Express News:
2025-09-18@13:57:11 GMT

رمضان اصلاح و تربیت سے زیادہ کمائی کا مہینہ

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

علمائے کرام ماہ صیام یعنی رمضان المبارک کو اصلاح اور تربیت کا مہینہ قرار دیتے ہیں جب کہ حکومت اور ناجائز منافع خوروں نے رمضان کو زیادہ سے زیادہ کمائی کا مہینہ بنا رکھا ہے اور چاروں صوبائی حکومتیں ماضی کی طرح اس بار بھی رمضان میں قیمتوں پر کنٹرول رکھنے میں ناکام رہی ہیں اور رمضان میں قیمتیں بڑھانے کا آغاز وفاقی حکومت نے خود کیا تھا جس نے رمضان المبارک میں چینی کی کھپت زیادہ ہونے کے اندازے کے باوجود بیرون ملک چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔

رمضان المبارک سے کئی ماہ قبل تک ایک سو 35 روپے سے ایک سو چالیس روپے کلو چینی عام مل رہی تھی مگر حکومت نے جان بوجھ کر زرمبادلہ کے چکر میں بڑے منافع خوروں کو چینی ملک سے باہر فروخت کرنے کی اجازت دی تھی جس پر عوامی حلقوں نے اعتراض بھی کیا تھا مگر مہنگائی بڑھانے کی اصل ذمے دار وفاقی حکومت نے بڑے منافع خوروں کو نوازنے کے لیے عوام کے مفاد کے خلاف فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں چینی کی قلت تو نہیں ہوئی مگر رمضان میں چینی ملک بھر میں ایک سو نوے سے دو سو روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔

 ملک بھر میں سرکاری افسروں نے ناجائز منافع خوروں کے خلاف چھاپے مارنے بھی شروع کر رکھے ہیں اور ملک بھر میں ناجائز منافع خوروں سے لا کھوں روپے جرمانے کی مد میں وصول کر کے حکومت کو مالی فائدہ ضرور پہنچا دیا ہے جب کہ جرمانوں کے علاوہ سیکڑوں ناجائز منافع خورگرفتار بھی ہوئے اور ان کی دکانیں بھی سیل کی گئیں مگر عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا جو ماضی سے رمضان المبارک میں لٹتے آئے ہیں اور اس سال بھی موجودہ حکومتوں میں بھی لٹے ہیں۔

جن کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ ایک سالہ اقتدار مکمل کرنے والی حکومتیں رمضان المبارک میں قیمتوں پرکنٹرول کریں گی مگر حکومتی دعوے ماضی کی طرح غلط ہی ثابت ہوئے اور ناجائز منافع خوروں نے رمضان المبارک میں اپنی اصلاح اور مذہبی تربیت حاصل کرنے کے بجائے رمضان کو سب سے زیادہ کمائی کا ذریعہ ہی بنائے رکھا اور رمضان میں سب سے زیادہ کمائی کا اصول برقرار رکھا اور حکومت پھلوں اور سبزیوں کو مقررہ سرکاری نرخوں پر فروخت نہیں کرا سکی۔ سرکاری نرخوں پر اشیا صرف اس وقت فروخت ہوئیں جب وہاں سرکاری چھاپے لگے یا میڈیا ٹیموں نے بازاروں، مارکیٹوں کا سروے کیا تو ہر جگہ ہی عوام نے گراں فروشی کی شکایات کے انبار لگا دیے اور جب گراں فروشوں سے ان کی گراں فروشی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے اس کا ذمے دار پیچھے والوں کو قرار دیا، پیچھے والوں سے ان کی مراد ہول سیلرز تھے جنھیں کوئی نہیں پوچھتا۔

ریٹیلرز کے پاس اشیا خوردنی مہنگی کرنے کا صرف ایک ہی جواز ہوتا ہے کہ انھیں ہول سیل مارکیٹوں سے مال مہنگا ملتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی مال مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ہول سیل میں انھیں اتنا مہنگا نہیں ملتا جتنا وہ بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہول سیل سے خرید کر مال لینے پر ٹرانسپورٹیشن کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اندرون شہر جو چھوٹی مارکیٹیں یا وہاں لگے پتھارے اور ریڑھیاں لگتی ہیں یا جو ریڑھیاں سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔

 ان سے بلدیاتی اداروں والے اور پولیس اہلکار بھتہ لیتے ہیں اور نہ دینے پر انھیں سڑکوں سے بھگا دیا جاتا ہے۔ پھل فروش رمضان میں پولیس اہلکاروں کی طرف سے افطاری کے نام پر مفت پھل لینے کا بھی الزام لگاتے ہیں جو درست بھی ہے کیونکہ رمضان المبارک میں ناجائز منافع خور اگر عوام کو لوٹتے ہیں تو قبضہ مافیا، پولیس، بلدیاتی اہلکار اور علاقائی بدمعاش بھی ان سے بھتہ اور عیدی وصول کرتے ہیں کیونکہ رمضان المبارک ان کے لیے بھی کمائی کا مہینہ ہے۔

رمضان اور عید کے موقع پر فٹ پاتھوں پر بھی پیسے لے کر پتھارے اور ریڑھیاں لگوائی جاتی ہیں اور کوئی بھی کمائی کے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ہر کوئی عوام کو لوٹنے میں مصروف ہے۔پنجاب میں تو چار ماہ پہلے ہی رمضان المبارک میں مہنگائی کنٹرول کرنے کی حکمت عملی بنا لی گئی تھی اور پہلی بار اشیا کی ڈیمانڈ پر توجہ دی گئی جو پہلے صرف سپلائی پر ہوتی تھی۔ پنجاب میں تو لگتا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ ہے اور وہاں پہلی بار پرائس کنٹرول کا الگ محکمہ بنایا گیا ہے اور قیمتوں کی مانیٹرنگ بھی کی جا رہی ہے اور ڈھائی سو فیئر پرائس شاپس قائم کی گئی ہیں مگر سندھ و دیگر صوبوں میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہاں کی حکومتیں مہنگائی پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور وہاں حکمت عملی کا فقدان دیکھا گیا ہے۔

حکومتوں کو پتا ہے کہ رمضان میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے جو پہلے عید کے بعد ختم ہو جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے ۔ رمضان میں علمائے کرام پر بیانات دے کر ناجائز منافع خوروں کی شرعی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کوئی اثر نہیں لیتا‘ چھاپوں کا خوف تو وہ کیوں اپنی اصلاح کریں گے۔

حکومتی سخت پالیسی اور ان پر حقیقت میں عمل ہی اس کا علاج ہے۔ وقتی جرمانوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ ناجائز منافع خوروں کو رمضان میں جیلوں میں رکھا جائے اور انھیں کام ہی نہ کرنے دیا جائے تو ممکن ہے ایک بار سرکاری گرفت میں آ کر وہ توبہ کر لیں تو ہی ان کی اصلاح ہو سکتی ہے، ورنہ حکومتی جرمانے اور علمائے دین کے بیانات مہنگائی روکنے میں کبھی معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ناجائز منافع خوروں رمضان المبارک میں سے زیادہ کمائی کا کا مہینہ کرنے کی ہیں اور ہول سیل ہے اور

پڑھیں:

آئی فون 17 کی قیمت میں پاکستان میں کونسے منافع بخش کاروبار کیے جا سکتے ہیں؟

پاکستان میں آئی فون 17 کے نئے ماڈلز کی قیمتیں 6 سے 8 لاکھ روپے تک متوقع کی جا رہی ہیں۔ جو عام شہری کے لیے حیرت انگیز حقیقت ہے۔ ایک طرف یہ رقم صرف ایک موبائل فون پر خرچ ہو رہی ہے، تو دوسری جانب اسی رقم سے نہ صرف ایک قابلِ استعمال گاڑی خریدی جا سکتی ہے بلکہ ایک چھوٹا کاروبار بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔

مارکیٹ میں دستیاب پرانی گاڑیوں جیسے سوزوکی مہران، دایہ تسو کورے، ہنڈا سٹی یا کلٹس کے پرانے ماڈلز 6 سے 8 لاکھ کے درمیان دستیاب ہیں، جو ذاتی سواری کے لیے کافی بہتر آپشن ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ قیمت اوسط تنخواہ لینے والے پاکستانی کی کئی برس کی جمع پونجی کے برابر ہے، اسی لیے یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا واقعی ایک موبائل فون اتنی خطیر رقم کا مستحق ہے یا یہ پیسہ کسی زیادہ فائدہ مند مقصد کے لیے بھی کافی ہو سکتا ہے؟

مزید پڑھیں: آئی فون 17 لانچ کرتے ہی ایپل کو بڑا مالی نقصان، وجہ کیا بنی؟

اسی رقم سے اگر سیکنڈ ہینڈ رکشے خریدے جائیں تو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے 8 لاکھ میں 2 سے 3 رکشے آرام سے لیے جا سکتے ہیں، جو روزانہ اوسطاً 2,500 سے 3,500 روپے تک کما سکتے ہیں۔ اس طرح ماہانہ آمدنی 1.5 لاکھ سے 2 لاکھ روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایک رکشے کی آمدن ہے۔

اسی طرح اگر سیکنڈ ہینڈ 70 سی سی بائیکس خریدی جائیں تو اوسطاً 8 لاکھ میں تقریباً 8 بائیکس لی جا سکتی ہیں۔ ان کو اگر آن لائن بائیک رائیڈ سروسز جیسے بائیکیا یا ان ڈرائیور پر لگایا جائے تو ہر بائیک سے 30 سے 40 ہزار روپے تک ماہانہ کمائی ممکن ہے، جس کا مطلب ہے کہ مجموعی آمدنی 3 سے 4 لاکھ روپے ماہانہ تک ہو سکتی ہے۔ یہ وہ آمدنی ہے جو نہ صرف اصل سرمایہ چند مہینوں میں واپس دلا سکتی ہے بلکہ ایک مستحکم روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔

کاروباری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہی رقم چھوٹے پیمانے پر دیگر شعبوں میں بھی لگائی جا سکتی ہے، مثلاً ایک جنرل اسٹور کھولنے، فوڈ کارٹ یا فاسٹ فوڈ کا کاروبار کرنے، کار واش یا لانڈری سروس شروع کرنے یا پھر آن لائن بزنس کے لیے کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کا سیٹ اپ بنانے میں۔

مزید پڑھیں: ایپل کے آئی فون 17 سیریز لانچ پر سام سنگ کا طنزیہ وار

دیہی علاقوں میں یہی سرمایہ ڈیری فارمنگ، پولٹری یا زرعی مشینری میں لگایا جائے تو نہ صرف سرمایہ جلد واپس آ سکتا ہے بلکہ اضافی منافع بھی ممکن ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے بزنس مین علی رضا کے مطابق پاکستان میں 6 سے 8 لاکھ روپے میں کوئی بھی شخص اچھے اور منافع بخش کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ اس رقم سے ایک چھوٹا جنرل اسٹور کھولا جا سکتا ہے، فوڈ کارٹ یا فاسٹ فوڈ کا کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے، یا پھر کار واش اور بائیک رائیڈنگ سروس میں لگایا جا سکتا ہے۔

دیہی علاقوں میں یہی سرمایہ ڈیری فارمنگ یا پولٹری کے کام میں بھی لگایا جا سکتا ہے، جو جلد منافع دیتا ہے۔ میرے خیال میں یہ پیسہ اگر کاروبار میں لگایا جائے تو اس سے روزگار بھی پیدا ہوتا ہے اور مستقل آمدنی بھی ملتی ہے، جبکہ ایک موبائل فون پر خرچ کرنے سے صرف وقتی فائدہ ہوتا ہے۔ اور شوق ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔

کہتے ہیں کہ خاص طور پر نوجوانوں کو چاہیے کہ آئی فون خریدنے کے بجائے کسی بزنس میں انوسٹمنٹ کریں۔ جس سے نہ صرف انہیں فائدہ ہوگا۔ بلکہ مستقبل میں کیا پتا وہ دوسرے نوجوانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی فون 17 پاکستان منافع بخش کاروبار

متعلقہ مضامین

  • کراچی؛ نادرا کا نئے میگا سینٹرز کھولنے کا اعلان
  • نیشنل سیونگز اسکیمز میں منافع کی شرحوں میں ردوبدل کا فیصلہ
  • 8 لاکھ افراد پیرس کی سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار، ہڑتال سے کونسے شعبے متاثر ہوں گے؟
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • پی آئی اے منافع بخش ادارہ بن گیا، 6 ماہ میں کتنے ارب کا منافع ہوا؟
  • پی آئی اے منافع بخش ادارہ بن گیا
  • آئی فون 17 کی قیمت میں پاکستان میں کونسے منافع بخش کاروبار کیے جا سکتے ہیں؟
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • آفات کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، پروفیسر ڈاکٹر حسن قادری
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا