اعتدال پسند فقیہ امام شافعی رحمہ اللہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
’’میرا مذہب صحیح ہے مگر اس میں غلطی کا احتمال ہے، دوسروں کا مذہب غلط ہوسکتا ہے مگر اس کی بھی درستی ہوسکتی ہے‘‘ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے، جو ایک انتہائی اعتدال پسند اور متوازن مزاج فقیہ تھے جو انکار پر ضد نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اصرار کے ذریعے بات منوانے کے قائل تھے۔
اسلامی فقہ کے ایک اہم ستون امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام محمد بن ادریس الشافعی تھا جو 150 ہجری میں سر زمین فلسطین کے علاقہ غزہ میں پیداہوئے، یہ حزن و ملال کا وہ سال تھا جس میں ایک عظیم فقیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ عالم اسلام کو داغ مفارقت دے گئے تھے۔
امام شافعی ؒ کے والد بچپن ہی میں انہیں یتیمی کے حوالے کر گئے، مگر ان کی بیوہ ماں نے ہمت نہیں ہاری اپنے در یتیم کی ا علیٰ دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ بیوہ ماں اپنے بیٹے کو لے کر عازم مکہ مکرمہ ہوئیں وہیں انہیں پہلے حفظ قرآن کرایا اور پھر ابتدائی تعلیم مکہ ہی میں مکمل کرانے کے بعد ہونہار بیٹے کو مدینہ منورہ لے گئیں جہاں امام شافعی نے امام مالک رحمہ اللہ سے ’’الموطا‘‘ پڑھی اور انہی سے حدیث و فقہ کی تعلیم میں مہارت حاصل کی۔ پھر مدینہ منورہ سے آپ نے مزید علم کے حصول کے لئے عراق کا سفر کیا۔ جہاں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کیا جس سے ان کے فکرو نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے آنے والے زمانے میں نئی فکر متعارف کرائی جو ’’اصول فقہ‘‘ کی بنیاد پر قائم تھی۔ غربت وافلاس کی زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو بہت کٹھن حالات سے گزر ناپڑا۔ اصول فقہ کے بانی نے پہلی بار کتاب’’الرسالہ‘‘ مرتب کرکے اس میں اصول فقہ کے قواعد ترتیب دیئے۔ جن میں قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کوبنیاد بنایا۔ یوں آپ نے فقہ مالکی اور فقہ حنفی کی روشنی میں ایک متوازن راہ ہموار کی جو عقل و نقل کا حسین امتزاج کہلائی۔ امام شافعیؒ نے حدیث کو فقہ کی اساسی دلیل قرار دیتے ہوئے ان کے بغیر قیاس کو ناقص قرار دیا۔ انہوں نے قیاس اور اجماع کو غیر اہم قرار نہیں دیا مگر انہوں نے یہ اضافہ کیا کہ قرآن اور حدیث میں واضح احکام نہ ہونے کی صورت میں قیاس یااجماع کا استعمال درست ہے۔ تاہم اگر امت مسلمہ کسی مسئلے پر متفق ہو تواس پر عمل اجماع کیا جاسکتا ہے۔
امام شافعیؒ کی تصنیف ’’ آلام‘‘ فقہ شافعی کے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے جس میں انہوں نے گہری بصیرت کے ساتھ اپنے مرتب کئے ہوئے فقہی نظام کوواضح کیا اور جس پر وہ ثابت قدم رہے کہ قرآن و حدیث میں وضاحت و صراحت کی صورت میں کسی بھی مسئلے میں قیاس یا اجماع کا استعمال زیبا نہیں۔
اپنی کتاب’’ آلام‘‘ میں امام شافعی نے نئی فقہی ٹیکنیس کو متعارف کروایا اور ان پر تفصیلی بحث کی۔ اسی طرح نصوص کی تعریف و تشریح میں بھی ایک جدت متعارف کروائی کہ ’’قرآن و حدیث کی ظاہر ی تشریح کی بجائے ان کے حقیقی معانی کو سمجھنا ضروری ہے اور نصوص کی تفہیم کے دوران سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے‘‘ ، فقہ میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر دور کے کے علما ء کو نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اجتہاد کرنا چاہیے کہ اجتہاد کا عمل نئی شرعی حقیقتوں کو سامنے لاتا ہے اور انہیں قرآن و حدیث کے اصولوں کے مطابق حل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‘‘ ۔
امام شافعیؒ نے فقہ اور اصول شریعت کے بیچ توازن قائم کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’’ فقہ کا مقصد معاشرتی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق چلانا ہے اور اس کے لئے اصول شریعت کا درست اور معتدل استعمال ضروری ہے‘‘ امام شافعیؒ کو راہ حیات میں بے شماردشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ عباسی اقتدارکے شورش زدہ دور میں جی رہے تھے جس میں خلیفہ کے اذن کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تھا اور امام دین اسلام میں اعتدال کی راہیں تلاشنے میں مصروف تھے۔ مختلف فقہی مکاتب فکر کی یلغار کا زمانہ تھا اسی دوران خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ان پر شیعہ بغاوت کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا جس کی وجہ سے خلیفہ کے حکم پر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کوپابند سلاسل کردیا گیا، اس دوران جدید فقہی نظریات کی وجہ سے مالکی اور حنفی فقہا نے امام کو ہدف تنقید بنایا، بغداد اور مصر میں ان کے خلاف نظریاتی محاذ آرائی کے در وا ہوئے ۔ مگر سادہ و فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنے عقائد پر قائم و دائم رہے، ان کی معتدل مسلکی سوچ پھلتی پھولتی اور وسیع تر ہوتی چلی گئی مگر فقہا کی ایک فوج تھی جو حکمرانوںکی آشیر باد کے زعم میں ان سے نبرد آزما تھی، سو وہ مصر کی اور ہجرت کرگئے۔مگر مصائب و آلام نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ ا۔ مصر میں مالکی فقہا نے ان پر شدید اختلافات کے تیرچلانا شروع کر دیئے اسی دوران ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ صاحب فراش ٹھہرے، بیماری سے بہت لڑے مگر جانبر نہ ہوپائے اور 204ہجری میں مصر ہی میں راہی عدم ہوئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رحمہ اللہ
پڑھیں:
توشہ خانہ ٹو کیس میں اہم پیش رفت: دو گواہان کے حیران کن انکشافات
توشہ خانہ ٹو کیس میں دو اہم گواہان — صہیب عباسی اور انعام اللہ شاہ — کے بیانات نے کیس کو نیا رخ دے دیا ہے۔ دونوں نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے، جن میں کئی چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
جیولری سیٹ کی قیمت کم کرانے کا اعتراف
وعدہ معاف گواہ صہیب عباسی، جو ایک پرائیویٹ اپریزر ہیں، نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بلگری جیولری سیٹ کی قیمت کم لگائی۔ ان کے مطابق، انہیں دباؤ کے تحت ایسا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ انعام اللہ شاہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر قیمت کم نہ کی گئی تو انہیں سرکاری اداروں سے بلیک لسٹ کروا دیا جائے گا۔
صہیب عباسی کا کہنا تھا کہ میں نے ڈر کے مارے جیولری سیٹ کی ویلیو جان بوجھ کر کم کر کے رپورٹ دی۔ مجسٹریٹ کے سامنے بھی اپنے اعترافی بیان کی تصدیق کی، اور چیئرمین نیب کے سامنے معافی مانگی۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ نیب کے تحقیقاتی افسر کو تمام متعلقہ دستاویزات اپنی مرضی سے فراہم کیں اور 23 مئی 2024 کو باقاعدہ طور پر معافی کی درخواست بھی دی۔
انعام اللہ شاہ کی تسلیم شدہ کردار
انعام اللہ شاہ، جو عمران خان کے سابق پرسنل سیکرٹری اور وزیراعظم ہاؤس کے کمپٹرولر رہ چکے ہیں، نے تسلیم کیا کہ جیولری سیٹ کی قیمت کم کرنے کا مشورہ انہوں نے خود دیا تھا۔
ان کے مطابق میں نے صہیب عباسی سے کہا تھا کہ بلگری جیولری سیٹ کی قیمت کم لگائیں۔ میں خود 2019 سے 2021 تک پی ٹی آئی اور سرکاری نوکری دونوں سے تنخواہیں لیتا رہا۔”
انہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں بشریٰ بی بی کی ناراضی پر نوکری سے ہٹایا گیا تھا، کیونکہ بشریٰ بی بی کو شک تھا کہ ان کے بھائی کے جہانگیر ترین کے ساتھ تعلقات ہیں۔
قیمتی تحفے کا اصل ماجراء
انعام اللہ شاہ نے بتایا کہ یہ قیمتی بلگری جیولری سیٹ سعودی ولی عہد کی جانب سے بطور تحفہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو دی گئی تھی، جب وہ وزیراعظم تھے۔ تاہم، نیب حکام کے مطابق اس سیٹ کو توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا گیا۔
نیب کے مطابق یہ سیٹ جس میں نیکلس، بریسلیٹ، ایئر رنگز اور ایک انگوٹھی شامل تھی، اس کی اصل قیمت 7 کروڑ 50 لاکھ روپے تھی، مگر اس کی ویلیو صرف 59 لاکھ لگوائی گئی، اور صرف 29 لاکھ روپے خزانے میں جمع کرائے گئے۔