واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک)امریکا میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وینز ویلا کے شہریوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے جنگ کے دوران امریکا کو تحفظ فراہم کرنے والے 227 سال پرانے قانون کو استعمال کرنے سے روک دیا۔

برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ وینزویلا کے جرائم پیشہ گروہ ٹرین ڈی اراگوا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن امریکا کے خلاف غیر قانونی جنگ کر رہے ہیں، انہیں 1798 کے اجنبی دشمن ایکٹ کے تحت ملک بدر کیا جائے گا۔

تاہم امریکی ڈسٹرکٹ جج جیمز بواسبرگ نے ہفتے کی شام ملک بدری روکنے کا حکم جاری کیا ہے جو 14 روز تک جاری رہے گا۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق جج جیمز بواسبرگ نے سماعت کے دوران کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ جلاوطن افراد کو لے جانے والے طیارے اڑان بھر رہے ہیں اور انہیں واپس جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

یہ قانون امریکا کو اجازت دیتا ہے کہ وہ جنگ کے دوران ایسے افراد کو حراست میں لے سکتا ہے، جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں، اسے آخری بار دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی نسل کے لوگوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔

ہفتے کے روز اس اعلان پر کوئی تعجب نہیں پایا گیا، جہاں ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ ٹرین ڈی اراگوا ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سرزمین کے خلاف حملے یا شکاری حملے کا ارتکاب کر رہا تھا، کوشش کر رہا تھا اور دھمکی دے رہا تھا۔

انہوں نے گزشتہ سال کی انتخابی مہم کے دوران بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے متنازع قانون کو استعمال کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

امریکن سول لبرٹیز یونین اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں نے ہفتے کے روز اعلان جاری کرنے سے پہلے ہی انہیں اس کے استعمال سے روکنے کے لیے مقدمہ دائر کر دیا تھا۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق سماعت کے دوران جج نے کہا کہ قانون میں ’حملہ‘ اور ’شکاری دراندازی‘ کی اصطلاحات ’دراصل دشمن ممالک کی کارروائیوں سے متعلق ہیں، اور یہ قانون شاید ٹرمپ کے اعلان کے لیے کوئی اچھی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔

اے سی ایل یو کے ایک وکیل نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ان کے خیال میں اتوار کے روز ہوا میں وینزویلا کے تارکین وطن کے 2 طیارے موجود تھے، بی بی سی نے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی۔

یہ کیس اب قانونی نظام سے گزرے گا اور سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔

اس اعلان اور اس کے گرد ہونے والی لڑائی کو ٹرمپ کے حامیوں کو اکٹھا کرنا چاہیے، جنہوں نے غیر قانونی امیگریشن کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے اور روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں کو کم کرنے کے وعدوں پر انہیں وائٹ ہاؤس واپس بھیج دیا تھا۔

جنوری میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے انہوں نے امریکی امیگریشن نظام کو بہتر بنانے کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور کچھ قانونی ماہرین نے اس مطالبے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے دیگر ممالک کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان جنگ کے بعد ماضی میں بھی غیر ملکی دشمن ایکٹ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے، آئین کے تحت صرف کانگریس ہی جنگ کا اعلان کر سکتی ہے۔

ٹرمپ کے حکم کے تحت امریکا میں موجود وینیز ویلا کے وہ تمام شہری جو کم از کم 14 سال کی عمر کے ہیں (ٹرین ڈی اراگوا کے رکن ہیں اور اصل میں شہریت یافتہ یا قانونی طور پر مستقل رہائشی نہیں ہیں) انہیں غیر ملکی دشمنوں کے طور پر پکڑا، روکا اور نکال دیا جائے گا۔

ٹرمپ نے اعلان میں یہ واضح نہیں کیا کہ امریکی حکام کس طرح اس بات کا تعین کریں گے کہ کوئی شخص پرتشدد، بین الاقوامی گینگ کا رکن ہے؟۔

مزیدپڑھیں:کوئی شک نہیں پاکستان میں دہشتگردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ ہے، رانا ثنااللہ

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے دوران کے خلاف کے لیے کے روز

پڑھیں:

امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کے ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق عدالت نے قرار دیا ہے کہ وفاقی سطح پر ووٹ ڈالنے کے لیے شہریوں سے شہریت کا ثبوت طلب کرنا آئین کے منافی ہے اور صدرِ مملکت کو ایسا حکم دینے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال مارچ میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ شرط عائد کی تھی کہ امریکا میں ووٹ ڈالنے والے ہر شہری کو اپنی شہریت کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ اس اقدام سے غیر قانونی تارکین وطن کی ووٹنگ میں مبینہ مداخلت روکی جا سکے گی، تاہم عدالت نے اس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ امریکی آئین کے تحت ووٹنگ کے اصولوں اور اہلیت کا تعین صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدرِ مملکت کو اس بارے میں کسی نئی پابندی یا شرط لگانے کا اختیار حاصل نہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ووٹ کا حق بنیادی جمہوری اصول ہے، جس پر انتظامی اختیارات کی بنیاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ امریکی صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی قوانین پر جاری بحث کو مزید شدت دے گا۔ ریپبلکن پارٹی کے حلقے اس فیصلے کو  غلط سمت میں قدم قرار دے رہے ہیں، جبکہ ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے حقِ رائے دہی کے تحفظ کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔

مبصرین کے مطابق ٹرمپ کا یہ اقدام انتخابی شفافیت کے نام پر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش تھی جب کہ مخالفین کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مقصد اقلیتوں اور کم آمدنی والے طبقے کے ووٹ کو محدود کرنا تھا، جو زیادہ تر ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ٹرمپ کی قانون شکنی اور لاپرواہی کا مقابلہ کریں، اوباما کا ڈیموکریٹس سے خطاب
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے مالی سال 2026ء کیلئے تارکین وطن کو ویزا دینے کی حد مقرر کر دی
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • ٹرمپ کا انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی کروا کر لاکھوں جانیں بچائیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • امریکا کی امیگریشن پالیسی میں نیا قانون نافذ، ورک پرمٹ کی خودکار توسیع ختم کر دی