کنزیومر کورٹس بڑھانے کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
سندھ حکومت نے لوگو والے شاپنگ بیگز کے پیسے لینے والوں کے خلاف کارروائی کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اگرچہ تاخیر سے ہوا مگر ایک اچھا فیصلہ ہے جس پر اگر حقیقی طور پر عمل ہوا تو اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے اور عوام کو ہر طرف سے لوٹنے کے مذموم عزائم نہ صرف ناکام ہوں گے بلکہ عوام کا بھی کچھ مالی فائدہ ہوگا۔
حکومت کی کوشش اور بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود ملک میں شاپنگ بیگز کی تیاری اور استعمال رکنے میں نہیں آیا بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی ہی نہیں بڑھا رہا بلکہ لوگوں کی ناجائزکمائی کے ذریعے کے ساتھ نکاسی آب کی تباہی میں اہم کردار ادا کرچکا ہے جس کی وجہ سے شہر کی سڑکیں ہوں یا بازار بلکہ اندرونی گلیوں تک میں جگہ جگہ گٹر ابلتے اور سڑکوں پر بہتا ہوا گٹروں کا گندا پانی ہے۔ شہر کی مساجد بھی سیوریج کے گندے پانی سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ مساجد آنے والے راستوں پر بھی گندا پانی جمع یا بہتا رہتا ہے۔
نکاسی آب کی راہ میں رکاوٹ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ہیں جو اب کوئی بھی سامان فروخت اور خریدنے والوں کی ضرورت بلکہ مجبوری بنے ہوئے ہیں۔ دودھ، دہی، سبزی، فروٹ بلکہ ضروریات زندگی کی ہر چیز اب شاپنگ بیگز کے ذریعے ہی خریدی اور فروخت کی جا رہی ہے اور بعد میں ان شاپنگ بیگز کو ضایع کرنے کا کوئی نظام ہے ہی نہیں وہ پھینک دیے جاتے ہیں جو ہوا سے اڑکر دور دور تک ہی نہیں پھیلتے بلکہ اڑ کر قریب موجود درختوں میں جا لٹکتے ہیں۔ شہروں میں نکاسی آب کے لیے نالیاں یا نالے ہیں شاپنگ بیگز جا پھنستے ہیں۔
شاپنگ بیگز کا استعمال کم کرنے کے لیے کالے شاپنگ بیگز کی تیاری کی سرکاری طور پر ممانعت ہوئی جس کا اثر برائے نام ہوا۔ شاپنگ بیگز بنانے والوں نے مزید رنگ دار، موٹے پلاسٹک والے خوبصورت شاپنگ بیگز بنانے شروع کر دیے جو مال فروخت کرنے والوں نے اپنی تشہیر کا ذریعہ بنا لیے اور اپنے کاروباری لوگو بھی شاپنگ بیگز پر پرنٹ کرانا شروع کر دیے جو انھیں مہنگے پڑنے لگے تو انھوں نے اپنا یہ مالی نقصان خریداروں پر منتقل کرنا شروع کر دیا اور بیس تیس روپے اضافی وصول کرنا شروع کر دیے گئے ہیں۔
امیر و متوسط طبقے کے لیے ہزاروں روپے کا سامان خریدنے کے باعث اضافی بیس تیس روپے کی تو اہمیت نہیں ہوتی لہٰذا پلاسٹک بیگز پر کاروباری لوگو پرنٹ ہونے کا سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور بعضوں نے اسے بھی کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے جس پر ایک صارف نے شاپنگ بیگ کے اضافی پیسے لینے پر ایک شوز کمپنی کی شکایت کی کہ جوتوں کا ایک جوڑا خریدنے پر تیس روپے اضافی لیے گئے ہیں جس پر عمل بھی ہو گیا اور شوز کمپنی کو نوٹس جاری کیا گیا جس کا کمپنی نے جواب دینا گوارا نہ کیا جس کے بعد ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کورٹ ساؤتھ نے ایکشن لیا اور کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک بیس تیس روپے اضافی وصول کر لینا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں مگر اس اضافی رقم وصولی سے لوگوں پر مالی بوجھ مزید بڑھا مگر عوام کی عدم دلچسپی سے حکومتی قانون عوام کے لیے بے فائدہ ہو گیا۔پلاسٹک، کپڑے یا کاغذ سے بنے بیگز میں اپنا سامان فروخت کرنا فروخت کرنے والوں کی ذمے داری بنتی ہے مگر بڑے اداروں اور دکانداروں نے اسے بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور اپنے اپنے نام والے بیگز بنوا کر اس کی بھی اضافی رقم وصول کرنا شروع کر دی ہے مگر کنزیومر پروٹیکشن کورٹ کی اہمیت سے ناواقف لوگ ابھی اس شعور سے محروم ہیں کہ حکومت نے یہ کورٹ عوام کے فائدے کے لیے قائم کی ہیں مگر لوگ اپنے حقوق کے لیے ان عدالتوں سے رجوع نہیں کرتے حالانکہ یہ عدالتیں بھی بڑھتی مہنگائی کے سدباب میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
کنزیومر پروٹیکشن کورٹ ابھی ضلعی سطح پر قائم ہیں جو تعداد میں نہ ہونے کے برابر ہیں جن کی تعداد اور عوامی شعور بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب ہر کاروباری ادارہ، چھوٹے بڑے دکاندار بلکہ ریڑھی اور پتھارے والے بھی من مانی قیمتیں وصول کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور عوام کو لوٹ رہے ہیں جن کی کہیں بھی شکایت نہیں کی جاتی اور لوگ لاعلمی میں لٹ رہے ہیں۔
لوگ اپنے حق کی وصولی میں دلچسپی نہیں لیتے کہ کون بیس تیس روپے اضافی لینے یا من مانے نرخ وصول کرنے والوں کی شکایت کرکے خوار ہو وہ خاموش رہتے ہیں جس سے کنزیومر کورٹ کے قیام کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔بڑے بڑے شاپنگ مالز اور اسٹورز میں بھی عوام سے من مانے نرخ وصول کرنے کی شکایات بڑھ رہی ہیں اور لوگ سہولت کی خاطر وہاں جا کر خریداری کرتے ہیں اور زیادہ قیمتیں ادا کرکے لٹ رہے ہیں اور اپنے لٹنے کی شکایت بھی نہیں کرتے۔ کنزیومر کورٹ کی افادیت کے لیے عوامی شعور بڑھانے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑے مالز اور اسٹور والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ نمایاں طور پر بورڈ آویزاں کریں کہ ان کی گراں فروشی کی شکایات کنزیومر کورٹ میں کی جائیں جہاں ان کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی شکایتوں سے عوام کو فائدہ ہی ہونا ہے مگر لوگ کنزیومر کورٹ سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کنزیومر کورٹ بیس تیس روپے شاپنگ بیگز کی شکایت عوام کو وصول کر ہیں اور اور اس کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان کے تین ملین بچے تعلیم سے محروم: ذمے دار کون؟
بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، بدقسمتی سے تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں تین ملین سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں بلکہ ایک مکمل نسل کی تعلیمی محرومی کا اعلان ہے۔ بلوچستان میں اس وقت 15 ہزار 165 اسکول ہیں جن میں سے 80.1 فیصد پرائمری اسکول ہیں۔ پورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کی تعداد 3 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے بارے میں تیارکی جانے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں 85 فیصد اسکول غیر فعال ہیں۔ حکومتِ بلوچستان کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کچھ اسکولوں کو فعال کردیا گیا ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں 542 اسکول مزید بند ہوگئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں سال بند ہونے والے اسکولوں کی تعداد 3152 تھی۔ صوبہ میں سب سے زیادہ 254 اسکول پشین میں بند ہیں۔ اسی طرح ضلع ڈیرہ بگٹی میں سب سے کم 13 اسکول غیر فعال ہیں۔ خضدار میں 251، قلات میں 179، قلعہ سیف اﷲ میں 179، بارخان میں 174 ، اور ان میں 161 اور دارالحکومت کوئٹہ میں 152 اسکول بند ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی کے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے کہا کہ صوبہ میں 16 ہزار اساتذہ کی کمی ہے۔
اب حکومت نے اساتذہ کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اسی طرح پورے بلوچستان میں 135 انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کالجز ہیں، جب کہ پورے بلوچستان میں صرف 9 یونیورسٹیاں ہیں۔ اس وقت بلوچستان کا مالیاتی بجٹ 1020 بلین ہے جس میں سے غیر ترقیاتی بجٹ کے لیے 640 بلین روپے رکھے گئے ہیں اور اسکولوں کے لیے 19.8 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں خواندگی کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 42 فیصد کے قریب ہے۔ مردوں میں خواندگی کا تناسب 50 فیصد اور خواتین میں 32.80 فیصد بتایا گیا ہے۔ خواندگی کی یہ شرح تینوں صوبوں، پاکستان کے زیرِ انتظامی کشمیر اورگلگت بلتستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بلوچستان کے ماہرینِ تعلیم کی یہ متفقہ رائے ہے کہ حکومت نے خواندگی کی شرح کے اعداد و شمار میں کوئی ملاوٹ کی ہے۔
حقیقی طور پر بلوچستان میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے بڑے پیمانہ پر بچے اسکول نہ جانے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا وبا، بے روزگاری کے علاوہ تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کا طریقہ کار ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کے مقابلے میں مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد خاطر خواہ حد تک کم ہے جس کی بناء پر پرائمری اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے لیے سیکنڈری اسکول میں داخلہ حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے پانچویں جماعت کے بعد تعلیم ترک کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ۔
اعداد و شمار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں پرائمری اسکول پاس کرنے والے 70 فیصد بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے مختلف شہروں میں رپورٹنگ کرنے والے کچھ صحافیوں کی یہ رائے ہے کہ برسر اقتدار حکومتوں نے ایسے افراد کو استاد کی حیثیت سے منتخب کر کے ملازمتیں دیں جو تدریس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ان افراد کو سیاسی وجوہات کی بناء پر ملازمتیں دی گئیں۔ یوں بہت سے اسکول اساتذہ میسر نہ آنے کی بناء پر بند ہوگئے۔
بلوچستان کی پہلی جمہوری حکومت 70ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کی قائم ہوئی۔ میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اﷲ مینگل کی قیادت میں قائم ہونے والی اس حکومت میں بلوچستان میں پہلی یونیورسٹی قائم کی گئی اور میڈیکل کالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اسی طرح تعلیمی بورڈ بھی قائم کیا گیا، مگر اس حکومت کو 9 ماہ بعد رخصت کردیا گیا۔ 2013 میں ڈاکٹر مالک کی قیادت میں نیشنل پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دور میں بلوچستان میں مادری زبان میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ تعلیم کا بجٹ بڑھا کر 24 فیصد کردیا گیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بلوچستان کے امور کے ماہرین کا بیانیہ ہے کہ بلوچستان میں حکومتیں منتخب نہ ہونا ہی بنیادی المیہ ہے۔
یہی وہ بنیادی المیہ ہے جو بلوچستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا۔ یہاں حکومتیں عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ گھوسٹ ووٹوں سے بنیں، عوام کی نمایندگی کرنے والے چہرے غائب ہوگئے اور ان کی جگہ کٹھ پتلی حکمران لائے گئے۔ جب حکمران عوام کے اصل نمایندے نہیں ہوتے تو ان کی ترجیحات بھی عوام نہیں ہوتے۔ نتیجتاً، بلوچستان میں جمہوریت پنپ نہ سکی بلکہ عوامی ادارے بھی دن بہ دن کمزور ہوتے چلے گئے۔ ان اداروں کا زوال سب سے زیادہ شعبہ تعلیم پر پڑا۔ وہ تعلیمی نظام جو کسی بھی قوم کے مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، بلوچستان میں بوسیدہ، ناکارہ اور فرسودہ بنا دیا گیا۔
آج بلوچستان میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، ان کے لیے نہ تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں، نہ بنیادی سہولیات اور نہ ہی ایک محفوظ تعلیمی ماحول۔ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں عوام کو جوابدہ نہیں ہیں۔ انھیں عوام کے مستقبل سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر ہوتی ہے، اور یہی سوچ تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ بلوچستان کے بچوں کا مستقبل آج اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ جب تک حقیقی معنوں میں عوامی حکومت قائم نہیں ہوتی، جب تک ووٹ کی حرمت بحال نہیں کی جاتی اور جب تک حکمران عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے تب تک نہ تعلیم سنور سکتی ہے، نہ صحت، نہ روزگار اور نہ ہی بلوچستان کی تقدیر۔ بلوچستان کو جمہوریت، شفاف الیکشن اور عوامی نمایندوں کی حکومت کی اشد ضرورت ہے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
بلوچستان، جو قدرتی وسائل سے مالا مال، مگر ترقی کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ خطہ ہے، آج ایک ایسے موڑ پرکھڑا ہے جہاں ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ ناقابلِ تردید ہو چکا ہے۔ یہ فاصلہ صرف جغرافیائی یا ترقیاتی نہیں، بلکہ جذباتی، سیاسی اور اعتماد کا ہے۔ کچھ بلوچوں کی ریاست سے دوری محض کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل ہے، جس کی جڑیں سیاسی ناانصافی، معاشی استحصال جیسے عوامل میں پیوست ہیں۔ بارہا وعدے کیے گئے، کئی پیکیج دینے کے اعلانات ہوئے، مگر زمینی حقائق جوں کے توں رہے۔
اس بداعتمادی نے محرومیوں کو جنم دیا۔ تعلیمی ادارے ویران، اسپتال خالی، سڑکیں کچی اور نوجوانوں کے لیے نہ روزگار ہے اور نہ ہی مستقبل کا کوئی واضح راستہ۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے مسائل پر بات کرنے والے افراد بھی لاپتہ ہیں، تو وہ اپنی آواز دبانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی خاموشی محرومی کو مزید گہرا کرتی ہے۔ ریاست کی پالیسیوں میں بلوچستان کے عوام کی رائے نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور ان کا نفاذ بلوچستان جیسے علاقوں پر ہوتا ہے۔ یہی دوری، یہی احساسِ بیگانگی اور یہی سیاسی نظر اندازی آج بلوچ عوام کو پرے دھکیل رہی ہے۔
بد اعتمادی اب فقط ایک سیاسی اصطلاح نہیں رہی، بلکہ ایک زندہ سچائی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ وفاقی حکومت کو بلوچستان کی صورتحال پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وافر مقدار میں فنڈز فراہم کرنے کے ساتھ ان فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نوجوانوں کو اعتماد میں لینے کے لیے حقیقی اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کیے جائیں۔