زرعی آمدن پر ٹیکس کی شرح کو کارپوریٹ سیکٹر کے برابر کر دیا گیا، کتنی آمدن پر کتنا ٹیکس دینا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے حصول کے لیے اقتصادی جائزہ مذاکرات جاری ہیں، جن میں پالیسی سطح کے امور پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عملدرآمد مکمل کر لیا ہے اور اس حوالے سے مشن کو تفصیلی طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ زرعی انکم ٹیکس سے متعلق قانون سازی کے بارے میں رپورٹ آئی ایم ایف کو پیش کر دی گئی ہے، جس کے تحت زرعی آمدن پر ٹیکس کی شرح کو کارپوریٹ سیکٹر کے مساوی کر دیا گیا ہے۔تمام چاروں صوبوں نے زرعی انکم ٹیکس سے متعلق قانون سازی مکمل کر لی ہے اور ٹیکس کی شرح بھی مساوی طور پر نافذ کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، قانون سازی کے مطابق زرعی آمدن پر درج ذیل ٹیکس لاگو ہوگا:
6 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔
6 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 15 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
12 سے لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 90 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس اور 12 لاکھ سے زائد آمدن پر 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
16 سے 32 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 1 لاکھ 70 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس اور 16 لاکھ سے زائد آمدن پر 30 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
32 سے 56 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 6 لاکھ 50 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس اور 32 لاکھ سے زائد آمدن پر 40 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
56 لاکھ روپے سے زائد سالانہ آمدن پر 16 لاکھ 10 ہزار روپے ٹیکس اور 56 لاکھ سے زائد آمدن پر 45 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نئے ٹیکس ڈھانچے کے تحت زرعی شعبے میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور محصولات میں اضافے کی توقع ہے، جو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا ایک اہم جزو ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: لاکھ روپے سالانہ ا مدن پر لاکھ سے زائد ا مدن پر فیصد ٹیکس عائد ہوگا ا ئی ایم ایف ہزار روپے ٹیکس اور
پڑھیں:
ہفتہ کی چھٹی ختم کر دی گئی
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ٹیکس وصولیوں کے دباؤ اور مالی ہدف کے حصول کی دوڑ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بڑا قدم اٹھا لیا ہے۔ اب ملک بھر میں ایف بی آر کے دفاتر ہفتے کے روز بھی کھلے رہیں گے۔
ایف بی آر نے تمام چیف کمشنرز کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ دفاتر میں ہفتہ وار تعطیل منسوخ کرتے ہوئے معمول کے مطابق ہفتے کو بھی کام کیا جائے۔ یہ اقدام مالی سال 2024-25 میں محصولات کی بروقت وصولی کو یقینی بنانے کے لیے اپنایا گیا ہے۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ 30 جون 2025 تک نافذ العمل رہے گا اور اس دوران دفاتر میں سرکاری اوقات کار کی سختی سے پابندی کی جائے گی۔ ساتھ ہی تمام افسران کو کارکردگی میں بہتری اور ٹیکس اہداف کے حصول پر مکمل توجہ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ٹیکس ہدف میں 12,970 ارب روپے سے کمی کر کے 12,370 ارب روپے کر دی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایف بی آر مالی دباؤ کا شکار ہے، کیونکہ مالی سال 2024-25 کے ابتدائی 9 ماہ میں ٹیکس شارٹ فال 700 ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔
ایف بی آر کی اس نئی حکمت عملی کو ناقدین نے ملازمین پر اضافی بوجھ قرار دیا ہے، مگر ادارہ پرعزم ہے کہ یہ قدم قومی خزانے کو بچانے اور معیشت کو سہارا دینے کے لیے ناگزیر ہے۔
آٹے کے بعد روٹی کی قیمتیں بھی کم کردی گئیں