Daily Ausaf:
2025-11-03@18:58:43 GMT

سانحہ بولان: انسانیت پر وحشیانہ حملہ اور بے حسی کی انتہا

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

پاکستان کی سرزمین ایک بار پھر خون میں نہا گئی، معصوم مسافروں کی چیخیں خاموشی میں دفن ہو گئیں، اور دہشت گردی کا ایک اور بدنما داغ ہماری تاریخ کا حصہ بن گیا۔ سانحہ بولان ایک ایسا المیہ ہے جس نے دلوں کو چھلنی کر دیا، آنکھوں میں آنسو بھر دیئے اور قومی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ صرف چند جانوں کے ضیاع کا نہیں، بلکہ ایک اجتماعی دکھ اور افسوس کا عنوان ہے، جو بار بار ہمیں یہ سوال کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر ہمارے پیارے وطن کو کس کی نظر لگ گئی ہے؟
وہ بدقسمت ٹرین، جو سینکڑوں مسافروں کو لے کر کوئٹہ سے روانہ ہوئی تھی، ہر کسی کے دل میں خوشی اور امید کے دیے روشن تھے۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے، سرکاری ملازمین، سویلین سبھی اپنے پیاروں سے ملنے جا رہے تھے، اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے سفر پر تھے۔ مگر انہیں کیا معلوم تھا کہ بولان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ایک قیامت ان کی راہ دیکھ رہی تھی؟ جیسے ہی ٹرین پہاڑی علاقے میں داخل ہوئی، سفاک درندوں نے اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ گھات لگا کر بیٹھے حملہ آوروں نے ٹرین کی پٹری پہلے ہی اکھاڑ دی تھی تاکہ وہ آسانی سے اسے نشانہ بنا سکیں۔ جیسے ہی ٹرین کی رفتار کم ہوئی، چاروں طرف سے خوفناک فائرنگ شروع ہو گئی۔ بندوقوں کی گرج، راکٹ لانچروں کی دہاڑ، اور معصوم مسافروں کی چیخیں اس ویران علاقے میں گونجنے لگیں۔
بے بس مسافر بوگیوں میں قید، موت کے سامنے بے یار و مددگار کھڑے تھے۔ کوئی بچنے کی کوشش کرتا تو گولیوں کی بوچھاڑ اس کی سانسیں چھین لیتی، کوئی چیخ کر رحم کی بھیک مانگتا تو دہشت گردوں کی سنگدل ہنسی اس کی فریاد کا مذاق اڑا دیتی۔ چند لمحوں میں ہی ٹرین کی دیواریں گولیوں سے چھلنی ہو چکی تھیں، زمین خون سے رنگین ہوگئی تھی، اور فضا میں وحشت اور بربریت کی بو رچ بس گئی تھی۔ یہ سب کچھ ویران علاقے میں ہو رہا تھا، جہاں نہ کوئی مددگار تھا، نہ کوئی سننے والا۔ وہ لوگ جو چند لمحے پہلے ہنسی خوشی اپنے خوابوں کی سرزمین کی جانب بڑھ رہے تھے، وہ لاشوں میں تبدیل ہو رہے تھے۔ ان کے اہلِ خانہ، جو گھروں میں ان کے منتظر تھے، نہیں جانتے تھے کہ ان کے پیارے کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
اگرچہ سانحہ بولان نے انسانیت کو شرمسار کر دیا، مگر جو کچھ اس کے بعد ہوا، وہ شاید اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ تھا۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی، ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن بدقسمتی سے، سوشل میڈیا پر ایک اور جنگ چِھڑ گئیایک ایسی جنگ جس میں دہشت گردوں کے خلاف بولنے کے بجائے ریاست کے خلاف زہر اگلا جانے لگا۔ یوٹیوب پر بیٹھے نام نہاد تجزیہ کاروں نے حادثے کی جھوٹی تفصیلات گھڑنا شروع کر دیں۔ وہ جو ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں، انہوں نے ایسے بولنا شروع کر دیا جیسے وہ جائے وقوعہ پر موجود ہوں۔ ان کی زبانوں پر ریاست کے خلاف نفرت تھی، وہ دہشت گردوں کے جرائم کو کم کرنے کے لیے تاویلیں دے رہے تھے، اور پاکستان کے اداروں کو کمزور اور ناکام ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ حکومت پر تنقید کیوں ہو رہی تھی، بلکہ سوال یہ تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف بولنے کے بجائے لوگ اپنے ہی ملک کو موردِ الزام کیوں ٹھہرا رہے تھے؟ دہشت گردوں کے لئے جواز اور ہمدردی کیوں دکھائی جا رہی تھی ، دشمن کو اتنی رعایت اور مارج کیوں ؟ سیاست میں اختلاف اپنی جگہ، مگر جب معاملہ ریاست کی بقا ء کا ہو اس پہ کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ دہشت گردوں کی مذمت کیے بغیر، ان کے ظلم پر افسوس کا اظہار کیے بغیر، حکومت اور فوج پر حملہ آور تھے۔ کیا یہ ان دہشت گردوں کی خاموش حمایت نہیں تھی؟ سوشل میڈیا پر چند سیاستدانوں اور نام نہاد صحافیوں نے اس سانحے کو اپنے ذاتی بغض اور سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کا مقصد عوام کے دکھ میں شریک ہونا نہیں، بلکہ اپنی نفرت کو ہوا دینا تھا۔ دشمن ممالک کے میڈیا نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ بھارت کے چینلز نے اس سانحے کو ایسے پیش کیا جیسے پاکستان خود اپنی تباہی کا ذمہ دار ہو۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ ان کے بیانیے کو ہمارے ہی لوگ مزید پھیلا رہے تھے، صرف اس لیے کہ وہ حکومت اور فوج سے ناراض تھے۔
یہ سانحہ ہمیں صرف دہشت گردوں کی وحشت کے بارے میں نہیں بتاتا، بلکہ یہ ہماری اپنی اجتماعی ناکامی کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم بطور قوم اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ ہم ایک قومی سانحے پر بھی ایک موقف اختیار نہیں کر سکتے۔ یہاں دو طرح کے لوگ دکھائی دییایک وہ جو افسوس اور غم کے ساتھ دہشت گردوں کی مذمت کر رہے تھے، ریاست سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان درندوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور دوسرے وہ جو دہشت گردوں پر خاموش رہ کر ریاست اور فوج کے خلاف زہر اگل رہے تھے، گویا وہ بھی اس جرم میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہوں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں۔ سیاست ایک اختیاری چیز ہے، مگر ریاست سے وفاداری لازم ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں دہشت گردوں کی حمایت برداشت نہیں کی جاتی، پھر ہمارے ہاں کیوں ایسے عناصر کھلے عام اپنا زہر پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ اشفاق احمد نے ایک بار کہا تھا کہ ’’سب رشتے چائے کی پتی کی طرح ہوتے ہیں، جب تک گرم پانی میں نہ پڑیں، اپنا رنگ نہیں دکھاتے۔‘‘ سانحہ بولان کے بعد کچھ لوگوں کا اصل رنگ سب کے سامنے آ گیا۔ وہ جو بظاہر محب وطن بنے پھرتے تھے، ان کے الفاظ نے ثابت کر دیا کہ وہ اصل میں کس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ریاست یا فوج کی نہیں، بلکہ ہم سب کی جنگ ہے۔ ہمیں اپنی صفوں میں موجود ان منافقوں کو پہچاننا ہوگا جو قومی سانحات کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ اگر ہم نے ان عناصر کو لگام نہ دی تو ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنی جڑیں کاٹنے کے مجرم ہوں گے۔
سانحہ بولان نے ہمیں ایک بار پھر دکھایا کہ دشمن ہم پر حملہ کرنے سے نہیں جھجکتا، مگر اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگ دشمن کے پروپیگنڈے کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا، ہمیں سیاست سے بالاتر ہو کر اپنی ریاست کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ جو لوگ دہشت گردوں کی مذمت کے بجائے اپنے ہی اداروں پر تنقید کر رہے ہیں، انہیں سمجھنا ہوگا کہ سیاست وقتی چیز ہے، مگر ملک ہمیشہ کے لیے ہوتا ہے۔ ہمیں دشمن کے بیانیے کو شکست دینی ہوگی، ہمیں اپنی ریاست کے ساتھ وفادار رہنا ہوگا، اور ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ پاکستان کے دشمنوں کو یہاں کوئی جگہ نہیں ملے گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے دہشت گردوں کی سانحہ بولان ریاست کے رہے تھے اپنے ہی کے خلاف کر دیا کر رہے کے لیے

پڑھیں:

افغان دراندازی ناکام، 3 فتنہ الخوارج دہشگرد ہلاک،ترجمان پاک فوج

سیکیورٹی فورسز نے 2 علیحدہ علیحدہ کارروائیوں میں تین خوارج کو ہلاک کیا، ٹانک میں بھی افغان خوارج ہلاک ہوا

سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں افغان سرحد سے دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے بھارتی حمایت یافتہ گروہ فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، ہلاک ہونے والوں میں افغان سرحدی فورس کا اہلکار بھی شامل ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز نے 2 نومبر 2025 کو دو علیحدہ علیحدہ کارروائیاں کرتے ہوئے مؤثر اور کامیاب آپریشن کیے۔

سیکیورٹی فورسز نے کارروائیوں میں بھارتی پراکسی تنظیم فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے تین دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ پہلی کارروائی میں شمالی وزیرستان کے علاقے عیشام کے بالمقابل پاک افغان سرحد کے قریب ایک گروہ کی مشکوک نقل و حرکت دیکھی جو سرحد عبور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، مؤثر اور درست نشانے پر مبنی فائرنگ کے نتیجے میں دو دہشت گرد ہلاک ہوئے، جن کا تعلق بھارتی پراکسی گروہ فتنہ الخوارج سے تھا۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق مارے جانے والے ایک دہشت گرد کی شناخت “خارجی قاسم” کے نام سے ہوئی جو افغان نژاد اور افغان بارڈر پولیس کا اہلکار تھا۔

ایک اور انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن کے دوران ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسز نے فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والے ایک اور دہشت گرد خارجی اکرام الدین عرف ابو دجانہ کو ہلاک کیا، جو افغان شہری تھا۔

آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یہ واقعات پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی مسلسل شمولیت کو ظاہر کرتے ہیں، پاکستان کئی بار عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ سرحدی نظم و نسق کو مؤثر بنائے اور اپنی سرزمین کو خوارج یا دہشت گرد عناصر کے استعمال سے روکے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں آپریشن کلین اپ کا آغاز کر دیا ہے تاکہ کسی بھی بھارتی سرپرستی یافتہ خوارج کو تلاش کر کے ختم کیا جا سکے۔

سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے “عزمِ استحکام” کے ویژن کے تحت دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک اپنی انسدادِ دہشت گردی کی مہم پوری قوت سے جاری رکھیں گے اور ملک کے دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے پرعزم ہیں۔

صدر مملکت اور وزیراعظم کا سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین

صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی دراندازی ناکام بنانے پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی پشت پناہی یافتہ فتنہ الخوارج کو شکست دینا پاکستان کے امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔

آصف زرداری نے کہا کہ دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے پر قوم کو اپنی افواج پر فخر ہے۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک “عزمِ استحکام” کے تحت کارروائیاں جاری رہیں گی۔

انہوں نے کہا ہک پاکستان اپنے دفاع، خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، دعا ہے کہ الّلہ وطنِ عزیز کو دہشت گردی اور ہر فتنے سے محفوظ رکھے۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان اور ضلع ٹانک میں فتنتہ الخوارج کے دہشت گردوں کے خلاف الگ الگ کامیاب کاروائیوں پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین کی۔

وزیراعظم نے آپریشنز میں فتنتہ الخوارج کے 3 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے پر سیکیورٹی فورسز کی پزیرائی، دہشت گردی کے خلاف عزم استحکام میں پوری قوم سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پر عزم ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغان دراندازی ناکام، 3 فتنہ الخوارج دہشگرد ہلاک،ترجمان پاک فوج
  • طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا،  ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • خیبر، دہشت گردوں نے مغوی پولیس اہلکار رہا کردیا
  • پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، 18 دہشت گرد گرفتار
  • افغان وفدنے دہشت گردوںکی حوالگی کی پیشکش نہیں کی‘پاکستان
  • سی ٹی ڈی نے دو دہشتگرد گرفتار کرلیے
  • پنجاب کے مختلف شہروں سے 18 دہشت گرد گرفتار، بارودی مواد برآمد
  • دہشت گردوں کی سرپرستی کاخاتمہ ناگزیر