Express News:
2025-09-18@15:47:30 GMT

کنزیومر کورٹس بڑھانے کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

سندھ حکومت نے لوگو والے شاپنگ بیگز کے پیسے لینے والوں کے خلاف کارروائی کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اگرچہ تاخیر سے ہوا مگر ایک اچھا فیصلہ ہے جس پر اگر حقیقی طور پر عمل ہوا تو اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے اور عوام کو ہر طرف سے لوٹنے کے مذموم عزائم نہ صرف ناکام ہوں گے بلکہ عوام کا بھی کچھ مالی فائدہ ہوگا۔

حکومت کی کوشش اور بار بار خبردار کیے جانے کے باوجود ملک میں شاپنگ بیگز کی تیاری اور استعمال رکنے میں نہیں آیا بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی ہی نہیں بڑھا رہا بلکہ لوگوں کی ناجائزکمائی کے ذریعے کے ساتھ نکاسی آب کی تباہی میں اہم کردار ادا کرچکا ہے جس کی وجہ سے شہر کی سڑکیں ہوں یا بازار بلکہ اندرونی گلیوں تک میں جگہ جگہ گٹر ابلتے اور سڑکوں پر بہتا ہوا گٹروں کا گندا پانی ہے۔ شہر کی مساجد بھی سیوریج کے گندے پانی سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ مساجد آنے والے راستوں پر بھی گندا پانی جمع یا بہتا رہتا ہے۔

نکاسی آب کی راہ میں رکاوٹ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ہیں جو اب کوئی بھی سامان فروخت اور خریدنے والوں کی ضرورت بلکہ مجبوری بنے ہوئے ہیں۔ دودھ، دہی، سبزی، فروٹ بلکہ ضروریات زندگی کی ہر چیز اب شاپنگ بیگز کے ذریعے ہی خریدی اور فروخت کی جا رہی ہے اور بعد میں ان شاپنگ بیگز کو ضایع کرنے کا کوئی نظام ہے ہی نہیں وہ پھینک دیے جاتے ہیں جو ہوا سے اڑکر دور دور تک ہی نہیں پھیلتے بلکہ اڑ کر قریب موجود درختوں میں جا لٹکتے ہیں۔ شہروں میں نکاسی آب کے لیے نالیاں یا نالے ہیں  شاپنگ بیگز جا پھنستے ہیں۔

شاپنگ بیگز کا استعمال کم کرنے کے لیے کالے شاپنگ بیگز کی تیاری کی سرکاری طور پر ممانعت ہوئی جس کا اثر برائے نام ہوا۔ شاپنگ بیگز بنانے والوں نے مزید رنگ دار، موٹے پلاسٹک والے خوبصورت شاپنگ بیگز بنانے شروع کر دیے جو مال فروخت کرنے والوں نے اپنی تشہیر کا ذریعہ بنا لیے اور اپنے کاروباری لوگو بھی شاپنگ بیگز پر پرنٹ کرانا شروع کر دیے جو انھیں مہنگے پڑنے لگے تو انھوں نے اپنا یہ مالی نقصان خریداروں پر منتقل کرنا شروع کر دیا اور بیس تیس روپے اضافی وصول کرنا شروع کر دیے گئے ہیں۔

امیر و متوسط طبقے کے لیے ہزاروں روپے کا سامان خریدنے کے باعث اضافی بیس تیس روپے کی تو اہمیت نہیں ہوتی لہٰذا پلاسٹک بیگز پر کاروباری لوگو پرنٹ ہونے کا سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور بعضوں نے اسے بھی کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے جس پر ایک صارف نے شاپنگ بیگ کے اضافی پیسے لینے پر ایک شوز کمپنی کی شکایت کی کہ جوتوں کا ایک جوڑا خریدنے پر تیس روپے اضافی لیے گئے ہیں جس پر عمل بھی ہو گیا اور شوز کمپنی کو نوٹس جاری کیا گیا جس کا کمپنی نے جواب دینا گوارا نہ کیا جس کے بعد ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کورٹ ساؤتھ نے ایکشن لیا اور کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔

بعض لوگوں کے نزدیک بیس تیس روپے اضافی وصول کر لینا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں مگر اس اضافی رقم وصولی سے لوگوں پر مالی بوجھ مزید بڑھا مگر عوام کی عدم دلچسپی سے حکومتی قانون عوام کے لیے بے فائدہ ہو گیا۔پلاسٹک، کپڑے یا کاغذ سے بنے بیگز میں اپنا سامان فروخت کرنا فروخت کرنے والوں کی ذمے داری بنتی ہے مگر بڑے اداروں اور دکانداروں نے اسے بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور اپنے اپنے نام والے بیگز بنوا کر اس کی بھی اضافی رقم وصول کرنا شروع کر دی ہے مگر کنزیومر پروٹیکشن کورٹ کی اہمیت سے ناواقف لوگ ابھی اس شعور سے محروم ہیں کہ حکومت نے یہ کورٹ عوام کے فائدے کے لیے قائم کی ہیں مگر لوگ اپنے حقوق کے لیے ان عدالتوں سے رجوع نہیں کرتے حالانکہ یہ عدالتیں بھی بڑھتی مہنگائی کے سدباب میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

کنزیومر پروٹیکشن کورٹ ابھی ضلعی سطح پر قائم ہیں جو تعداد میں نہ ہونے کے برابر ہیں جن کی تعداد اور عوامی شعور بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اب ہر کاروباری ادارہ، چھوٹے بڑے دکاندار بلکہ ریڑھی اور پتھارے والے بھی من مانی قیمتیں وصول کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور عوام کو لوٹ رہے ہیں جن کی کہیں بھی شکایت نہیں کی جاتی اور لوگ لاعلمی میں لٹ رہے ہیں۔

لوگ اپنے حق کی وصولی میں دلچسپی نہیں لیتے کہ کون بیس تیس روپے اضافی لینے یا من مانے نرخ وصول کرنے والوں کی شکایت کرکے خوار ہو وہ خاموش رہتے ہیں جس سے کنزیومر کورٹ کے قیام کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔بڑے بڑے شاپنگ مالز اور اسٹورز میں بھی عوام سے من مانے نرخ وصول کرنے کی شکایات بڑھ رہی ہیں اور لوگ سہولت کی خاطر وہاں جا کر خریداری کرتے ہیں اور زیادہ قیمتیں ادا کرکے لٹ رہے ہیں اور اپنے لٹنے کی شکایت بھی نہیں کرتے۔ کنزیومر کورٹ کی افادیت کے لیے عوامی شعور بڑھانے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بڑے مالز اور اسٹور والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ نمایاں طور پر بورڈ آویزاں کریں کہ ان کی گراں فروشی کی شکایات کنزیومر کورٹ میں کی جائیں جہاں ان کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی شکایتوں سے عوام کو فائدہ ہی ہونا ہے مگر لوگ کنزیومر کورٹ سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کنزیومر کورٹ بیس تیس روپے شاپنگ بیگز کی شکایت عوام کو وصول کر ہیں اور اور اس کے لیے

پڑھیں:

سیلاب ،بارش اور سیاست

رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل

کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • انقلاب – مشن نور
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • اب چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں! سائنسدانوں نے نظر کی کمزوری کا نیا علاج دریافت کرلیا