ملک میں سوشل میڈیا ایپلی کیشن ”ایکس“ کی بندش کے خلاف حذیفہ نعیم اور صحافی شاکر اعوان کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت کو آخری موقع دے رہے ہیں کہ وہ بتائے کہ ایکس کی بندش کس طریقہ کار سے کی گئی.
یہ آخری موقع ہے اس کے بعد کابینہ کے سربراہ کو طلب کریں گے۔جمعرات کو ہوئی سماعت میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چئیرمین عدالت کے حکم پر فل بینچ کے سامنے پیش ہوئے، جہاں پی ٹی اے نے تحریری جواب عدالت میں جمع کرایا۔ وفاقی حکومت کے وکیل اسد باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کے پاس کوئی سسٹم
نہیں کہ کون کیا
استعمال کررہا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزارتِ داخلہ کے پاس ایکس بند کرنے کا سسٹم ہے لیکن کون کیا استعمال کر رہا ہے یہ سسٹم نہیں ہے؟وکیل اسد باجوہ نے بتایا کہ پی ٹی اے نے کمیٹی بنا دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کمیٹی عدالت کو بتی کے پیچھے لگانے کے لیے ہے۔وکیل وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ ایکس کی بندش کے معاملے پر ایکس انتظامیہ کو لکھا گیا ہے۔عدالتی استفسار پر وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ حکومت کا ایکس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر معاہدہ نہیں ہے تو ایکس انتظامیہ آپ کو کیوں جواب دے گی، یہ بینچ اس لیے نہیں بیٹھا کہ جواب جمع کرا کر آئی واش کرا دیا۔عدالتی استفسار پر چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پی ٹی اے کا ایکس اکاؤنٹ فعال ہے۔جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ بولے کہ یہ کیا بات ہے آپ خود ہی پابندی لگا کر خود استعمال بھی کر رہے ہیں۔چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ پاکستان میں ایکس کے تمام صارفین وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔چیف جسٹس عالیہ نیلم کے استفسار پر چیئرمین پی ٹی اے نے پہلے تو پی ٹی اے کی جانب سے وی پی این کے استعمال کا اعتراف کیا. لیکن جب جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ یہ تو غیر قانونی ہے، تو انہوں نے تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ابھی بتایا گیا ہے کہ اتھارٹی وی پی این استعمال نہیں کر رہی۔اس موقع پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ آپ یہاں کیا لینے آئے ہیں.آپ کو خود نہیں پتا اور آپ اتنا بڑا بیان دے گئے۔جسٹس فاروق حیدر نے دریافت کیا کہ کیا وی پی این کو بلاک کیا جا سکتا ہے. جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ اسے فوری طور پر تو نہیں لیکن کچھ عرصے میں بند کر سکتے ہیں۔چیف جسٹس عالیہ نیلم منیر نے کہا کہ ایک سال ہو گیا ہے آپ نے کچھ نہیں کیا، آپ ابھی پھر ایک ماہ کا کہہ رہے ہیں۔جسٹس فاروق حیدر نے دریافت کیا کہ اگر ایکس کو بند کرنا تھا تو وی پی این کیسے چل رہا ہے۔چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق وی پی این سافٹ ویئر، بینکس سمیت فری لانسنگ میں استعمال ہوتا ہے۔اس موقع پر جسٹس علی ضیا باجوہ بولے ہمارا سادہ سا سوال ہے کہ پی ٹی اے نے ایکس بلاک کیا اور پی ٹی اے خود بھی چلا رہا ہے۔وکیل وفاقی حکومت نے موقف اختیار کیا کہ وی پی این کا استعمال کسی حد تک قانونی بھی ہے۔چیف جسٹس نے وی پی این کے ایکس پر استعمال کی بابت دریافت کیا تو چیئرمین پی ٹی اے بولے میں صحیح ڈیٹا اس وقت نہیں بتا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اتنی بڑی سیٹ پر بیٹھے ہیں لیکن آپ کے پاس ڈیٹا ہی نہیں۔ جسٹس علی ضیا باجوہ بولے کہ چیئرمین پی ٹی اے نے خود کہا ہے اگر عدالت حکم کرے تو ایکس فوراً کھول دیں گے۔جس پر چیئرمین پی ٹی اے کا موقف تھا کہ عدالت حکم کرے تو ایکس فوری طور پر کھول دیا جائے گا۔اس موقع پر جسٹس علی ضیا باجوہ بنے کہا کہ اس کا مطلب ہے پی ٹی اے سے غلط کام ہوگیا ہے اور اب آپ سہارا ڈھونڈ رہے ہیں، رولز کے تحت کسی حد تک کونٹینٹ کو بلاک کیا جا سکتا ہے لیکن پلیٹ فارم کو بند نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا کہ آپ ایکس کا غیر مناسب استعمال روک سکتے ہیں مگر ایکس کو بلاک نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری کیوں نہیں کی۔چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے کو طلب کرنے پر مایوسی ہوئی انہیں معاملات کا کچھ علم نہیں، ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں. بینچ کا وقت ضائع کرنے پر کیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔لاہور ہائیکورٹ نے مزید کارروائی 8 اپریل تک ملتوی کردی۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ:
پر چیئرمین پی ٹی اے
چیئرمین پی ٹی اے نے
جسٹس علی ضیا باجوہ
کا کہنا تھا کہ
وفاقی حکومت
کیا جا سکتا
چیف جسٹس نے
نے بتایا کہ
نے کہا کہ
رہے ہیں
نہیں کی
کیا کہ
پڑھیں:
کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کی درخواست پر سماعت
لاہور: ہائی کورٹ میں کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کے لیے درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے پی ٹی اے سمیت دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے شہری اعظم بٹ کی درخواست پر سماعت کی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ بچے فیس بک اور ٹک ٹاک پر نامناسب مواد دیکھتے ہیں، جس سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا پر سسٹم موجود ہے کہ بچوں کی رسائی کو محدود کر سکتے ہیں۔ والدین بچوں کے سوشل میڈیا تک رسائی کو چیک کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک بھی والدین ایسی ہی رسائی رکھتے ہیں ۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اس پر کیا کہیں گے؟، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ انہوں نے پٹیشن میں فریق ہی غلط بنایا ہے۔ حکومت پاکستان کو فریق بنانا چاہیے تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر انہوں نے پی ٹی اے کو درخواست دی ہے تو ان سے پتا کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔ کمیشن کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کر سکیں۔