UrduPoint:
2025-11-03@14:23:44 GMT

حماس غزہ مذاکرات پر بہت برا جوا کھیل رہی ہے. وائٹ ہاﺅس

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

حماس غزہ مذاکرات پر بہت برا جوا کھیل رہی ہے. وائٹ ہاﺅس

واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 مارچ ۔2025 )وائٹ ہاﺅس نے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی میں توسیع کے بدلے ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی کی رہائی کے معاہدے پر ناقابلِ عمل مطالبات کر رہا ہے. امریکی نشریاتی ا دارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکوف اور امریکی قومی سلامتی کونسل کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حماس بہت برا جوا کھیل رہی ہے یہ سمجھ کر کہ وقت اس کے ساتھ ہے ایسا نہیں ہے .

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس ڈیڈلائن سے بخوبی واقف ہے اور اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اگر یہ ڈیڈ لائن گزر گئی تو ہم اس کے مطابق جواب دیں گے بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ حماس کو یرغمالیوں کو آزاد نہ کرنے کی سخت قیمت ادا کرنا پڑے گی فلسطینی عسکریت پسندوں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے بعد حماس نے کہا تھا کہ وہ ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی اور چار دیگر افراد کی باقیات کو واپس کرنے کے لیے تیار ہے.

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکوف نے بدھ کو قطر میں تجویز پیش کی تھی کہ اگر حماس فلسطینی قیدیوں کے بدلے زندہ یرغمالیوں کو رہا کر دے تو جنگ بندی کے پہلے مرحلے کو اپریل کے وسط تک بڑھایا جا سکتا ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس کو بتایا گیا تھا کہ اس تجویز پر جلد عملدرآمد کرنا ہوگا اور اس دوہری شہریت رکھنے والے امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو فوری طور پر رہا کرنا ہوگا.

بیان کے مطابق بدقسمتی سے حماس نے عوامی سطح پر لچک کا مظاہرہ کرنے کا دعوی کیا ہے جبکہ بند دروازوں کے پیچھے ایسے مطالبات کیے ہیں جو مستقل جنگ بندی کے بغیر مکمل طور پر ناقابلِ عمل ہیں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے جب پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو ترجیح دے رہا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تمام یرغمالیوں کی پرواہ ہے.

انہوں نے کینیڈا میں گروپ آف سیون کے مذاکرات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ہم اس طرح کام کر رہے ہیں کہ یہ ایک عام تبادلہ ہے، یہ ایک عام چیز ہے ان سب کو رہا کیا جانا چاہیے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا مزید کہنا تھا کہ میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا کہ ہم کیا قبول کریں گے اور کیا نہیں مانیں گے اس سے ہٹ کر پوری دنیا کو یہ کہنا جاری رکھنا چاہیے کہ حماس نے جو کیا ہے وہ اشتعال انگیز ہے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مطابق کہ حماس تھا کہ

پڑھیں:

سوڈان میں خونیں کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-3

 

سوڈان ایک بار پھر خون میں نہا رہا ہے۔ شہر الفشر میں گزشتہ ہفتے سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ فوجی انخلا کے بعد سے ریپڈ سپورٹ فورسز نے شہر پر قبضہ کر کے ایک ایسا قتل عام شروع کیا ہے جس نے دارفور کے پرانے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں۔ صرف چار دن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور پچیس ہزار سے زیادہ شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، الفشر کے اطراف میں ایک لاکھ سترہ ہزار کے قریب لوگ پھنسے ہوئے ہیں، بغیر خوراک، پانی یا طبی سہولت کے۔ اس المناک صورتحال کی جڑیں آج کی نہیں بلکہ ایک دہائی پرانی پالیسیوں میں پیوست ہیں۔ 2013ء میں جب دارفور میں بغاوت کے شعلے بھڑکے، تو خرطوم نے روایتی فوج کی ناکامی کے بعد ایک نئی ملیشیا بنائی، ریپڈ سپورٹ فورس۔ مقصد یہ تھا کہ تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے شورش کو ختم کیا جائے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، ’’ایک ملک میں دو فوجیں کبھی ساتھ نہیں رہ سکتیں‘‘۔ اس ملیشیا کو وسائل، اختیار اور تحفظ دیا گیا، مگر اس کے ساتھ وہ خود مختاری بھی ملی جس نے بالآخر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔ ماضی میں دیکھا جائے تو جب 2019ء میں عمرالبشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو یہی ملیشیا اقتدار کی کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی۔ ریپڈ فورسز نے فوجی اقتدار کے عبوری دور میں بھی اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ جاری رکھا۔ پھر 2023ء میں وہ لمحہ آیا جب جنرل برھان کی فوج اور جنرل حمیدتی کی فورس کے درمیان تصادم نے سوڈان کو مکمل خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ آج الفشر میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ دراصل انہی غلط فیصلوں اور طاقت کے بے لگام استعمال کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ سوڈان کی صورت حال اب انسانی المیے کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر، معیشت تباہ، اسپتال ملبے میں تبدیل، اور عورتیں و بچے عدم تحفظ کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ وہی مغربی دنیا جو یوکرین یا اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بیانات دیتی ہے، سوڈان کے جلتے ہوئے شہروں پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ سوڈان کا المیہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ یہاں بھی عالمی بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ جب کسی ریاست کے اندر طاقت کے دو مراکز قائم ہو جائیں، جب اقتدار ذاتی مفاد کے تابع ہو جائے، جب بین الاقوامی طاقتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی اسیر ہوجائیں تو ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت سوڈان کو فوری طور پر جنگ بندی، غیر جانب دار انسانی رسائی، اور ایک جامع سیاسی عمل کی ضرورت ہے، جس میں فوج، ریپڈ فورس اور سول سوسائٹی سب شامل ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ صرف تماشائی بنے رہنا چاہتی ہے یا واقعی انسانی حقوق کے اصولوں پر قائم ہے۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • سوڈان میں خونیں کھیل
  • امریکہ ،وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر پابندیاں عائد
  • استنبول مذاکرات بارے حقائق کو ترجمان افغان طالبان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا: پاکستان
  • غلط بیانی قابل قبول نہیں، پاکستان نے استنبول مذاکرات سے متعلق افغان طالبان کا بیان مسترد کردیا
  • پاک افغان مذاکرات سے قبل اہم سفارتی سرگرمیاں، نائب وزیراعظم ترکی جائیں گے
  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں