اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)ڈپٹی رجسٹرار کیخلاف ازخودتوہین عدالت کیس میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ میں اس وجہ سے توہین عدالت چلا رہا ہوں تاکہ ہم سیکھیں۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار کیخلاف ازخودتوہین عدالت کیس کی سماعت جاری ہے،جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کیس کی سماعت کررہے ہیں،عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اس کونمبر لگ گیا ہے؟ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ کل عدالت نے دل کی باتیں کیں اور ہم نے سنیں،عدالت نے کہاکہ جب دوسری طرف سے آتا ہے کہ وکیل نہیں تو پھر عدالت ملزم سے پوچھے گی،جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ آپ مجھے بتائیں بطور جج میں کیا کرتا؟عدالت نے کہاکہ میں اس وجہ سے توہین عدالت چلا رہا ہوں تاکہ ہم سیکھیں۔

لاہور میں باپ نے اپنی 12 سالہ بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا 

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: توہین عدالت عدالت نے

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پروسس ہے‘ جج عدالت عظمیٰ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی ہے جبکہ بنچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے، صدر کے اختیار سے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئین میں لکھی ہرلائن کا مطلب اور مقصد ہے۔ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سینیارٹی تقرری کے دن سے شمار ہوگی، جج ہائیکورٹ میں تبادلہ پر آ گیا تو اس کی پہلی سینیارٹی کا کیا ہوگا؟انہوں نے یہ ریمارکس پیرکے روزدیے ہیں۔ ججز سنیارٹی اور ٹرانسفر کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی وضاحت کا اطلاق صرف ذیلی سیکشن 3 پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول سروس میں اگر ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں تبادلہ ہو تو سینیارٹی متاثر ہوتی ہے، جبکہ عدلیہ میں نہ تو ڈیپوٹیشن کا اصول ہے اور نہ ہی کسی جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول رائج ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سول سروس میں ڈیپوٹیشن یا ملازم کو محکمہ میں ضم کرنے کا اصول ضرور موجود ہے، عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو کسی دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں ججز کے تبادلے کے وقت رضامندی نہیں لی جاتی اور سینیارٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس پر صلاح الدین نے کہا کہ اگر رضامندی لی جا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سینیارٹی میں تبدیلی ممکن ہے۔وکیل نے دلائل دیے کہ اگر سروس اسٹرکچر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر کیڈر ایک ہو تو سینیارٹی متاثر نہیں ہوتی، لیکن اگر کیڈر الگ ہو تو سینیارٹی متاثر ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہاں معاملہ ججز ٹرانسفرز اور سینیارٹی کا ہے، اس لیے اس پر براہ راست سول سروس رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگر کسی پر تبادلہ مسلط کیا جائے اور سینیارٹی متاثر ہو تو یہ ناانصافی ہوگی۔صلاح الدین احمد نے کہا کہ ابھی دو ہفتے پہلے ہندوستانی ہائی کورٹس میں ججز کے تبادلے ہوئے، دہلی ہائیکورٹ کے سینئر جج کو کرناٹک ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔ ججز ٹرانسفر کیس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے متفرق درخواست دائر کردی۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل نے کوئی درخواست دائر کی ہے؟امجد پرویز نے کہا کہ میں نے 1947سے 1976تک ججز ٹرانسفر کی مکمل تاریخ پیش کی ہے،ہم اس کیس میں فریق نہیں تھے، 27اے کا نوٹس ہوا تھا، جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ یہ نوٹس فریق بننے کیلئے ہی ہوتا ہے،آپ کو اٹارنی جنرل کے بعد دلائل دینے چاہئیں تھے،آپ کو نہیں پتہ 27اے کا نوٹس کتنا اہم ہوتا ہے؟عدالت نے کہاکہ لاہور ہائیکورٹ رجسٹرارنے کمنٹس جمع کروائے ہیں تو آپ مرکزی فریق ہیں،جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہاکہ بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل ختم ہوں تو آپ کو سنیں گے ، جسٹس محمدعلی مظہر نے کہاکہ چیف جسٹس پاکستان تبادلہ نہ چاہیں تب بھی تبادلہ نہیں ہوگا، عدالت میں ساری بات صدر کے اختیار پر ہو رہی ہے،صدر کے اختیارسے پہلے کے عمل پر کسی نے بات نہیں کی، آئین میں لکھی ہرلائن کا مطلب اور مقصد ہے،جوڈیشل کمیشن کی نامزدگی پر کیا صدر انکار کرسکتا ہے؟بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ رولز کے مطابق انتظامی کمیٹی میں تین سینئر ججز شامل ہوتے تھے۔ ٹرانسفر کے بعد جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس خادم سومرو کمیٹی میں شامل ہو گئے، جبکہ ان کے پاس صرف دو دن کا تجربہ تھا۔ بعد ازاں رولز میں ترمیم کی گئی اور چیف جسٹس کے ساتھ دو دیگر ججز کو کمیٹی میں شامل کیا گیا۔عدالت نے ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائی کورٹ: گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق ترامیم چیلنج، حکومت سے جواب طلب
  • ہمارے ینگ وکلاء کو چاہیے کہ اپنے سینئرز سے سیکھیں: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • پشاور ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کو دو ہفتوں کی حفاظتی ضمانت دے دی
  • لاہور ہائیکورٹ میں ٹولنٹن مارکیٹ سے جانوروں کو منتقل کرنے پر تجاویز طلب ،سماعت 19 جون تک ملتوی
  • کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر کی غیرقانونی اجازت پر ایس بی سی اے افسران سمیت 18ملزمان کے وارنٹ گرفتاری
  • ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پروسس ہے‘ جج عدالت عظمیٰ
  • ’میں اسی قابل ہوں کہ میری توہین ہو‘، سہیل وڑائچ کا فضا علی کے تبصرے پر جواب
  • اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس پرغیرقانونی قبضہ ختم کریں تو دوریاستی حل پر پیشرفت ہوسکتی ہے،اسحاق ڈار
  • عدلیہ میں ڈیپوٹیشن یا جج کو دوسری عدالت میں ضم کرنے کا اصول نہیں، جسٹس محمد علی مظہر
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس : ریلیف سنی اتحاد کی جگہ پی ٹی آئی کو دیا گیا، جسٹس امین الدین کے ریمارکس