Daily Ausaf:
2025-07-25@01:37:48 GMT

اعتدال پسند فقیہ امام شافعی رحمہ اللہ

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

’’میرا مذہب صحیح ہے مگر اس میں غلطی کا احتمال ہے، دوسروں کا مذہب غلط ہوسکتا ہے مگر اس کی بھی درستی ہوسکتی ہے‘‘ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے، جو ایک انتہائی اعتدال پسند اور متوازن مزاج فقیہ تھے جو انکار پر ضد نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اصرار کے ذریعے بات منوانے کے قائل تھے۔
اسلامی فقہ کے ایک اہم ستون امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا پورا نام محمد بن ادریس الشافعی تھا جو 150 ہجری میں سر زمین فلسطین کے علاقہ غزہ میں پیداہوئے، یہ حزن و ملال کا وہ سال تھا جس میں ایک عظیم فقیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ عالم اسلام کو داغ مفارقت دے گئے تھے۔
امام شافعی ؒ کے والد بچپن ہی میں انہیں یتیمی کے حوالے کر گئے، مگر ان کی بیوہ ماں نے ہمت نہیں ہاری اپنے در یتیم کی ا علیٰ دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ بیوہ ماں اپنے بیٹے کو لے کر عازم مکہ مکرمہ ہوئیں وہیں انہیں پہلے حفظ قرآن کرایا اور پھر ابتدائی تعلیم مکہ ہی میں مکمل کرانے کے بعد ہونہار بیٹے کو مدینہ منورہ لے گئیں جہاں امام شافعی نے امام مالک رحمہ اللہ سے ’’الموطا‘‘ پڑھی اور انہی سے حدیث و فقہ کی تعلیم میں مہارت حاصل کی۔ پھر مدینہ منورہ سے آپ نے مزید علم کے حصول کے لئے عراق کا سفر کیا۔ جہاں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کیا جس سے ان کے فکرو نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے آنے والے زمانے میں نئی فکر متعارف کرائی جو ’’اصول فقہ‘‘ کی بنیاد پر قائم تھی۔ غربت وافلاس کی زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کو بہت کٹھن حالات سے گزر ناپڑا۔ اصول فقہ کے بانی نے پہلی بار کتاب’’الرسالہ‘‘ مرتب کرکے اس میں اصول فقہ کے قواعد ترتیب دیئے۔ جن میں قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کوبنیاد بنایا۔ یوں آپ نے فقہ مالکی اور فقہ حنفی کی روشنی میں ایک متوازن راہ ہموار کی جو عقل و نقل کا حسین امتزاج کہلائی۔ امام شافعیؒ نے حدیث کو فقہ کی اساسی دلیل قرار دیتے ہوئے ان کے بغیر قیاس کو ناقص قرار دیا۔ انہوں نے قیاس اور اجماع کو غیر اہم قرار نہیں دیا مگر انہوں نے یہ اضافہ کیا کہ قرآن اور حدیث میں واضح احکام نہ ہونے کی صورت میں قیاس یااجماع کا استعمال درست ہے۔ تاہم اگر امت مسلمہ کسی مسئلے پر متفق ہو تواس پر عمل اجماع کیا جاسکتا ہے۔
امام شافعیؒ کی تصنیف ’’ آلام‘‘ فقہ شافعی کے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے جس میں انہوں نے گہری بصیرت کے ساتھ اپنے مرتب کئے ہوئے فقہی نظام کوواضح کیا اور جس پر وہ ثابت قدم رہے کہ قرآن و حدیث میں وضاحت و صراحت کی صورت میں کسی بھی مسئلے میں قیاس یا اجماع کا استعمال زیبا نہیں۔
اپنی کتاب’’ آلام‘‘ میں امام شافعی نے نئی فقہی ٹیکنیس کو متعارف کروایا اور ان پر تفصیلی بحث کی۔ اسی طرح نصوص کی تعریف و تشریح میں بھی ایک جدت متعارف کروائی کہ ’’قرآن و حدیث کی ظاہر ی تشریح کی بجائے ان کے حقیقی معانی کو سمجھنا ضروری ہے اور نصوص کی تفہیم کے دوران سیاق و سباق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے‘‘ ، فقہ میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہر دور کے کے علما ء کو نئے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے اجتہاد کرنا چاہیے کہ اجتہاد کا عمل نئی شرعی حقیقتوں کو سامنے لاتا ہے اور انہیں قرآن و حدیث کے اصولوں کے مطابق حل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‘‘ ۔
امام شافعیؒ نے فقہ اور اصول شریعت کے بیچ توازن قائم کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’’ فقہ کا مقصد معاشرتی زندگی کو قرآن وسنت کے مطابق چلانا ہے اور اس کے لئے اصول شریعت کا درست اور معتدل استعمال ضروری ہے‘‘ امام شافعیؒ کو راہ حیات میں بے شماردشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ عباسی اقتدارکے شورش زدہ دور میں جی رہے تھے جس میں خلیفہ کے اذن کے بغیر پتہ نہیں ہلتا تھا اور امام دین اسلام میں اعتدال کی راہیں تلاشنے میں مصروف تھے۔ مختلف فقہی مکاتب فکر کی یلغار کا زمانہ تھا اسی دوران خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں ان پر شیعہ بغاوت کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا جس کی وجہ سے خلیفہ کے حکم پر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کوپابند سلاسل کردیا گیا، اس دوران جدید فقہی نظریات کی وجہ سے مالکی اور حنفی فقہا نے امام کو ہدف تنقید بنایا، بغداد اور مصر میں ان کے خلاف نظریاتی محاذ آرائی کے در وا ہوئے ۔ مگر سادہ و فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ اپنے عقائد پر قائم و دائم رہے، ان کی معتدل مسلکی سوچ پھلتی پھولتی اور وسیع تر ہوتی چلی گئی مگر فقہا کی ایک فوج تھی جو حکمرانوںکی آشیر باد کے زعم میں ان سے نبرد آزما تھی، سو وہ مصر کی اور ہجرت کرگئے۔مگر مصائب و آلام نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑ ا۔ مصر میں مالکی فقہا نے ان پر شدید اختلافات کے تیرچلانا شروع کر دیئے اسی دوران ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ صاحب فراش ٹھہرے، بیماری سے بہت لڑے مگر جانبر نہ ہوپائے اور 204ہجری میں مصر ہی میں راہی عدم ہوئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رحمہ اللہ

پڑھیں:

تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا

پی ٹی آئی کے لاہور میں مجوزہ جلسے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ ان کی تحریک کا نقطہ عروج ہے تو پھر اس کو پشاور میں کریں اور پورے پاکستان کو بہت بڑا مجمع اکٹھا کرکے دکھائیں۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ انہیں پی ٹی آئی کی جانب سے 5 اگست کو لاہور میں جلسے کے اعلان سے مایوسی ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اس روز کو اپنی تحریک کا نقطہ عروج قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے بیٹے پاکستان آئے تو ان کا کیا انجام ہوگا؟ رانا ثنااللہ نے خبردار کردیا

’ہم بھی سوچتے تھے کہ کیا ہوگا یہ کیا کریں گے، اب بات نکلی ہے کہ ایک بڑا مجمع اکٹھا کرتے ہوئے جلسہ کریں گے، تو بھائی اس کو پشاور میں کریں، بہت بڑا مجمع اکٹھا کریں، دکھائیں پورے پاکستان کو سب کو کہ ہم نے یہ اکٹھا کیا ہے۔‘

"پشاور میں جا کر جلسہ کریں اور مجمع اکٹھا کریں،" رانا ثنا اللہ کا پی ٹی آئی کو مشورہ#ARYNews #11thHour pic.twitter.com/zwvemgQRJk

— ARY NEWS (@ARYNEWSOFFICIAL) July 23, 2025

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اب کہتی ہے کہ لاہور میں جلسہ کرنا ہے، تو آپ پشاور میں کیوں نہیں کرتے، آپ بنوں میں کیوں نہیں کرتے، نوشہرہ میں کیوں نہیں کرتے، سوات میں کیوں نہیں کرتے، اگر آپ نے لاہور میں جا کر کرنا ہے تو پھر ٹھیک ہے لاہور کی انتظامیہ سے بات کریں، ان کو درخواست دیں۔

’ان کو یقین دہانی کروائیں کہ آپ وہاں پہ اکٹھے ہوکے پھر کسی طرف حملہ آور نہیں ہوں گے، اگر ان کو یقین دہانی آپ کروادیتے ہیں تو میں تو کہوں گا کہ ٹھیک ہے ان کو اجازت دیدیں، لیکن یہ ایک سبجیکٹیو بات ہے کہ آیا ان کی اس بات پر اعتماد کیا جاسکتا ہے یا نہیں کیا جاسکتا، لاہور کی انتظامیہ اس کے بارے میں بہتر فیصلہ کرے گی۔‘

مزیدپڑھیں:

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا مؤقف تھا کہ خان صاحب برصغیر میں کوئی پہلی تحریک نہیں چلانے لگے، سو سال تک مسلمانوں بلکہ اس میں ہندو بھی شامل تھے جنہوں نے انگریزوں کیخلاف تحریک چلائی، اس کے بعد 70 سالوں میں مسلم لیگ ن نے اور پیپلز پارٹی نے بھی اسٹیبلشمنٹ اور حکمرانوں کیخلاف تحریک چلائی ہے۔

’اگر یہ خود نہیں سمجھ رہے تو ان کو چاہیے تھوڑا دیکھ لیں پڑھ لیں کسی سے مشورہ کرلیں، جیل میں کتابیں پڑھنا ضروری نہیں ہوتا، وہاں پہ سوچ وبچار کریں، ایکسرسائز کریں، جب ایک آدمی جیل میں بیٹھا ہے تو تحریک تو اس کی چل رہی ہے، اور علیحدہ سے کون سی تحریک چلانی ہے۔‘

مزیدپڑھیں:پی ٹی آئی کا لاہور جلسہ روکنے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر

رانا ثنا اللہ کے مطابق کسی آدمی کا جیل میں ہونا یا اس کی پارٹی کے لوگوں کا جیل میں ہونا یا ان کے خلاف مقدمات کا چلنا، یا ان کا تاریخوں پہ پیش ہونا، بری ہونا، سزا ہونا، یہ سب بذات خود ایک تحریک ہے۔ ’اب پتا نہیں 5 تاریخ کو یہ کیا کرنا چاہتے تھے اور اب جلسے پہ بات آگئی ہے۔‘

رانا ثنا اللہ نے 9 مئی کے ایک مقدمے میں شاہ محمود قریشی کی بریت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے، اور اس روز وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کراچی میں موجود تھے، لہذا وہ نہیں سمجھتے کہ ان کی بریت میں کسی سیاسی شماریات کا کوئی عمل دخل ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیبلشمنٹ برصغیر پی ٹی آئی تحریک جلسہ جیل رانا ثنا اللہ لاہور نقطہ عروج

متعلقہ مضامین

  • امارات میں بچے سے جنسی کے ملزم کو 10 سال قید کی سزا
  • امدادی کٹوتیاں: یو این ادارہ نائیجریا میں کارروائیاں بند کرنے پر مجبور
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • کرایہ
  • قوم پرستی اور علیحدگی پسند
  • وزیراعظم شہباز شریف نے کام پسند آنے پر نوجوان وی لاگر محمد طلحہ کو کتنی انعامی رقم دی؟
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
  • قومی ٹیسٹ کرکٹر امام الحق کا انگلش کاؤنٹی یارکشائر سے باقاعدہ معاہدہ
  • یوم شہادت امام زین العابدین (ع) کی مناسبت سے سرینگر میں جلوس عزاء
  • آرٹس کونسل کراچی کے تحت محفل مسالمہ و نیاز امام حسینؑ