ترقی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بے چارہ انسان
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
کولمبس کی براعظم امریکا کی دریافت نے انسانی دور کی ایک نئی سمت اور جہد کا آغاز کیا۔ اگر ہم بغور انسانی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو ہمیں اس نتیجے پر پہنچنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ امریکا کی آمد کے بعد ہی ارضیاتی و عالمی تبدیلیوں کے نہ ختم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔
بین الاقوامی تجارت کا سنہرا دور بھی امریکا ہی کے مرہون منت شروع ہوا اور اسی تجارت کے سبب انسان، جانور، مشینیں اور پودوں کی مختلف نسلیں دنیا کے مختلف ممالک میں منتقل ہونا شروع ہوگئیں۔ اور یہیں سے اس سیارے یعنی زمین کی نئی سمت کا ارتقا شروع ہوا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے امتزاج نے شعور و فکر کی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کیں اور پھر زمین کے اس مکین نے ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کی منازل بہت سبک رفتاری سے طے کرنا شروع کردیں، نتیجتاً انسان ہر گزرتے لمحے بہت مضبوط اور طاقتور ہونے لگا۔
ہمیں ماننا ہوگا کہ انسانی معاشرے کی ترقی ہمیشہ مرحلہ وار ہوتی ہے اور جب بھی کوئی انسان یا معاشرے کے افراد کسی چیز کے حصول میں جلد بازی کرتے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ ناکامی ہمیشہ ان کا مقدر ہوتی ہے۔ ویسے ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ انسانی معاشرہ جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کررہا تھا دنیا سے ناانصافی، نفرت، خونریزی اور جنگوں کا خاتمہ ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس انسان ایک ایسی دنیا قائم نہ کرسکا جہاں کے مکین خوشی اور مسرت سے زندگی گزار سکیں۔
زرعی عہد سے صنعتی عہد تک کا فاصلہ انسان نے صدیوں میں طے کیا اور صنعتی انقلاب کی وجہ سے انسانی زندگی میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں سلطنت برطانیہ نے انسانوں اور جانوروں کی مشقت سے چلنے والی معیشت کو مشینوں پر شفٹ کیا۔ 18 ویں صدی میں شروع ہونے والے اس انقلاب نے 19ویں صدی کے اوائل تک تقریباً دنیا کے کافی ممالک میں اپنے پاؤں جما دیے اور نئی ایجادات نے انسانی طرز زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔
آج ہم جسے مغربی تہذیب کہتے ہیں وہ حقیقت میں صنعتی تہذیب ہی ہے اور اس تہذیب کی بدولت آج دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنے سیاسی اور معاشرتی نظام کو اس کے سرنگوں کرچکے ہیں۔ دنیا کی ہر حکومت آج اسی تہذیب کی وجہ سے اس آفاقی معیشت کے کنٹرول میں ہے۔
ہماری دنیا اس وقت اکیسویں صدی میں چل رہی ہے، جو کہ بیسویں صدی ہی کی توسیع ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدیوں نے دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ انیسویں صدی میں اسٹیم انجن کی ایجاد نے صنعت کاری کی کایا ہی پلٹ دی۔ آپ اندازہ کیجیے کہ امریکا کی شمالی ریاستوں نے اپنی سول وار صرف اس لیے جیتی کیونکہ ان ریاستوں کے پاس لوکوموٹو موجود تھے، جس کی وجہ سے فوجوں اور ہتھیاروں کی ترسیل بروقت ممکن ہوئی جبکہ جنوبی ریاستیں اس وقت بھی گھوڑوں اور خچروں پر انحصار کر رہی تھیں۔
بیسویں صدی میں ہوائی جہاز کی ایجاد ممکن ہوئی اور ہوائی جہاز بالآخر مواصلات کا بہترین ذریعہ بنا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ انسان کی بیشتر ترقی کا راز ایک اچھے مواصلاتی نظام میں ہی پنہاں ہے۔ اسی صدی میں نیوکلیئر پاور کی ایجاد ہوئی اور ایٹم بم کا پہلا اور شاید آخری استعمال بھی اسی صدی میں ہوا۔ جو ترقی اس کرۂ ارض پر انیسویں اور اکیسویں صدی میں ہوئی اس کا تسلسل ہمیں اکیسویں صدی میں انٹرنیٹ کی شکل میں نظر آرہا ہے، جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی اہمیت ختم ہورہی ہے۔
اکیسویں صدی میں انسان سے زیادہ آلات کی اہمیت بڑھ جائے گی اور انسانوں کی جگہ مشینیں کام کر رہی ہوں گی۔ حقیقتاً اکیسویں صدی بے رحم مقابلے کی صدی ہے، جہاں صرف غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد ہی کامیاب ہوں گے۔ جو تبدیلیاں پہلے برسوں میں آتی تھیں، اب مہینوں اور دنوں میں آرہی ہیں۔ انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے جو کہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہیں، اور کیا ہماری ریاست ایک ایسا مضبوط نظام بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے جس پر ترقی کی ایک اچھی عمارت تعمیر کی جاسکے؟
پاکستان ایک ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں کی نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان نوجوانوں کو بہتر تعلیم و تربیت دے کر انہیں ملک کی ترقی کا انجن بناسکتے ہیں۔ اور اگر ہم نے نوجوانوں کی اس کثیر تعداد کو معاشرے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تو ممکن ہے یہ بچے مشقت کی چکی چلائیں یا پھر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں۔
اے آئی ٹولز وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اسمارٹ ہوتے جارہے ہیں۔ جیفری ہنٹن جو کہ اے آئی کے گاڈ فادر کہلاتے ہیں، ان کے مطابق اس وقت زیادہ تر کاروباری ادارے ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح اے آئی ٹیکنالوجی کو اپنے حق میں استعمال کریں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ مستقبل میں اے آئی انسانوں کی متبادل ہوسکتی ہے۔
75 سالہ جیفری ہنٹن نے گوگل سے مستعفی ہونے کے بعد نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اے آئی چیٹ بوٹس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ذہین ہورہے ہیں اور اس خدشے کا بھی ذکر کیا کہ آنے والے کچھ وقت میں وہ ہم سے زیادہ ذہین ہوجائیں گے۔ ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت (AI) آنے والے وقتوں میں انسانی ملازمتوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہڑپ کرجائے گی۔ آئی بی ایم جیسی بڑی کمپنیوں نے اپنے ہزاروں ملازموں کو فارغ کرنے کا اعلان کردیا ہے اور اب وہ یہ کام اے آئی کی مدد سے لیں گے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ماہرین کے مطابق دنیا اس وقت اے آئی ٹولز کے پہلے مرحلے سے گزر رہی ہے جس کے اثرات اور فوائد انسانوں تک منتقل ہورہے ہیں، لیکن انہی ماہرین کے مطابق آنے والا وقت اے آئی کی وجہ سے دنیا کو بدل کر رکھ دے گا، جہاں انسانوں کی جگہ مشینیں لے لیں گی۔ آپ صرف سوچیں کہ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ اے آئی کی وجہ سے روزگار کے ذریعے کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ شاید دنیا اے آئی کی وجہ سے ترقی تو بہت کرجائے لیکن انسانی وجود کی قیمت پر۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اکیسویں صدی میں اے ا ئی کی کی وجہ سے کے مطابق کے ساتھ رہی ہے اور اس
پڑھیں:
پاک بھارت مستحکم امن کی تلاش
پاکستان نے ، اللہ کے فضل و کرم سے، چار روزہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کو تاریخ ساز شکست دی ۔ ساری دُنیا مان اور تسلیم کر چکی ہے ۔
امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، ایک درجن سے زائد بار ، برسرِ مجلس، اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کی کوششوں اور مساعی سے پاک بھارت جنگ آگے بڑھنے سے رُکی ۔ ٹرمپ نے تو اگلے روز یہ بھی سب کے سامنے تسلیم کیا کہ اِس جنگ میں ( بھارت کے) چار، پانچ جدید جنگی طیارے رافیل (پاک فضائیہ نے) مار گرائے ۔ فرانس تک (جس نے بھارت کومایہ ناز رافیل طیارے فراہم کیے) تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے رافیل مار گرائے ۔ بھارت مگر ڈھٹائی اور مارے ندامت کے مان نہیں رہا ۔
مودی جی تو طیش میں بَل کھا رہے ہیں ، مگر امریکی صدر کی باتوں کی تردید بھی نہیں کر پارہے ۔ مودی جی کی آتش نوائی نے پاک بھارت امن کی فضاؤں میں تشویشات کی متعدد لہریں دوڑا رکھی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم کی اِسی آتش نوائی نے پاکستان کی امن ساز کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے ۔
پاکستان اور بھارت کی فضاؤں پر موہوم حربی بادلوں کے آثار ہیں۔فریقین پریشان ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اِس گمبھیر صورتحال سے کیسے باعزت سرخرو ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب کئی جوانب سے متنوع انداز میں سامنے آرہا ہے ۔ اِس سوال کا ایک جواب ممتاز دانشور ، جناب یوسف نذر ،نے بھی دیا ہے۔جناب یوسف نذر بنیادی طور پر عالمی شہرت یافتہ بینکر ہیں ، مگر اپنے ہمہ گیر اقتصادی تجربات کے کارن اُن کی نظر عالمی سیاست اور عالمی تصادموں پر بھی رہتی ہے ۔
موصوف نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی میں ایک مفصل آرٹیکل لکھا ہے ۔اُنھوں نے قارئین کو بتایا ہے کہ پاکستان موجودہ (پاک بھارت کشیدگی) کے بحران سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اپنے دیرینہ اور آزمودہ دوست، چین، کی مرکزی پالیسی سے سبق حاصل کرے ۔ اور بقول مصنف، چین کی یہ مرکزی سوچ’’غیر تصادمی پالیسی‘‘ ہے ۔ یوسف نذر کے خیالات سے متفق ہُوئے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی تجویز میں کئی نکات قابلِ غور ہیں ۔
یوسف نذر لکھتے ہیں: ’’چین کی طویل عرصے سے اختیار کردہ غیر تصادمی پالیسی نے اسے نوآبادیاتی استحصال کے ملبے سے اُٹھا کر عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد دی ہے۔ سرد جنگ کے پراکسی تنازعات، شام اور یوکرین کی جنگوں، یا حالیہ بحیرہ جنوبی چین کی کشیدگی میں، چین نے ہمیشہ طویل فوجی الجھاؤ سے گریز کیا ہے۔
امریکا کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے دوران چین کا محتاط ردِعمل ( جس میں محدود ٹیرف، عالمی تجارتی تنظیم میں اپیلیں، اور تجارتی شراکت داروں کی خاموشی شامل ہے) اسی پالیسی کا عکاس ہے۔ بیجنگ نے کشیدگی بڑھانے کے بجائے داخلی استحکام، معاشی خودانحصاری اور سفارتی روابط کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ طرزِ عمل ایک طاقتور نمونہ پیش کرتا ہے۔بین الدولی تعلقات محض نظریات سے متعین نہیں ہوتے، جیسا کہ پاکستان اور چین کی گہری دوستی ظاہر کرتی ہے۔ چین، ایک غیر مذہبی اور غیر جمہوری ریاست ہونے ، اور پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود، ایک مضبوط شراکت داری قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ عملی پالیسیاں نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ پاک بھارت دیرینہ تنازعات کی اس وراثت سے باعزت نکل سکتا ہے جس نے اس کے وسائل کو چوسا، معاشی ترقی کو روکا اور عدم استحکام کو جنم دیا؟چینی ترقی کی کہانی پاکستان کے لیے سبق آموز ہے۔ چین نے غیر ملکی تنازعات سے دُور رہ کر اور اندرونی استحکام پر توجہ دے کر اپنے80کروڑ شہریوں کو غربت سے نکالا اور ایک عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کو بھی اسی طرح اپنی اندرونی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔
1971کی جنگ میں بنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا ایک قومی سانحہ تھا۔ اس سانحہ میں ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور 20 فیصد جی ڈی پی ختم ہو گئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کی شرکت نے پاکستان میں دہشت گردی کے لامختتم سلاسل کو جنم دیا، جس میں 2001 سے اب تک 80,000 سے زائد جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ اِس عظیم جانی نقصان کو پاکستان کی مختلف حکومتیں بھی تسلیم کر چکی ہیں‘‘۔
یوسف نذر مزید لکھتے ہیں:’’ایسے پس منظر میں چین کی غیر تصادمی حکمتِ عملی، جس میں اندرونی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے ایک واضح سبق ہے۔ چین کی غیر تصادمی پالیسی 1954ء میں وضع کیے گئے ’’پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں‘‘ پر مبنی ہے، جس میں خودمختاری کے احترام، جارحیت سے گریز، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا گیا ہے۔ ’’ذلت کی صدی‘‘ کے تجربے (1839 تا 1949) نے چین میں یہ عزم پیدا کیا کہ خودمختاری کا تحفظ اور بیرونی تنازعات سے بچاؤ ضروری ہے۔
ماؤزے تنگ نے داخلی استحکام پر توجہ دی، جب کہ ڈینگ شیاؤ پنگ نے 1970 کی دہائی کے آخر میں معاشی اصلاحات کے ذریعے غیر تصادمی حکمت عملی کو مکمل طور پر ترقی کا ذریعہ بنایا۔ ڈینگ کا فلسفہ ’’اپنی صلاحیتوں کو چھپاؤ اور وقت کا انتظار کرو‘‘چین کی ترقی کی بنیاد بنا۔چین کی تاریخ میں کئی مواقع پر غیر تصادمی پالیسی واضح طور پر نظر آئی، جیسے کوریا جنگ میں محدود شرکت، ویتنام جنگ میں براہ راست مداخلت سے گریز، اور 1979کی چین-ویتنام جنگ کے بعد مکمل طور پر سفارتی حکمت عملی اپنانا۔کیوبا میزائل بحران، بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ، خلیج فارس کی جنگ، یوگوسلاویہ کی جنگیں، روانڈا نسل کشی، عراق جنگ، اور لیبیا اور شام کے تنازعات میں چین کا کردار بھی غیر تصادمی رہا۔ چین نے ہمیشہ سفارت کاری اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دی۔چین کی اندرونی حکمرانی نے استحکام، ترقی، اور خود انحصاری کو یقینی بنایا۔
1978 کی معاشی اصلاحات نے دیہی آمدنی دگنی کر دی، تعلیم میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور سائنسی تحقیق میں پیشرفت نے مصنوعی ذہانت، 5G اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کو ممکن بنایا۔چین نے فوجی اخراجات کو محدود رکھا ۔ 2023 میں جی ڈی پی کا محض 1.67 فیصد ، جب کہ امریکا اور رُوس جیسے ممالک نے اپنے وسائل جنگوں میں ضایع کیے۔چین کا بحیرئہ جنوبی چین میں کشیدگی پر سفارت کاری کو ترجیح دینا، فوجی تنازعات سے بچاؤ کی حکمت عملی کا مظہر ہے۔
اس کے برعکس امریکا نے عراق اور افغانستان میں کھربوں ڈالر ضایع کیے، جب کہ چین نے تجارتی استحکام کو فروغ دیا۔پاکستان کے لیے، چین کا ماڈل ایک واضح راستہ پیش کرتا ہے: تنازعات سے گریز، وسائل کا داخلی ترقی پر استعمال، اور تعلیم، صحت اور صنعت میں سرمایہ کاری۔ اگر پاکستان نے اس راستے کو اختیار کیا تو وہ معاشی ترقی اور استحکام حاصل کر سکتا ہے۔چین کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی پر توجہ تنازعات سے کہیں زیادہ طاقتور راستہ ہے۔ پاکستان کو یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ترقی اس کی تقدیر بن سکے‘‘۔
یوسف نذر ایسے دانشور کے مذکورہ مشورے مستحسن تو کہے جا سکتے ہیں ، مگر موجودہ پاک بھارت کشیدگی کے لمحات میں شائد اِن پر عمل کرنا اتنا سہل نہیں ہے ۔ غور کرنے میں مگر ہرج بھی کیا ہے ؟ کبھی کبھار ’’مانگے کے اُجالے‘‘ سے بھی روشنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ پچھلے دو ہفتوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف فضا کو جس بُری طرح مشتعل کررکھا ہے، ایسی فضا میں پاکستان کے لیے ایسے مشورے شائد قابلِ عمل نہیں ہیں۔ اِن پر عمل کرنا شائد پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے۔ ’’غیر تصادمی‘‘ پالیسی کے ایسے مشورے بھارت کے ممتاز ترین مسلم دانشور، مفکر ، مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ، مولانا وحید الدین خان مرحوم، بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو دیتے رہے ہیں ۔
اُن کے یہ مشورے مگر ، بوجوہ، پاکستان میں قبولیت نہ پا سکے ۔ یوسف نذر صاحب اور مولانا وحید الدین خان مرحوم مبینہ ’’ غیر تصادمی پالیسی ‘‘ ایسے مشورے بھارت اور بھارتیوں کو دیتے نظر نہیں آتے۔ یہ بھارت ہے جوکبھی افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی BLAاور BRA ایسے دہشت گردوں کے زریعے پاکستان میںخونریزی کا بازار گرم کرواتا ہے۔ بھارت کی پاکستان مخالف شیطانیاں کم ہوں تو جنوبی ایشیا میں امن کی فضائیں آر پار جا سکیں ۔