بولڈ اداکارہ علیزے شاہ نے معافی مانگنے پر سابقہ اداکارہ زرنش خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

علیزے شاہ اور زرنش خان کے درمیان یہ تنازع نیا نہیں بلکہ تقریباً 2 سال پرانا ہے، سال 2023ء میں سابقہ اداکارہ زرنش خان کا آن لائن چینل کو دئیے گئے انٹرویو کا ایک  ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں میزبان ان سے سوال پوچھتا ہے کہ ’آپ کا علیزے شاہ سے بدتمیزی کرنے کا مقابلہ ہوتو کون جیتے گا‘؟

اس سوال کے جواب میں زرنش خان کہتی ہیں مجھے لگتا ہے علیزے شاہ کا بدتمیزی کرنے کا مقابلہ چاہے کسی کے بھی ساتھ ہو وہی جیتے گی۔ زرنش کے جواب پر میزبان دوبارہ زرنش سے پوچھتے ہیں کہ ’علیزے سب سے جیت جائے گی‘؟ جس پر زرنش کہتی ہیں ہاں۔

زرنش خان کا یہ انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو علیزے شاہ نے کسی کا بھی نام لیے بغیر اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر معروف اسلامی اسکالر مفتی اسماعیل مینک کا ایک اقتباس شیئر کیا کہ ’لوگوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ کو سمجھیں گے۔ وہ آپ کو جج کریں گے اور اس طرح بولیں گے جیسے وہ جانتے ہیں کہ آپ کس چیز سے گزررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ کیونکہ وہ آپ کی جگہ پر نہیں ہیں۔ لہذا جب آپ لوگوں کے اپنے بارے میں تبصرے سنیں تو مایوس نہ ہوں۔ اللہ جانتا ہے۔ مسکرائیں اور آگے بڑھیں‘۔

حال ہی میں زرنش خان نے علیزے شاہ سے معافی مانگی اور انسٹاگرام پر انہیں پرائیوٹ میسج بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ ’مجھے اپنے بیان پر بہت پچھتاوا ہے، مجھے معاف کر دیں، اگر آپ چاہیں تو میں اعلانیہ معافی مانگنے کو تیار ہوں، میں آپ کی والدہ سے بھی معافی مانگنا چاہتی ہوں، کیونکہ انہیں واقعی میری بات سے تکلیف پہنچی ہوگی، میں واقعی معذرت خواہ ہوں، وہ میں نے بنا سوچھے سمجھے بول دیا تھا، آپ مجھے بہت پیاری ہیں اور میں آپ کا بہت احترام کرتی ہوں، ہمیشہ خوش رہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: زرنش خان نے شوبز سے کنارہ کشی کیوں اختیار کی؟

تاہم علیزے شاہ نے زرنش خان کی معافی قبول کرنے سے انکار کردیا اور انہیں کھری کھری سنا دیں اس کے بعد انہوں نے میسجز کا اسکرین شاٹ اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر بھی شیئر کیا۔

علیزے شاہ نے زرنش خان کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ معافی سے اس نقصان کا ازالہ نہیں ہوگا جو آپ نے پہنچایا، میں آپ کو معاف نہیں کروں گی، میں نے آپ کو کیا کہا تھا؟ اپنے بال ٹھیک کریں تاکہ آپ اسکرین پر بہتر نظر آئیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ جب میری والدہ مجھے کھانا کھلاتی تھیں تو آپ کو بھی اپنے ہاتھ سے کھلاتی تھیں، کبھی آپ سے کوئی غلط بات یا بدتمیزی نہیں کی، شو میں آپ کو میرے خلاف بولنے کا معاوضہ نہیں دیا جارہا تھا، لیکن آپ نے پھر بھی ایسا کیا‘، انہوں نے اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’خدا سب دیکھ رہا ہے‘۔

انہوں نے مزید لکھا کہ جس دن زرنش نے یہ بیان دیا تو ان کی والدہ نے روتے ہوئے انہیں کال کی اور ان کے خلاف ایسی باتیں کرنے کی وجہ پوچھی تو زرنش نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں ایک ویڈیو بنا کر حقیقت بیان کریں گی لیکن صرف 30 منٹ بعد ہی زرنش نے ان کی والدہ کو بلاک کردیا۔

زرنش خان کے معافی مانگنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اگر زرنش خان نے معافی مانگ لی تھی تو علیزے شاہ کو انہیں معاف کر دینا چاہیے تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستانی اداکارہ زرنش خان زرنش خان معافی علیزے شاہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستانی اداکارہ زرنش خان معافی علیزے شاہ معافی مانگنے علیزے شاہ نے انہوں نے لکھا کہ

پڑھیں:

دکھ روتے ہیں!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بار، Keanu Reevesنے کہا: ”درد شکل بدل دیتا ہے، لیکن یہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کو دکھ دیتی ہے یا توڑ دیتی ہے، آپ اس پر قابو نہیں پا سکتے، لیکن آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آپ جس چیز سے پیار کرتے ہیں اس کے لیے لڑیں، کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ انسانوں کے مذہب، زبان، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھر کے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیاگیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نا بود کر دیاتھا Auschwitzکے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اس کا خاندان نیست و نابود کر دیاگیا تھا وہ بے گھراور بے وطن تھا ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش ذدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ”آخر کیوں، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے تو اس وقت کہاں تھا جب انہوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیاتھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا اس وقت اس کی عمر 17سال تھی او وہ سترہ بر س کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا اس نے کہاتھا ”تم سب جو گذرے جارہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگر کہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی”۔ محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لعنت ایجاد کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمارے دکھ در د کی شدت موجودہ الفاظوں سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں موجود لفظوں کی چیخوں سے زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ لفظوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 25 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو25 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں آئیں ۔ ذراتاریخ کے اندر سفر کرتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگا ہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مر دہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھو نڈ تی تھیں اور آہ و بکا کررہی تھیں۔ بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفو ظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کا لنگا کے میدان سے آج بھی آہ و بکا کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں ۔آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غرباؤں کی بستیوں میں گھوم کر دیکھ لیں۔ ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ،ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ،ان کے گر ئیے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ان منظروں اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں یہ جو دکھ ہوتے ہیں ۔یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ اس کی جان نہ نکل جائے۔
آئیں ہم اپنے دکھوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہیں (١) پہلا گروپ۔ اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیر دار، سردار، پیر شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں، سرداری، پیری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔ اس لیے انہیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انہیں ذلیل کرتے رہو اورانہیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔ دوسرا گروپ۔جس میں صنعت کار، تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار، بلڈرز اور کاروباری حضرات
شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خو شبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ان کا سب کچھ صرف اور صرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے، احساس، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے۔ان کا مذہب، ایمان، دین سب پیسہ ہے (٣) تیسر ا گروپ۔اس گروپ میں علمائ، مشائخ اور ملاشامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمہ دار یہ ہی ہیں ۔یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائد ہ اٹھا سکتے تھے اٹھارہے ہیں ،ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ (٤) چوتھا گروپ۔ جس میں سیاست دان، بیورو کریٹس، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں ۔ شیطان اگر دنیامیں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کاروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کاایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا تے رہو اور اپنے اقتدار کے سو رج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 25 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کاالمیہ
  • دکھ روتے ہیں!
  • خود کو بدلنا ہوگا
  • شاہ رخ خان نے اپنی 60 ویں سالگرہ پر مداحوں سے معافی کیوں مانگی؟
  • متنازع بیان پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ، اداکار زاہد احمد نے معافی مانگ لی
  • کراچی ، شہریوں کیلئے معافی مانگنے پر پہلاای چالان منسوخ
  • کراچی، معافی مانگنے پر پہلے ای چالان پر چھوٹ، 14 دن میں ادائیگی پر جرمانہ آدھا کرنے کا فیصلہ
  • کراچی : معافی مانگنے پر پہلے ای چالان پر چھوٹ، 14دن میں ادائیگی پر جرمانہ آدھا کرنے کا فیصلہ
  • کراچی میں ٹریکس نظام کا ’آزمائش کے بغیر‘ نفاذ، پہلی غلطی پر معافی کیسے ملے گی؟
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی