’میں آپ کو معاف نہیں کروں گی‘، علیزے شاہ نے زرنش خان کو معافی مانگنے پر کھری کھری سنا دیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
بولڈ اداکارہ علیزے شاہ نے معافی مانگنے پر سابقہ اداکارہ زرنش خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
علیزے شاہ اور زرنش خان کے درمیان یہ تنازع نیا نہیں بلکہ تقریباً 2 سال پرانا ہے، سال 2023ء میں سابقہ اداکارہ زرنش خان کا آن لائن چینل کو دئیے گئے انٹرویو کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں میزبان ان سے سوال پوچھتا ہے کہ ’آپ کا علیزے شاہ سے بدتمیزی کرنے کا مقابلہ ہوتو کون جیتے گا‘؟
اس سوال کے جواب میں زرنش خان کہتی ہیں مجھے لگتا ہے علیزے شاہ کا بدتمیزی کرنے کا مقابلہ چاہے کسی کے بھی ساتھ ہو وہی جیتے گی۔ زرنش کے جواب پر میزبان دوبارہ زرنش سے پوچھتے ہیں کہ ’علیزے سب سے جیت جائے گی‘؟ جس پر زرنش کہتی ہیں ہاں۔
زرنش خان کا یہ انٹرویو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو علیزے شاہ نے کسی کا بھی نام لیے بغیر اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر معروف اسلامی اسکالر مفتی اسماعیل مینک کا ایک اقتباس شیئر کیا کہ ’لوگوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ آپ کو سمجھیں گے۔ وہ آپ کو جج کریں گے اور اس طرح بولیں گے جیسے وہ جانتے ہیں کہ آپ کس چیز سے گزررہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آپ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ کیونکہ وہ آپ کی جگہ پر نہیں ہیں۔ لہذا جب آپ لوگوں کے اپنے بارے میں تبصرے سنیں تو مایوس نہ ہوں۔ اللہ جانتا ہے۔ مسکرائیں اور آگے بڑھیں‘۔
حال ہی میں زرنش خان نے علیزے شاہ سے معافی مانگی اور انسٹاگرام پر انہیں پرائیوٹ میسج بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ ’مجھے اپنے بیان پر بہت پچھتاوا ہے، مجھے معاف کر دیں، اگر آپ چاہیں تو میں اعلانیہ معافی مانگنے کو تیار ہوں، میں آپ کی والدہ سے بھی معافی مانگنا چاہتی ہوں، کیونکہ انہیں واقعی میری بات سے تکلیف پہنچی ہوگی، میں واقعی معذرت خواہ ہوں، وہ میں نے بنا سوچھے سمجھے بول دیا تھا، آپ مجھے بہت پیاری ہیں اور میں آپ کا بہت احترام کرتی ہوں، ہمیشہ خوش رہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: زرنش خان نے شوبز سے کنارہ کشی کیوں اختیار کی؟
تاہم علیزے شاہ نے زرنش خان کی معافی قبول کرنے سے انکار کردیا اور انہیں کھری کھری سنا دیں اس کے بعد انہوں نے میسجز کا اسکرین شاٹ اپنی انسٹاگرام اسٹوری پر بھی شیئر کیا۔
علیزے شاہ نے زرنش خان کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ معافی سے اس نقصان کا ازالہ نہیں ہوگا جو آپ نے پہنچایا، میں آپ کو معاف نہیں کروں گی، میں نے آپ کو کیا کہا تھا؟ اپنے بال ٹھیک کریں تاکہ آپ اسکرین پر بہتر نظر آئیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ جب میری والدہ مجھے کھانا کھلاتی تھیں تو آپ کو بھی اپنے ہاتھ سے کھلاتی تھیں، کبھی آپ سے کوئی غلط بات یا بدتمیزی نہیں کی، شو میں آپ کو میرے خلاف بولنے کا معاوضہ نہیں دیا جارہا تھا، لیکن آپ نے پھر بھی ایسا کیا‘، انہوں نے اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’خدا سب دیکھ رہا ہے‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ جس دن زرنش نے یہ بیان دیا تو ان کی والدہ نے روتے ہوئے انہیں کال کی اور ان کے خلاف ایسی باتیں کرنے کی وجہ پوچھی تو زرنش نے جواب دیا کہ میں اس بارے میں ایک ویڈیو بنا کر حقیقت بیان کریں گی لیکن صرف 30 منٹ بعد ہی زرنش نے ان کی والدہ کو بلاک کردیا۔
زرنش خان کے معافی مانگنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اگر زرنش خان نے معافی مانگ لی تھی تو علیزے شاہ کو انہیں معاف کر دینا چاہیے تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی اداکارہ زرنش خان زرنش خان معافی علیزے شاہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستانی اداکارہ زرنش خان معافی علیزے شاہ معافی مانگنے علیزے شاہ نے انہوں نے لکھا کہ
پڑھیں:
انکار کیوں کیا؟
ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔
’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔
’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔
’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔
’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔
’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔
انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔
اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔
جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔
یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ، اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔
ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔
وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔
پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔
دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
یہ وہی ہیں جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔
جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔
دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟
یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔ خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔
کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔
کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔ وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔
انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔ جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی پر، اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔
یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔
انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔
کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟ کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں