مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی تشدد اور آبادکاری میں اضافہ، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 مارچ 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ اسرائیل نے گزشتہ سال مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں متواتر آبادکاری کی اور اس دوران فلسطینیوں کے گھروں کو غیرقانونی طور پر مسمار کیا گیا جبکہ ان کے خلاف تشدد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔
ادارے کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں اختیارات کی اپنی حکومت کو منتقلی سے غیرقانونی آباد کاری اور مغربی کنارے کے اسرائیل کے ساتھ متواتر انضمام میں سہولت مل رہی ہے۔
Tweet URLاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے آباد کاری کی پالیسی، فلسطینی علاقوں کا اپنے ساتھ الحاق اور اس مقصد کے لیے امتیازی قانون سازی اور دیگر اقدمات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
(جاری ہے)
عالمی عدالت انصاف بھی ایسے اقدامات کو غیرقانونی اور فلسطینیوں کے حق خود رادیت کے منافی قرار دے چکی ہے۔انہوں نے اسرائیلی حکومت سے کہا ہے کہ وہ آبادکاری کی تمام سرگرمیاں فوری اور مکمل طور پر روک دے اور فلسطینی علاقوں سے تمام آبادکاروں کو باہر نکالے۔ فلسطینی آبادی کی جبراً منتقلی کو روکا جائے اور ان پر حملے کرنے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور آبادکاروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
جبر، تشدد، اخراج اور تسلط'او ایچ سی ایچ آر' کی یہ رپورٹ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یکم نومبر 2023 سے 31 اکتوبر 2024 تک پیش آنے والے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حکومت نے صرف مشرقی یروشلم میں ہی 20 ہزار سے زیادہ گھروں کی تعمیر کے منصوبے شروع کیے ہیں۔ اسرائیل کی غیرسرکاری تنظیموں نے بتایا ہے کہ علاقے میں فلسطینیوں کی 214 املاک منہدم کی جا چکی ہیں۔
مغربی کنارے میں اسرائیل کے زیرقبضہ علاقے میں 10,300 سے زیادہ گھر تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے اور علاقے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی 49 نئی چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔آباد کاروں اور اسرائیل کی فوج نے مقبوضہ علاقے میں غیرقانونی طور پر درجنوں سڑکیں تعمیر کی ہیں جن سے انہیں آپس میں جوڑنے، فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو روکنے اور مزید علاقوں پر قبضہ کرنے میں مدد ملے گی۔
آباد کاروں کی بستیوں میں اسرائیلی حکومت کی جانب سے خدمات کی فراہمی میں اضافے کے منصوبے فلسطینیوں کے خلاف امتیازی سلوک، اخراج، جبر، تسلط، تشدد اور دیگر غیر انسانی اقدامات کے دیرینہ نمونوں کو مزید منظم صورت دیتے ہیں۔
آباد کاروں کی 'عسکریت'رپورٹ کے مطابق، اس عرصہ میں مغربی کنارے کے مختلف علاقوں اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور آباد کاروں نے مجموعی طور پر 612 فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔
اس دوران فلسطینیوں کے حملوں یا ان کے ساتھ جھڑپوں میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے 24 اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔ اس سے پورے مغربی کنارے میں انتقام اور تشدد کے ماحول کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آباد کاروں اور ریاست کی جانب سے کیے جانے والے تشدد میں فرق ختم ہو گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے آبادکاروں کی تحریک کو عسکری صورت دینے کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں ہزاروں آباد کاروں کی مغربی کنارے میں تعینات اسرائیلی سکیورٹی فورسز میں شمولیت بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ آبادکاروں کی جانب سے ہر ماہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے 118 واقعات پیش آ رہے ہیں۔مغربی کنارے میں 'تعمیر کے اجازت ناموں کی عدم موجودگی' کو بنیاد بناتے ہوئے فلسطینیوں کی 1,779 عمارتیں منہدم کی گئیں جبکہ فلسطینیوں کے لیے یہ اجازت نامے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس انہدام کے نتیجے میں 4,527 افراد بے گھر ہوئے۔ یکم نومبر 2023 سے 31 اکتوبر 2024 تک ایسے فلسطینیوں کی تعداد میں تقریباً 200 فیصد تک اضافہ ہوا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی علاقوں فلسطینیوں کی میں اسرائیلی فلسطینیوں کے میں اسرائیل اسرائیل کی آباد کاروں کی جانب سے علاقے میں کاروں کی کے خلاف گیا ہے
پڑھیں:
غزہ کی آڑ میں مغربی کنارہ نگلنے کی اسرائیلی پیش قدمی
اسلام ٹائمز: اگر آج غزہ جل رہا ہے، تو ریاض، ابوظہبی، قاہرہ، عمان اور رباط قطر کیریو دمشق میں قہقہے کیوں گونج رہے ہیں؟ غزہ کے بچے روٹی مانگتے ہیں، دوائی مانگتے ہیں، پناہ مانگتے ہیں، اور عرب بادشاہ اسرائیل سے دفاعی ڈرون اور نائٹ ویژن کیمرے خرید رہے ہیں اور اس ظالمانہ منظرنامے میں اگر کوئی ایک ملک ہے جو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی، زبان، ہتھیار اور نظریہ واضح رکھے ہوئے ہے تو وہ ایران ہے۔ ایران کی قیادت وہ واحد آواز ہے جو بغیر کسی خوف کے کھلے عام کہتی ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اور فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی
غزہ پر جاری ظلم و بربریت نے عالمی ضمیر کو اس قدر مفلوج کر دیا ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے کو بھی خاموشی سے نگلنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ غزہ کا سانحہ جہاں پوری انسانی آبادی کو خوراک، پانی اور دوا سے محروم نسل کشی کی نہج پر لے آیا، وہیں مغربی کنارہ اسرائیلی نقشے میں تقریباً مکمل طور پر ضم ہو چکا ہے۔ اب صرف باضابطہ اعلان کی دیر ہے۔ اس مظلوم قوم کی آہوں، لاشوں، زخمی بچوں، ماؤں کی سسکیوں، اور بے گھر خاندانوں کے سامنے پوری انسانیت کا سر شرم سے جھک جانا چاہیئے تھا، مگر اسرائیل نے اس انسانی المیے کو ایک موقع میں بدل دیا۔ اُس نے غزہ کی تباہی کو پردہ بنا کر مغربی کنارے پر قبضے کا حتمی منصوبہ بھی آگے بڑھا دیا، اور دنیا نے ایک بار پھر صرف خاموشی کی زبان بولی۔
اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے ایک علامتی قرارداد کے ذریعے مغربی کنارے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اکہتر کے مقابلے میں تیرہ ووٹوں سے منظور شدہ اس قرارداد کے پیچھے وہی پرانی صیہونی ذہنیت، ریاستی طاقت، مذہبی شدت پسندی اور نیتن یاہو کا فسطائی ایجنڈا کارفرما ہے، وہی ایجنڈا جو اسرائیل کو نیل سے فرات تک پھیلانے کا خواب دیکھتا ہے۔ اس قرارداد میں فلسطینیوں کو کسی ریاست، شناخت یا حقِ خود ارادیت کی کوئی گنجائش نہیں دی گئی۔ بلکہ یہ ایک اعلان ہے کہ اب فلسطینیوں کی زمین، تاریخ، تشخص، اور وجود، سب کچھ باقاعدہ طور پر صیہونی ریاست کے پیروں تلے روند دیا جائے گا۔
مگر اصل المیہ صرف اسرائیلی جارحیت نہیں، اصل المیہ وہ زخم ہے جو امت مسلمہ کے خنجر سے فلسطین کے جسم پر لگ رہا ہے۔ عرب حکمران، جن کے پاس تیل کی دولت ہے، افواج ہیں، اور دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں سفارت خانے ہیں۔ وہ سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کچھ تو اس خاموشی سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ معاہدے، تجارتی روابط، دفاعی تعاون، اور مشترکہ منصوبوں پر دستخط کر کے گویا فلسطینیوں کے قتل پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ کیا یہی وہ امت ہے جسے رسولِ اکرم (ص) نے ایک جسم قرار دیا تھا؟ کیا ایک حصے کے زخم پر دوسرا حصہ بے حس ہو سکتا ہے؟
اگر آج غزہ جل رہا ہے، تو ریاض، ابوظہبی، قاہرہ، عمان اور رباط قطر کیریو دمشق میں قہقہے کیوں گونج رہے ہیں؟ غزہ کے بچے روٹی مانگتے ہیں، دوائی مانگتے ہیں، پناہ مانگتے ہیں، اور عرب بادشاہ اسرائیل سے دفاعی ڈرون اور نائٹ ویژن کیمرے خرید رہے ہیں اور اس ظالمانہ منظرنامے میں اگر کوئی ایک ملک ہے جو اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف اپنی پالیسی، زبان، ہتھیار اور نظریہ واضح رکھے ہوئے ہے تو وہ ایران ہے۔ ایران کی قیادت وہ واحد آواز ہے جو بغیر کسی خوف کے کھلے عام کہتی ہے کہ ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے، اور فلسطین فلسطینیوں کا ہے۔‘‘
ایران نے صرف بیانات ہی نہیں دیے، بلکہ مسلسل عسکری، مالی، اور نظریاتی مدد فراہم کی ہے۔ چاہے وہ حماس ہو، انصاراللہ ہو اسلامی جہاد، یا حزب اللہ۔ ایران نے اسرائیلی بمباری کے جواب میں کبھی ’’تشویش‘‘ پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مزاحمتی اتحاد کی عملی حکمت عملی تشکیل دی۔ ایران پر عالمی پابندیاں لگیں، اقتصادی جنگ مسلط ہوئی، سفارتی تنہائی پیدا کی گئی، مگر اس کے مؤقف میں ذرہ برابر بھی لرزش نہ آئی۔ ایران کی اسی مزاحمت نے مغرب کے خیمے میں تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ اسرائیل کی ہر سازش کے پیچھے یہ خطرہ موجود ہے کہ کہیں ایران سے نیا جواب نہ آ جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی حالیہ قرارداد میں "ایرانی شیطانی تکون" کو مرکزی خطرہ قرار دیا گیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر عرب حکمران صرف "تشویش" کے سفیر ہیں، تو ایران اس وقت واحد ریاست ہے جو میدانِ عمل میں اسرائیل کے سامراجی منصوبے کے خلاف کھڑی ہے۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ جن کے سینوں میں رسول (ص) کا عشق ہے، وہ آج اسرائیل کے ساتھ افطار کی میز پر بیٹھتے ہیں، اور جن پر صدیوں سے کفر کا فتویٰ چسپاں ہے، وہ قبلۂ اول کی حرمت کے لیے فرنٹ لائن پر ہیں؟ تاریخ نے اُمت کو ایک آئینہ دکھا دیا ہے — اب یہ ہمارے ضمیر کا امتحان ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہوتے ہیں۔
کیا کوئی ایک عرب ملک ایسا ہے جو اسرائیل کو سفارتی، تجارتی یا عسکری زبان میں روک سکے؟ قطر اور ترکی کی چند علامتی کوششوں کے سوا پورے عرب ورلڈ پر موت طاری ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادوں، او آئی سی کے بے جان اجلاسوں، اور میڈیا کے خالی بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے۔ جبکہ اسرائیل زمین ہڑپ کر رہا ہے، بستیاں بسا رہا ہے، مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کر رہا ہے اور دنیا کی سب سے منظم نسل کشی کر رہا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ فیصلہ کرے گی کہ فلسطین کو اسرائیل نے قتل نہیں کیا بلکہ مسلم حکمرانوں کی خاموشی، بے حسی، اور منافقت نے فلسطین کو دفن کر دیا۔ آج جو یروشلم کے منبر خاموش ہیں، کل ان پر صیہونی جھنڈا لہرائے گا، آج جو غزہ کی بستیوں پر بم برس رہے ہیں، کل وہ مکہ و مدینہ کے افق پر بھی چھا سکتے ہیں، اگر یہی خاموشی برقرار رہی۔
یہ سب کچھ ہوتے ہوئے اسرائیلی نصاب میں بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے ’’خدا نے نیل سے فرات تک کی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے عطا کی ہے۔‘‘ یہ تعلیم ایک نسل کو صرف صیہونی نہیں، سامراجی، قاتل اور استعماری سوچ کا وارث بنا رہی ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کیا کرے گا، سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم ماتم کرتے رہیں گے؟ کیا ہم صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرتے رہیں گے؟ کیا ہم حکمرانوں سے رحم کی بھیک مانگتے رہیں گے؟ نہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد اپنے حصے کی مشعل جلائے۔ بائیکاٹ سے، قلم سے، احتجاج سے، دعا سے، اور اگر ممکن ہو تو میدانِ عمل سے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی تو کل تاریخ ہمیں بھی ظالموں کے ساتھ لکھے گی۔ خدا کے حضور، تاریخ کے صفحات پر، اور مظلوم فلسطینیوں کی آنکھوں میں اب صرف ایک ہی سوال ہے۔
"جب مسجد اقصیٰ جل رہی تھی، تم کہاں تھے؟"