیرہ کاخاتمہ کرتا اور نفس کو پاک کرتاہے۔ نبی محترم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ بہت سے لوگ ہیں،جن کوروزے سے محض بھوک وپیاس ملتی ہے۔یعنی انہیں روزے کی اصل روح، صبروبرداشت،تحمل،سکون اوراللہ کاقرب حاصل نہیں ہوتا۔
صدقِ دل سے بتائیے کہ ہمارے کسی عمل یا زندگی کے کسی شعبے سے بھی یہ اندازہ ہوتاہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ماہِ رمضان کے احترام میں برے کاموں ،بدزبانی،غصے،چیخ پکار اور گالم گلوچ وغیرہ سے اجتناب کرتے ہیں؟فقط ایک لمحے کے لئے سوچیے کہ روزہ ہمیں کیاسبق دیتاہے؟وہ توہم پراللہ کااحسان ہے،جو ہمیں رمضان کے ذریعے ضبط،صبروبرداشت، تحمل،درگزر، خوش اخلاقی،صلہ رحمی اورنیکی کی ترغیب دی گئی۔یہ ماہ ِمبارک صرف بھوکاپیاسارہنے کانام نہیں،بلکہ اس کا مقصدانسانی کردارکاسنوارونکھارہے۔تاہم،روزے کی حالت میں اگرصبروبرداشت کاسبق نہیں سیکھا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا،ظلم کرنا، دوسروں کا حق مارنانہیں چھوڑا، تو اللہ تعالیٰ کواس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم کھاناپیناچھوڑکر بھوکے پیاسیرہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسیفاقوںکی کوئی اہمیت یاقدرنہیں۔
اچھاچلیں،صرف کل کے روزے کامحاسبہ کرکے بتائیں کہ کیاآپ کاضمیرمطمئن ہے؟ آپ نے واقعی روزے کاحق اداکردیا؟اپنے والدین، بیوی، بچوں، ماتحتوں،ساتھیوں ، رشتے داروں، پڑوسیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے؟اپنے ماتحت کی معمولی غلطی پرچراغ پا تونہیں ہوئے، پکوڑوں میں نمک کی کمی زیادتی پربیوی کوکھری کھری تونہیں سنائیں؟ ایک ذرا سی چپقلش پرخاوند پرلعن طعن تونہیں کی،صفائی میں کوتاہی پرکام والی کوتنخواہ کاٹنے کی دھمکی تونہیں دی؟صدقہ خیرات کے نام پرپھٹے پرانے،بوسیدہ کپڑے،جوتے ہی تو نہیں نکالے؟گرمی،بھوک پیاس کاغصہ ٹریفک میں گالم گلوچ کے ذریعے تونہیں نکلا ؟ میراروزہ نہ ہوتاتو میراروزہ نہ ہوتاتوکی گردان تونہیں کرتے رہے؟ اگران تمام سوالوں کا جواب ہاںہے،تویقین جانیے آپ روزہ نہیں،فاقہ کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ روزہ صرف بھوکاپیاسارہنے کانام نہیں،بلکہ یہ ایک روحانی ورزش ہے جس کے ذریعے انسان اپنے دل،زبان،اور اعضاکوگناہوں سے بچاتاہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص جھوٹ بولنااوربرے کام کرنا نہیں چھوڑتا، تواللہ کواس کے بھوکاپیاسارہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔(صحیح بخاری:1903)گویاروزے کا مقصدصرف کھانے پینے سے پرہیزنہیں،بلکہ اخلاقی پاکیزگی اورتقویٰ ہے۔قرآن کریم میں تقویٰ کی تعریف یوں ہے،اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (لحجرات:13)۔ تقوی کی تعریف تویہ ہے کہ ہرحال میں اللہ کی ناراضگی سے ڈرنا،ہرحال میں اس کی رضاکو ترجیح دینا،ہرقسم کے گناہوں (چھوٹے یابڑے)سے بچنا،اورروزہ انسان کو بھوک، پیاس،اورجنسی خواہشات جیسی بنیادی ضرورتوں پرقابوپاناسکھاتاہے۔یہی قابوتقویٰ کی پہلی سیڑھی ہے اورروزہ ان تمام پہلوؤں کومضبوط کرتاہے ۔
روزے میں کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات کو ترک کیا جاتا ہے، جو اللہ کی رضا کے لیے ہوتا ہے ۔ روزہ محض ایک رسمی عبادت نہیں بلکہ ایک تربیتی نظام ہے جوانسان میں تقویٰ پیدا کرتاہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتاہے کہ جوشخص روزے کواس کی روح کے مطابق رکھے،وہ حقیقی معنوں میں متقی بن جاتاہے،جوروزے کااصل مقصدہے۔روزہ انسان کو اپنی خواہشات کوکنٹرول کرنے کی تربیت دیتاہے،جوکہ تقویٰ کی بنیادہے۔ روزہ انسان میں صبراورشکرکی خوبیاں پیداکرتاہے، جوتقوی کا لازمی جزوہیں۔روزہ صرف بھوک پیاس کانام نہیں بلکہ ہرقسم کے گناہ سے بچنے کاذریعہ ہے،جوکہ متقی بننے کی راہ ہموارکرتا ہے۔
اس ذاتِ باری تعالیٰ کی عبادت،حمدوثنا، تعظیم وتکریم کے لئے توفرشتے ہی کافی ہیں،لیکن یہ اس کاہم گناہ گاروں پر احسان ہے کہ ہمیں کینہ وبغض ،جوشِ انتقام ونفرت میں ڈوبے،اپنے گناہوں میں لتھڑے دل بدلنے کاموقع عطاکیا۔ارے!ہماری کیااوقات کہ کسی کی مدد کرسکیں، یہ تواللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ صدقہ، خیرات و زکوٰۃ کے ذریعے ہمارے مال کوپاک کرتاہے۔ہمارے دنیاکی چکاچونداور بے حسی سے متاثرہ سخت دل روزے کی وجہ سے نرم پڑنے لگتے ہیں کہ اس طرح ہمیں ان لوگوں کی تکلیف کااحساس ہوتاہے،جنہیں عام دنوں میں توکیا،تہواروں پربھی دووقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ضرورت نہیں نہیں بلکہ کے ذریعے روزے کی ہیں کہ کے لئے

پڑھیں:

اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور

پاکستان نے دوحہ میں ہونے والے ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی تیاری کے وزارتی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان پیش کردیا۔ سات نکاتی پلان میں اسرائیل کا احتساب، جنگی جرائم کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنا، رکن ممالک کی طرف سے تعزیری اقدامات کا نفاذ، غزہ میں بلا روک ٹوک انسانی رسائی کو یقینی بنانا، دو ریاستی حل کے لیے حقیقی سیاسی عمل کو زندہ کرنا اور عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔

 درحقیقت، یہ واقعہ ایک چیلنج ہے کہ عالمی قوانین، ریاستوں کی خود مختاری اور سفارتی عزت و وقارکی حفاظت کے لیے ہم کس قدر متحد ہو سکتے ہیں۔ قطر پر اسرائیلی فضائی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشورکی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مڈل ایسٹ کی تمام ریاستوں کی سالمیت خطرے میں ہے، حتیٰ کہ وہ ثالثی اور امن مذاکرات کی میزبانی ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔

 پاکستان کی حکمتِ عملی، خاص طور پر نائب وزیر اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا سات نکاتی پلان، اس پسِ منظر میں نہایت اہم ہے۔ یہ منصوبہ محض ردعمل نہیں، بلکہ ایک مرکزی سیاسی عزم ہے کہ غیر قانونی حملوں کے خلاف مسلم دنیا نہ صرف بیانیہ تشکیل دے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے۔ احتساب، اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی، جنگی جرائم پر مقدمات ، یہ تمام مطالبات ایسے ہیں جو فلسطینی مظلومیت کے تناظر میں مسلم ریاستوں کی اخلاقی اور سیاسی ذمے داری کا حصہ ہیں۔ عملی امکانات کا جائزہ لیا جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں، متحدہ ردعمل کہاں تک ممکن ہے؟ کون سی ریاستیں اپنے قومی مفادات کو عبور کر کے مسلم اتحاد کا حصہ بنیں گی؟ اقتصادی پابندیاں لگانا، سفارتی تعلقات محدود کرنا، یا حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنا، یہ تمام اقدامات چیلنجز کے حامل ہیں۔ قوت عمل کی کمی، علاقائی اختلافات، حصول مفاداتِ طاقت، یہ عوامل اکثر ایسے اقدامات کو کمزور یا متزلزل بنا دیتے ہیں۔

غزہ میں انسانی رسائی یقینی بنانا ایک فوری ضرورت ہے۔ انسانیت کو تحفظ کی ضرورت ہے، بنیادی امداد، طبی سہولیات، پناہ گزینوں کا تحفظ یہ وہ حقائق ہیں جنھیں چشمِ تصور سے نہیں دیکھا جائے گا، لیکن یہ رسائی کیسے ممکن بنے گی؟ انسانی تنظیموں، اقوام متحدہ اور علاقائی ریاستوں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ رکاوٹیں دور ہوں، راستے کھلیں اور امدادی کام محفوظ اور بلاخوف جاری رہیں۔دو ریاستی حل کا اعادہ کرنا، اور اسے حقیقی سیاسی سطح پر زندہ کرنا، ایمنسٹریٹیو اور سفارتی محاذوں پر ایک مستقل عزم درکار ہے۔ یہ حل صرف میز پر قراردادیں نہیں بلکہ زمین پر اقدامات، مذاکرات، ریاستی حدود، القدس کی حیثیت اور فلسطینی ریاست کا تسلیم شدہ جغرافیہ ہونے چاہیے۔ بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت ہے، جس میں غیر جانبدار ممالک کا کردار ہو، اقوام متحدہ کا دائرہ کار ہو اور عرب دنیا سمیت اسلامی تعاون تنظیم کا تعاون ہو۔

عرب اسلامی ٹاسک فورس کا تصور اہم ہے، مگر اس کی افادیت کا انحصار اس کی تشکیل، اختیارات، مستحکم رہنمائی اور مشترکہ سیاسی عزم پر ہو گا۔ کیا یہ فورس صرف قانونی و سفارتی رد عمل کا مرکز ہوگی یا اس کے پاس کوئی عملی صلاحیت ہو گی جیسے مخصوص پابندیاں نافذ کرنا، جنگ بندی کا مطالبہ کرنا یا حتیٰ کہ عالمی فورمز پر اسرائیل کی کارکردگی کو شہری قانون کے دائرے میں لانا؟ یہ فیصلہ اورکام کرنے کی صلاحیت ہونا چاہیے، تاکہ اس کا وجود محض علامتی نہ ہو۔

 پاکستان کے لیے یہ صورتحال موقع بھی ہے اور ذمے داری بھی۔ پاکستان عملی سطح پر ایک مخلص، موثر اور متوازن کردار ادا کرے۔ مسلم ممالک کے ساتھ مل کر بین الاقوامی قانونی و سفارتی محاذ تشکیل دے، انسانی امداد فراہم کرنے والوں کے کردار میں تعاون کرے اور عالمی برادری کے سامنے یہ موقف پیش کرے کہ امن اور انصاف کے اصول غیر متزلزل ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ اس منصوبے کی ترجمانی داخلی استحکام کے ساتھ کرے۔

عوامی رائے کی توقعات کو پورا کرنا ہو گا، میڈیا اور دانشورانہ حلقوں میں بحث و مباحثہ ہو، تاکہ حکومتی اقدامات مستحکم ہوں۔ داخلی اقتصادی مشکلات، خارجہ دباؤ اور علاقائی سیاست کے تقاضے حکومت کو محتاط بنا سکتے ہیں، مگر یہ وقت پسپائی کا نہیں، بلکہ عزمِ عملی کا ہے۔اب اقوام متحدہ کے امن مشن کی سالمیت خطرے میں ہے، سفارتکاری کی روشنی مدھم ہو رہی ہے اور انسانی المیے کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، اگر اسلامی دنیا متحد ہو، مسلم قیادت عزم دکھائے، اگر عالمی قوانین کا اطلاق ہو، اگر انسانی حق اور ریاستِ فلسطین کا مطالبہ واضح اور مسلسل ہو، تو یہ لمحہ تاریخ میں ایک تبدیلی کا نکتہ بن سکتا ہے۔

آج قطر پر حملہ، ایک خود مختار ریاست کی خود مختاری پر حملہ ہے اور یہ لمحہ ہے کہ شعور، اتحاد اور اخلاقی طاقت اپنی قوت کا مظاہرہ کرے۔ یہ عملی عزم کا وقت ہے، ایسی پالیسیاں جن کی بنیاد عدالت، انصاف اور انسانیت ہو۔ ایسی پالیسی جس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حق کا تحفظ ہو، بلکہ بین الاقوامی امن وپائیداری کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے۔چین کے مندوب نے کہا کہ اسرائیلی حملے نے جاری سفارت کاری کو متاثر کیا ہے۔ خصوصاً جب امریکا نے 7 ستمبر کو جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی جسے اسرائیل نے قبول کیا۔ محض دو دن بعد اس تجویز پر بات چیت کرنے والی حماس کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ بد نیتی، غیر ذمے داری اور دانستہ طور پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا عمل ہے جو قابلِ مذمت ہے۔پاکستان کا سات نکاتی منصوبہ اگر ایک عملی منشور بن جائے تو مسلم امن کی راہ میں نئے دریچے کھل سکتے ہیں۔

وہ دن اگرچہ دور نہیں کہ عالمی طاقتیں بھی جان لیں گی کہ ریاستوں کے وقار، قانونِ بین الاقوامی کی حکمرانی اور انسانیت کی آواز کوئی مفاہمت نہیں کرتی،کوئی سودے بازی نہیں ہوتی۔ واشنگٹن کی اسرائیل کے ساتھ ترجیحی و جانبدارانہ پالیسی نے خطے میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کے دوست ممالک کو ناراض کیا ہے۔ دوحہ میں موجود حماس کے رہنماء غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کا جائزہ لے رہے تھے، اسی دوران صیہونی رجیم نے تمام سفارتی قوانین کو روندتے ہوئے ان پر حملہ کر دیا۔

اب مسلم حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انھوں نے اب تک امریکا سے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جدید ترین فوجی سازوسامان خریدا ہے اور امریکا کو اپنے ملک میں فوجی اڈے فراہم کیے ہیں جن کا واحد مقصد ان کی قومی سلامتی کی حفاظت اور دفاع کرنا تھا لیکن حالیہ اسرائیلی حملے میں نہ تو امریکا اور نہ ہی برطانیہ نے ان کا ساتھ دیا اور نہ اسرائیل کو روکا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ قطر میں امریکا کا جدید ترین میزائل ڈیفنس سسٹم سویا رہا اور اسرائیلی میزائل دارالحکومت دوحہ پر گرتے رہے؟ کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم حکمران خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور دوست اور دشمن کی حقیقی پہچان حاصل کریں۔

اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کے خلاف کیا کہا جائے، سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اگر مسلم دنیا واقعی اسرائیلی جارحیت سے تنگ آ چکی ہے اور وہ فلسطینیوں کو انصاف دلانا چاہتی ہے، اگر وہ اپنی خود مختاری کی حفاظت کرنا چاہتی ہے، تو اب وقت ہے کہ بیانات سے آگے بڑھ کر اقدامات کیے جائیں۔ اقتصادی پابندیاں، سفارتی دباؤ، بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمات، اقوام متحدہ میں قراردادیں، انسانی امداد کی ترسیل، یہ سب کام کرنے کے ہیں اور یہ سب ایک دن میں نہیں ہوں گے، اس کے لیے مستقل مزاجی، اتفاق رائے، اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔

 اس وقت اسرائیل کی جارحیت صرف فلسطینیوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اگر آج قطر جیسے پرامن اور سفارتی کردار ادا کرنے والے ملک کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے، تو کل کوئی اور ملک بھی اس فہرست میں ہو سکتا ہے۔ یہی آج کا سوال ہے کہ اب اگلا نشانہ کون سا اسلامی ملک ہو گا۔اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک اس حملے کو ایک سنگین خطرہ سمجھیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔

یہ موقع ہے کہ مسلم دنیا عملی اقدامات کر کے دنیا کو دکھائے کہ ظلم کے خلاف ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ پاکستان نے پہل کر دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی دنیا، خصوصاً مسلم ممالک، اس پہل کا ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔ اگر آج ہم متحد ہو گئے، تو کل فلسطین آزاد ہو گا۔ لیکن اگر آج بھی ہم صرف مذمتی قراردادیں منظور کر کے، بیانات دے کر اور کانفرنسیں منعقد کر کے مطمئن ہو گئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

متعلقہ مضامین

  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
  • خاموشی ‘نہیں اتحاد کٹہرے میں لانا ہوگا : اسرائیل  کیخلاف اقدامات ورنہ تاریخ معاف نہیں کریگی : وزیراعظم 
  • ریلیف پیکیج آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا قابل مذمت ہے
  • اسرائیل کے خلاف 7 نکاتی پلان، عملی منشور
  • جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہوگا، اقدامات نہ کیے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی؛ وزیراعظم
  • اسرائیل کوکٹہرے میںلانااور صہیونی جارحیت روکنے کے اقدامات نہ کئے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی: وزیر اعظم شہبازشریف
  • انسانیت کو جنگ و جدل سے بچانے کیلئے اللہ کی مرضی کا نظام قائم کرنا ہوگا، حافظ نعیم الرحمن