پانچ سو بلین یورو کا تاریخی جرمن فنڈ: قیام کا پہلا مرحلہ طے
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مارچ 2025ء) جرمنی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے مقابلے کے لیے 100 بلین یورو کے ایک پیکج پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ یہ پیکج ملکی انفراسٹرکچر اور تحفظ ماحول سے متعلق 500 بلین یورو مالیت کے ایک نئے لیکن تاریخی فنڈ کا حصہ ہو گا۔
جرمن الیکشن میں قدامت پسندوں کی جیت، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر
جرمن دارالحکومت برلن سے جمعہ 14 مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق نئے ریاستی قرضوں کی صورت میں اس بہت بڑے مالیاتی پیکج کا مقصد یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے مقابلے کے لیے کافی وسائل مہیا کرنا ہے، جس دوران ملکی بنیادی ڈھانچے کو بھی جدید تر بنایا جائے گا۔
چار جماعتی اتفاق رائےاس نئے فنڈ کی مجموعی مالیت تقریباﹰ 500 بلین یورو ہے، جن میں سے قریب 100 بلین یورو اس پیکج کے ماحولیاتی حصے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
(جاری ہے)
اس پیکج کی منظوری کے لیے ابھی تک کام کرنے والی گزشتہ منتخب بنڈس ٹاگ میں بھر پور کوششیں کی جا رہی تھیں۔
اس تاریخی پیکج کے لیے قدامت پسندوں کی یونین جماعتیں، کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) نگران وفاقی چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر کوششیں جاری رکھے ہوئے تھیں۔
ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے پارلیمانی حزب کو تاہم اعتراض تھا اور وہ آج جمعے تک اس پیکج کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اس کی پارلیمانی حمایت سے انکاری تھا۔تاہم ان مذاکرات میں سی ڈی یو، سی ایس یو، ایس پی ڈی اور گرین پارٹی کے مابین اب اتفاق رائے ہو گیا ہے اور نصف ٹریلین یورو مالیت کے اس نئے ریاستی فنڈ کے قیام کی پارلیمانی منظوری کے لیے سیاسی اتفاق رائے کی صورت میں ایک بڑی رکاوٹ عبور کر لی گئی ہے۔
اتفاق رائے میں بڑی رکاوٹ کیا تھی؟جرمنی میں حکومت بجٹ یا دیگر مالیاتی منصوبوں کے لیے عوام کے نام پر لامحدود نئے ریاستی قرضے نہیں لی سکتی اور ان سرکاری قرضوں کی شرح کی ایک حد بھی مقرر ہے۔ اس لیے اصل مسئلہ یہ تھا کہ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی قانون سازی کی جائے، جو دو تہائی اکثریت سے منظور ہو اور جس کے ذریعے ریاستی قرضوں کی مجموعی مالیت کی حد کو عبوری طور پر نظر انداز کیا جا سکے۔
اب چاروں سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کے بعد وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں میں اس بارے میں ایک مسودہ قانون پر رائے شماری آئندہ منگل کے روز ہو گی، جس میں دو تہائی اکثریت سے یہ پیکج منظور کر لیا جائے گا۔ بنڈس ٹاگ میں منظوری کے بعد اس تاریخی فنڈ کی پارلیمانی ایوان بالا یا بنڈس راٹ سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظوری لازمی ہو گی۔
تاریخی ڈیل کے مقاصداس عظیم الجثہ مالیاتی پیکج کے ساتھ جرمنی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے جدت پسندانہ طور پر نمٹا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ ان مالی وسائل کا ایک حصہ ملکی معیشت کو اور زیادہ ماحول دوست بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔
یہی نہیں بلکہ اس پیکج کے ذریعے، جو ایک فنڈ کی صورت میں کام کرے گا، ملکی دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور ساتھ ہی جرمن صنعتی شعبے کو بھی یوں مزید جدید اور ماحول دوست بنایا جائے گا کہ جرمن انفراسٹرکچر بھی بدلتے ہوئے اقتصادی تقاضوں اور ماحولیاتی حقائق سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔
جرمنی میں اس مالیاتی پیکج کی منظوری کے لیے وقت اس لیے بہت کم تھا کہ موجود شولس حکومت ایف ڈی پی نامی پارٹی کے حکومتی اتحاد سے نکل جانے کے بعد سے ایک اقلیتی حکومت ہے، جو صرف سوشل ڈیموکریٹس اور گرین پارٹی پر مشتمل ہے اور اس کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت تو دور کی بات سادہ اکثریت بھی نہیں ہے۔
اسی لیے ملک میں عام انتخابات قبل از وقت کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جو 23 فروری کو ہوئے تھے۔
اس پیکج کی منظوری کے لیے موجودہ بنڈس ٹاگ میں قدامت پسندوں کی دونوں یونینن جماعتوں نے ایس پی ڈٰی اور گرین پارٹی کی حمایت کی۔اس لیے کہ دو تہائی پارلیمانی اکثریت اسی طرح ممکن ہو سکتی تھی اور پھر 25 مارچ کو اس نئی بنڈس ٹاگ کا پہلا اجلاس بھی ہونے والا ہے، جو 23 فروری کو منتخب کی گئی تھی۔
سیاسی طور پر اہم بات یہ بھی ہے کہ نئی پارلیمان میں سب سے بڑا پارلیمانی حزب دونوں یونین جماعتوں یعنی سی ڈٰی یو اور سی ایس یو ہی کا ہو گا اور سی ڈی یو کے فریڈرش میرس ہی یقینی طور پر نئے جرمن چانسلر ہوں گے۔
اسی دوران یہ پختہ امکان بھی اپنی جگہ ہے کہ جرمنی میں نئی وفاقی پارلیمان کی تشکیل کے بعد اگلی حکومت قدامت پسند اور سوشل ڈیموکریٹس ہی مل کر بنائیں گے، جسے اصطلاحاﹰ وسیع تر مخلوط حکومت یا گرینڈ کولیشن کہا جاتا ہے۔
فریڈرش میرس نے کیا کہا؟آج برلن میں ہونے والے سیاسی اتفاق رائے کے بعد نئے ریاستی قرضوں سے متعلق اس تاریخی ڈیل اور نئے فنڈ کا اعلان کرتے ہوئے کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سیاستدان اور متوقع نئے چانسلر فریڈرش میرس نے کہا، ''جرمنی لوٹ آیا ہے۔
‘‘میرس نے کہا، ''یہ ہمارے پارٹنرز اور دوستوں، لیکن ہمارے مخالفین اور ہماری آزادی کے دشمنوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے: ہم اپنا دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اب تو ہم کامیابی سے اپنا دفاع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘‘
فریڈرش میرس نے یہ اعلان بیھ کیا کہ اس مالیاتی پیکج مین سے پاعرکیانی منظقوری کے بعد تین بلین یورو (3.
یورپ مضبوط قیادت اور استحکام کے لیے فریڈرش میرس کی طرف دیکھ رہا ہے
اسی طرح سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے شریک سربراہ لارس کلنگ بائل نے اس موقع پر کہا کہ جرمن حکومت کی طرف سے اتنے زیادہ نئے قرضوں کے حصول اور وسیع تر نئی سرمایہ کاری کا یہ فیصلہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت کے ایک ''بہت طاقت ور پیش رفت‘‘ کو یقینی بنائے گا۔
کلنگ بائل کے الفاظ میں، ''ہم نے اس امر کی بنیاد فراہم کر دی ہے کہ جرمنی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتے ہوئے اپنا دفاع کر سکے۔‘‘
م م / ش ر (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دو تہائی اکثریت منظوری کے لیے فریڈرش میرس گرین پارٹی اتفاق رائے نئے ریاستی بلین یورو پسندوں کی بنڈس ٹاگ پارٹی کے کہ جرمن جائے گا اس پیکج پیکج کے کے بعد
پڑھیں:
ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
پرانے زمانے میں ایک ملک ہواکرتا تھا اس کا نام اپنی پیداوار کے باعث ’’الوستان‘‘ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے ’’الو‘‘ پیدا ہوتے تھے جو الو ہونے کے ساتھ الو کے فرزند بھی ہوتے تھے لیکن انھوں نے اس کا نام ’’یونان‘‘ رکھا تھا ،اس کی سب سے بڑی فصل یا پیداوار یا پراڈکٹ الو ہوا کرتے تھے جو خواہ مخواہ بات بے بات کے فلسفوں کی چیونٹیاں ، بٹیر اورمرغے لڑایا کرتے تھے ، ان الوؤں کے الوپن کااندازہ اس سے لگائیں کہ ان میں سے جو سب سے بڑا تھا سقراط نام کا۔ اس کے سامنے حکومت نے تین شرطیں رکھیں ،نمبر ایک، وطن چھوڑدو، نمبردو اپنے منہ کا زپ بندکرلو۔ نمبرتین۔ زہرکا پیالہ نوش جان کرو۔
اب اگر کوئی پاکستانی دانادانشور ہوتا، تو پہلی شرط مان کر کسی مرغن چرغن ملک میں جا بیٹھتا اورحکومت کے وظیفے پر گل چھرے اڑاتا ، ہمارے حضرت پروفیسر ڈاکٹر علامہ کی طرح یاالطاف بھائی کی طرح اور یا باباجی ڈیموں والی سرکار کی طرح۔ یا منہ بند کرکے کسی لگژری بنگلے میں محو استراحت ہوجاتا ۔ لیکن الو تھا ، اس لیے زہرکا پیالہ ہی پی گیا۔مستے نمونہ ازخروارے یا ایک چاول سے دیگ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی الو بھی ایسے ہی سن آف اوول ہی ہوں گے ۔
اسی سقراط بقراط کی طرح ایک اورتھا۔’’دمیقراط‘‘ ڈیموکریٹس۔ اس نے خواہ مخواہ ساری عمر لگا کرایک تو ’’ایٹم‘‘ کانظریہ دیا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے یعنی اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اوردوسرا ڈیموکریسی اورمعرب ہو کر اس کے نام کی رعایت سے جمہوریت بنا جس لفظ کی ابتداء ہی ڈیم سے ہوتی ہے اس کے ساتھ صرف فول لگایا جا سکتا ہے ۔اس کے دونوں تحفوں کاحشرنشر ہم دیکھ چکے اس نے جس ذرے کو ایٹم یعنی ناقابل تقسیم کہا تھااسے یاروں نے ایسا تقسیم کردیا کہ اس کے پیٹ سے دو بچے نکالے ایسے دو بچے کہ ایک نے ہیروشیما کو گل وگلزار کردیا اوردوسرے نے ناگاساکی کو باغ وبہار کردیا…اوراس کا دوسرا تحفہ ڈیماکریسی۔
زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا
اس تحفے کا بعد میں لوگوں نے خلاصہ یوں کیا کہ عوام پر…عوام کی حکومت ۔ عوام کے ذریعے ان تین باتوں کو ہرطرح سے آگے پیچھے کیجیے ۔مطلب وہی نکلے گا لیکن اس میں یہ بات چھپائی گئی ہے کہ عوام کی حکومت ، عوام پر عوام کے ذریعے۔ میں اصل جزواعظم عوام نہیں بلکہ حکومت ہے اورجب یہ منحوس نام کہیں آجاتا ہے وہاں چارپائی کی سی حالت ہوجاتی ہے اوریہ فقرہ ہے بھی چارپائی کی طرح ، چارپائی میں آپ’’سر‘‘ اورپیر کسی بھی طرف کیجیے ، سینٹر چارپائی کے بیچ میں آئے گا ۔
اس فقرے میں بھی حکومت چاہے کسی طرف سے ہوکسی بھی شکل وصورت میں ہو۔حکومت حکومت ہوتی ہے اورمحکوم محکوم ہوتے ہیں اس نام ہی میں ساری اہلیت ہے ،کیوں کہ حکومت میں جو بھی لوگ آجاتے ہیں وہ ’’ہم‘‘سے ’’میں‘‘ ہوجاتے ہیں اورسارے فساد کی جڑ یہ ’’میں‘‘ ہے جس کاموجد اوربانی مبانی ’’ابلیس‘‘ تھا اورجب سے اس دنیا میں ’’ہم‘‘ کے مقابل ’’میں‘‘ آیاہے تب سے خرابیاں شروع ہوئی ہیں۔
خیر اب یہاں سے ایک اورسلسلہ شروع ہوتا ہے اس الو ئے یونان دمیقراط کے ایٹم کاجوحشر نشر لوگوں نے کیا وہ اپنی جگہ ۔۔اس دوسرے تحفے جمہوریت کاجو تیاپانچہ کردیاگیا ہے وہ بڑی دلچسپ کہانی ہے ، اس کی ایسی درگت بنائی گئی ہے کہ خود دمیقراط اگر آجائے تو وہ بھی اسے پہچان نہیں پائے گا بلکہ شاید خود یہ جمہوریت بھی اگر آئینے کے سامنے کھڑی ہوجائے توحیران ہوکر پوچھے گی، آپ کون؟
اورپھر ماشاء اللہ دورجدید کے یونان پاکستان میں تو اس کو اتنے گھنگھرو اورگہنے پہنائے گئے کہ چیونٹی سے ہاتھی بن گئی ۔
ایک انگریزی کاناول نگار ہے ایچ جی ویلزنام ہے شاید۔ اس نے بڑے عجیب وغریب ناول لکھے ہیں وہ مشہورناول (نادیدہ آدمی) بھی اس کاہے جس پر ہرزبان میں فلمیں بھی بنی ہیں اوربھی بہت ہیں ان میں ، ایک ناول ایسا بھی ہے جس میں ایک ضبطی سائنس دان اورسرجن ایک الگ جزیرے میں جانوروں پر تجربے کررہا ہے، سرجن کے ذریعے وہ ایک جانور کے اعضاء دوسرے میں پیوند کرتا ہے۔ آخر وہ ایک ایسا جانور بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس میں کئی جانوروں کے اعضاء پیوند کیے ہیں ، شیر ، گیدڑ، بھیڑ، بھیڑیا ، ہاتھی ، گھوڑے کتے سب کے اعضاء اس میں فٹ کیے گئے ہیں ، یوں ایک عجیب الخلقت چیز بنا کر وہ بڑا خوش ہوتا ہے لیکن یہ خوشی اسے راس نہیں کیوں کہ جانور اسے پیوند شکم کردیتا ہے ۔
دیکھیے تو پاکستانی جمہوریت بھی اسی جانورجیسی بن گئی ہے ، اس میں قبائلی وحشی سرداروں کے بھی گن ہیں ، مطلق العنانی بادشاہوں کی بھی صفات ہیں ، آمریت کی نشانیاں بھی ہیں، دینی ریاست کی بھی خوبیاں ہیں، لادینیت سے بھی بھرپو رہے ، بیلٹ بھی ہے بلٹ بھی ، ڈاکو لٹیروں کاچال چلن بھی ہے ، گینگسٹروں کے کردار بھی ہیں ، ٹریجیڈی اورساتھ ہی کامیڈی بھی ہے ، اوراب تو بانی کی مہربانی سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی ہوگیا ہے ، مطلب یہ کہ پنساری کی دکان یا جنرل اسٹورہے ، سب کچھ یہاں مل جاتا ہے اگر ڈھونڈئیے تو ، سوائے جمہوریت کے یا عوام کی خوشنودی کے ۔
غیرازیں نکتہ کہ حافظ زتو ناخوشنود است
درسراپائے وجودت پنرے نسیت کہ نسیت
ترجمہ: سوائے اس کے کہ حافظ تم سے خوشنود نہیں باقی دنیا میں ایسی کوئی صفت نہیں جوتم میں نہ ہو۔
اس جمہوریت کو ویسے تو کئی نام دیے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بہترنام سیلکٹڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ہوگا کیوں کہ اس میں صرف وہی محدود اشرافیہ حصہ لے سکتی ہے جو ابتدائے آفرینش سے پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد پر سوارچلی آرہی ہے ۔
(جاری ہے)