سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میں نجی میڈیکل کالجز کی بھاری فیس وصولی کا معاملہ زیر بحث آگیا۔

اسلام آباد میں عامر چشتی کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی صحت کا اجلاس ہوا، جس میں سینیٹر عرفان صدیقی، پلوشہ خان، وزیر مملکت مختار احمد برتھ، صدر پی ایم ڈی سی ڈاکٹر رضوان تاج، رجسٹرار پی ایم ڈی سی شائستہ فیصل اور اسپیشل سیکریٹری صحت نے شرکت کی۔

دوران اجلاس عرفان صدیقی نے کہا کہ 29 جنوری 2024 کو پی ایم ڈی سی نے نجی میڈیکل کالجز کو خط لکھا، جس میں نجی میڈیکل کالجز سے فیس اضافے کا جواز مانگا گیا تھا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا نجی میڈیکل کالجز نے فیس اضافے کا جواز دیا تھا؟ کیا نجی میڈیکل کالجز کے جواز سے صدر پی ایم ڈی سی مطمئن تھے؟

اس پر ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا کہ جی نجی میڈیکل کالجز نے جواز فراہم کیا تھا، فیس اضافے سے متعلق نجی میڈیکل کالجز کے جواز سے مطمئن نہیں تھا۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ 2024ء کی فیس وصول ہوئے ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا، سوال تو یہ ہے کہ جب پی ایم ڈی سی جواز سے مطمئن نہیں تو فیسیں کیسے وصول ہو گئیں؟

کمیٹی رکن پلوشہ خان نے کہا کہ اب تو نجی میڈیکل کالجز 2025ء کی فیس بھی وصول کر چکے ،پی ایم ڈی سی کو کوئی نہیں مانتا، نجی میڈیکل کالجز مافیا بن چکے ہیں، ذیلی کمیٹی 2024ء کی وصول کردہ اضافی فیسوں کی واپسی کی7 سفارش کر چکی ہے۔

اس دوران عرفان صدیقی نے کہا کہ ذیلی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ ہم عملدرآمد کرائیں گے، میرے لیے طلبا سے بھاری فیس وصولی معاملہ بہت پریشانی کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت صحت، قانون اور پی ایم ڈی سی کی کمیٹی نے کتنی سالانہ فیس کی سفارش کی؟ کہاں ساڑھے 12 لاکھ روپے، نجی میڈیکل کالج 30 سے 35 لاکھ وصول کررہے ہیں۔

اسپیشل سیکریٹری صحت نے کہا کہ تقریباً ساڑھے 12 لاکھ روپے سالانہ ایم بی بی ایس کی فیس تجویز کی گئی ہے۔

مختار احمد برتھ نے کہا کہ نجی میڈیکل کالجزکی فیس کے معاملے کو اب جلد حل کرنا ہے، فیس معاملے پر وی سی فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی سربراہی میں کمیٹی بنادی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈپٹی وزیراعظم کی کمیٹی کا نجی میڈیکل کالجز فیس سے کوئی تعلق نہیں بنتا، نائب وزیراعظم کو معاملہ بجھوایا بھی گیا تھا تو ان کا جواب آگیا ہے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ڈپٹی وزیراعظم کی سربراہی میں کمیٹی میڈیکل ایجوکیشن کو دیکھ رہی تھی، جن کی طرف سے فیس کا کوئی ذکر نہیں کہ کتنی ہو نی چاہیے، اب فیس معاملے کا کوئی انجام ہوناچاہیے، ہر اجلاس میں اس پر بات ہوتی ہے۔

رجسٹرار پی ایم ڈی سی شائستہ فیصل نے کہا کہ 2010ء میں نجی میڈیکل کالجز کی سالانہ فیس 5 لاکھ روپے تھی۔

پلوشہ خان نے کہا کہ نجی میدیکل کالجز اضافی فیس وصولی پر پابندی کے فیصلے کی حکم عدولی کررہے ہیں، کمیٹی کو تو بتایا گیا تھا کہ فیس اسٹرکچر نائب وزیراعظم کو بجھوایا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: نجی میڈیکل کالجز پی ایم ڈی سی عرفان صدیقی فیس وصولی نے کہا کہ فیس وصول کی فیس

پڑھیں:

شاہ محمودکانام9مئی واقعات پر کابینہ کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں تھا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ٹرائل کورٹ نے منگل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ڈپٹی چیئرمین شاہ محمود قریشی کو 9؍ مئی کے واقعات سے متعلق تمام الزامات سے بری کر دیا۔ یہ فیصلہ اس خبر کو اجاگر کرتا ہے جس کی خبر نجی اخبار میں 6؍ ماہ قبل شائع ہوئی تھی۔ رواں سال 25؍ فروری کو نجی اخبار اور روزنامہ نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ شاہ محمود قریشی کا نام واضح طور پر کابینہ کمیٹی کی اُس رپورٹ میں شامل نہیں تھا جو گزشتہ نگران حکومت نے 9؍ مئی 2023ء کے پرتشدد واقعات کی مبینہ منصوبہ بندی کے حوالے سے تیار کی تھی۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی کیخلاف ان واقعات سے متعلق ایف آئی آرز درج کی گئی تھیں، جنہیں ریاستی اداروں پر ہونے والے سنگین حملوں میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن سرکاری رپورٹ میں اُن کا نام کہیں نہیں آیا۔ رپورٹ میں پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کا نام بھی شامل نہیں تھا، جس سے ان دونوں کیخلاف عائد کردہ الزامات کی قانونی جواز پر سوالات پیدا ہوئے تھے۔ یہ کابینہ کمیٹی رپورٹ بعد میں موجودہ وفاقی کابینہ کے روبرو بھی پیش کی گئی تھی جس میں متعدد پی ٹی آئی رہنمائوں کے مبینہ کردار کا ذکر تھا۔ رپورٹ کے مطابق، پارٹی چیئرمین عمران خان پر ان واقعات کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا، جبکہ ایک طویل فہرست میں حماد اظہر، زرتاج گل، مراد سعید، فرخ حبیب، علی امین گنڈاپور، یاسمین راشد، محمود الرشید اور دیگر رہنمائوں کے نام شامل تھے۔ لیکن شاہ محمود قریشی اور پرویز الٰہی کا ذکر کہیں نہیں تھا۔ منگل کو شاہ محمود قریشی کی بریت نجی اخبار کی پہلے شائع شدہ رپورٹ کو درست ثابت کرتی ہے اور یہ سوال اٹھاتی ہے کہ آخر شاہ محمود قریشی کو اس قدر طویل قانونی کارروائی میں کیوں الجھایا گیا۔نجی اخبار نے اپنی فروری کی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ نگران حکومت کی رپورٹ میں پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی کا نام شامل نہ ہونا سوال پیدا کرتا ہے، خصوصاً اس وقت جب دونوں 9؍ مئی کے کیسز میں پھنسے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی بریت اُن کیلئے ایک بڑی قانونی کامیابی ہے، وہ شروع سے ہی ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ تاہم، اس فیصلے نے 9؍ مئی کے بعد شروع ہونے والے قانونی عمل کو مزید سخت جانچ کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے، کیونکہ کئی دیگر پی ٹی آئی رہنما اب بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انصار عباسی

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم ہاؤس میں جرگہ، میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں ضم شدہ اضلاع کا کوٹا بحال
  • وزیراعظم کا میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کا کوٹہ بحال کرنے کا اعلان
  • وزیراعظم ہاوس میں جرگہ، میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں ضم شدہ اضلاع کا کوٹا بحال
  • زرعی ترقیاتی بینک میں کرپشن، چوری اور خورد برد کے انکشافات
  • آن لائن سسٹم تاخیر کا شکار، پراپرٹی ٹیکس وصولی شروع نہ ہو سکی
  • لندن ہائیکورٹ: آئی ایس آئی پر مقدمہ نہیں، معاملہ صرف عادل راجا اور بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے درمیان ہے
  • اسلام آباد؛ سیلاب میں بہہ جانے والے باپ بیٹی کی تلاش جاری، سینیٹ کمیٹی نے رپورٹ طلب کرلی
  • شاہ محمودکانام9مئی واقعات پر کابینہ کمیٹی کی رپورٹ میں نہیں تھا
  • سینیٹ انتخابات اور عوام کی امیدیں
  • پیپر لیک معاملہ: قائمہ کمیٹی نے کیمبرج امتحانات کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی سفارش کردی