پاکستان اور بنگلہ دیش تعلقات پر بھارت کی تلملاہٹ
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت کے خاتمے کے بعد سے مودی سرکار تلملاہٹ کا شکار ہے۔ حسینہ واجد کے بھارت فرار کے مناظر دیکھ کر یہ مصرعہ یاد آگیا ’’بڑے بے ابرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘۔ اپنے 15 سالہ جابرانہ اقتدار کے دوران حسینہ واجد نے اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص پاکستان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے طبقات کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا۔ حسینہ واجد کے آمرانہ طرزحکومت کے خلاف برسوں سے جو لاوا پک رہا تھا وہ بالآخر طالب علموں کے احتجاج کی شکل میں پھٹ پڑا۔ یہ تحریک اتنی بھرپور تھی کہ عوامی طاقت کے آگے حسینہ واجد کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ سب کچھ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد استعفا دے کر حسینہ واجد اپنے حامی اور سرپرست مودی کی پناہ میں چلی گئیں۔حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ ہمیشہ سے بھارت کے لئے قیمتی اثاثہ رہی ہے۔
اسی عوامی لیگ کو استعمال کر کے سن 71 میں سقوط ڈھاکہ کی صورت پاکستان کو دو لخت کیا گیا تھا۔ مقام افسوس ہے کہ حسینہ واجد نے اپنے والد شیخ مجیب اور دیگر اہل خانہ کے عبرت ناک انجام سے کوئی سبق نہ سیکھا۔اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بھی اپنے والد کی طرح بھارت نواز پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا۔ آج بنگلہ دیش میں صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے ۔ عوامی لیگ کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت ماضی کی بھارت نواز پالیسیوں کو تبدیل کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش استحکام کی راہ پہ گامزن ہے۔ بھارت کی سازشی حکومت اور خفیہ ایجنسیوں نے پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بو ئے تھے ۔ڈاکٹر محمد یونس کی حکومت نہایت حکمت اور تدبر سے ان خاردار درختوں کو جڑ سے اکھاڑ رہی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان حکومتی سطح پہ وفود کے تبادلے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے براہ راست تجارت کو بحال کیا ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کے دوران پیشہ ورانہ امور میں برادرانہ تعاون کا آغاز ہو چکا ہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے دو طرفہ تعلقات میں پیدا ہونے والی یہ مثبت تبدیلی مودی کی زیر قیادت خطے میں عدم استحکام پھیلانے والی بی جے پی کی حکومت سے برداشت نہیں ہو پا رہی۔ جب سے حسینہ واجد کا تختہ الٹا ہے، بھارت تریاہٹ کا شکار ہے۔ اس نے بنگلہ دیش پر ہندو مخالف پرتشدد واقعات کا الزام عائد کیا ہے۔ حسینہ واجد کے لیے بھارت کی ریاستی حمایت اور جارحانہ اقدامات کے رد عمل میں بنگلہ دیش میں بھی ’’انڈیا آئوٹ‘‘ کے عنوان سے ایک مہم چل پڑی ہے۔ مودی سرکار کی تازہ واردات جھوٹے پروپیگنڈے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ بی جے پی اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے اشارے پر جعلی خبریں پھیلانے والے ایک میگزین نے حسب عادت جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے ۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کے لیے یہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد سے بنگلہ دیش فوج میں بغاوت کی سازش کی گئی۔ اس خبر میں مزید مرچ مصالحہ لگانے کے لیے یہ جھوٹ بھی شامل کر دیا کہ آئی ایس آئی کی یہ سازش بنگلہ دیش کی فوج نے ناکام بنا دی۔ چونکہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اس لیے بھارت کے جھوٹ کا بھانڈا سب سے پہلے بنگلہ دیش کی فوج کی جانب سے دی جانے والی وضاحت سے ہی پھوٹ گیا۔ بنگلہ دیش کی فوج نے نہایت واضح الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے کہ پاکستان یا اس کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے بنگلہ دیشی عسکری قیادت کے خلاف کوئی سازش نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے بھارت اکثر و بیشتر سازشیں گھڑتا رہتا ہے۔
ماضی میں سری لنکا ،نیپال اور مالدیپ میں بھارت نے متعدد ایسے غیر قانونی اقدامات کئے جو ان پڑوسی ممالک کی ریاستی خود مختاری کی نفی کرتے تھے۔ پاکستان کے ساتھ بھارت کی ازلی دشمنی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں افغانستان میں موجود پراکسیز کی مدد سے ہندوستان سرحد پار دہشت گردی کے ہتھیار سے اگ اور خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے دو طرفہ تعلقات پر بھارت کی تلملاہٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی سرکار کو خطے میں امن مطلوب نہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے حسینہ واجد بھارت کی کے لیے کے بعد
پڑھیں:
’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلان کیا کہ نادار افراد کو عدلیہ کے تمام درجوں پر ریاستی خرچ پر قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس کے تحت ریاست غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی، جو 50 ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔
کیا یہ نیا اقدام ہے؟نظام عدل سے وابستہ ماہرین کے مطابق یہ کوئی نیا اقدام نہیں کیونکہ پاکستان میں فری لیگل ایڈ کا نظام پہلے سے موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ طویل عرصے سے اعلانات کے ذریعے توجہ تو حاصل کرتی آئی ہے لیکن عملی اقدامات کی کمی کی وجہ سے عام شہریوں، خواہ وہ صاحبِ حیثیت ہوں یا نادار، کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ریٹائرڈ جسٹس شاہد جمیل کا کہنا ہے، ''افتخار چوہدری کے دور سے عدالتیں خبروں میں آنے کے فن میں ماہر ہو چکی ہیں لیکن عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
(جاری ہے)
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ فری لیگل ایڈ سیلز ہر جگہ موجود ہیں اور ٹرائل کورٹس کے ججوں کو اختیار ہے کہ وہ نادار افراد کے لیے وکیل مقرر کریں، جو وہ کرتے بھی ہیں، ''میں ہائی کورٹ بار کا ممبر رہا ہوں اور وہاں بھی غریب افراد کے لیے امدادی فنڈ موجود ہے۔‘‘
ماہرین کا خیال ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے فیصلوں اور اعلانات پر مؤثر عمل درآمد ضروری ہے، جو پاکستان میں طویل عرصے سے مفقود ہے۔
یہ عنصر کسی بھی فیصلے کو اخبارات کی سرخیوں تک تو لے جاتا ہے لیکن عام عوام کے لیے عملی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ قابلِ ذکر ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے حلف اٹھانے کے بعد تمام کمرہ عدالتوں کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ بھی تاحال مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔سپریم کورٹ میں چون ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا: وجوہات کیا ہیں؟
شاہد جمیل کے مطابق، ''دلکش اعلانات سرخیاں تو بنوا سکتے ہیں لیکن ایک باقاعدہ نظام کے قیام کے بغیر عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اس کے لیے پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہے کیونکہ عدالتیں ایک حد سے آگے قانون سازی یا فنڈز مختص نہیں کر سکتیں۔‘‘ امید کی کرن یا قبل از وقت تنقید؟تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عمل درآمد پر تنقید قبل از وقت ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی کہتے ہیں، ''اگرچہ غریب افراد کے لیے قانونی معاونت کا نظام پہلے سے موجود ہے لیکن چیف جسٹس کی جانب سے اس عزم کو دہرانا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش ایک خوش آئند قدم ہے۔
‘‘ بے بنیاد مقدمات کے خاتمے کا چیلنجپاکستان میں یہ عمومی تاثر ہے کہ عدالتوں میں بڑی تعداد میں غیر سنجیدہ اور بے بنیاد مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ اگر کسی غریب فرد کے خلاف ایسا مقدمہ دائر ہو، تو ریاست کو اس کے لیے وکیل کی فیس ادا کرنا ہو گی۔ وکلاء برادری کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ ریاست کو غریب افراد کی قانونی مدد جاری رکھنی چاہیے اور چیف جسٹس کا یہ اقدام درست سمت میں ہے۔
تاہم بے بنیاد مقدمات کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت کو خود کوئی مؤثر کردار ادا کرنا ہو گا۔معروف قانون دان فاروق ایچ نائیک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو یہ ایک بڑی خدمت ہو گی۔ بے بنیاد مقدمات کے مالی بوجھ سے نمٹنے کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ ایک ایسا قانون بنائے، جس کے تحت مقدمہ دائر کرنے والے کو مدعا علیہ کے عدالتی اخراجات کا کچھ حصہ پیشگی جمع کرانا لازم ہو۔
اگر مقدمہ سچا ثابت ہو تو جمع شدہ رقم واپس کر دی جائے اور ہارنے والے کو اخراجات ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ وکیل کی عدم دستیابی ہی واحد رکاوٹ نہیںقانونی ماہرین مجموعی طور پر چیف جسٹس کے اقدام سے اختلاف نہیں کرتے لیکن ان کا خیال ہے کہ وکیل کی عدم دستیابی ہی انصاف کی راہ میں واحد رکاوٹ نہیں۔ سن 2024 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال کے ذمہ دار صرف جج نہیں بلکہ وکلاء کا کردار بھی اہم ہے۔ وہ مختلف حربوں سے مقدمات کو طول دیتے ہیں، خصوصاً وہ وکلاء، جو ''جعلی مقدمات‘‘ لڑتے ہیں اور فیصلے سے زیادہ مدعی کو تھکا کر اس کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔
جسٹس (ر) شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی اصل توجہ نچلی عدالتوں پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا، ''سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایسے وکلاء کو پابند کرے، جو پیشی پر حاضر نہیں ہوتے کہ وہ دوسرے فریق کے اخراجات ادا کریں، کیونکہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں وکیل بغیر بھاری مالی جرمانے کے عدالت سے غیر حاضر نہیں ہو سکتا۔‘‘ان کے بقول یہ اقدام فوری انصاف کی فراہمی کے لیے سب سے ضروری ہے۔
ادارت: امتیاز احمد