Express News:
2025-06-09@12:47:18 GMT

اور کھانا کھل گیا!

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

(تحریر: سہیل یعقوب)

آپ نے اکثر شادی کی تقاریب میں یہ آواز سنی ہوگی کہ کھانا کھل گیا ہے۔ اس کے بعد کے جو مناظر ہوتے ہیں اس پر وثوق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ کھانا کھل گیا ہے یا لوگ کھول دیے گئے ہیں۔ آج کل تو ویسے بھی رمضان المبارک کا مہینہ ہے، سحری اور افطار میں بڑے بڑے ہوٹلوں اور کلبوں میں بھی اب یہ مناظر عام طور پر نظر آنے لگے ہیں۔

ویسے بھی اس تحریر کی تحریک فیصل مسجد میں افطار کی ایک ویڈیو بنی ہے جس میں لوگوں کو باقاعدہ افطار یا کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد اس ویڈیو کا ایک فرض فعل کی طرح تمام گروپ میں اشتراک کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ میں نے اس ویڈیو کے جواب میں یہ تحریر کیا تھا کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ ویڈیو اصلی ہے یا جھوٹی لیکن جب قوم کی تربیت ہی نہ کی گئی ہوں تو بھوک میں لوگوں کا یہ ردعمل خاصا فطری نظر آتا ہے۔ اس لیے برائے مہربانی اس ویڈیو کا اشتراک روکا جائے اور جو کوئی اس کا اشتراک کرے اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کیونکہ افطار کے نام پر یہ ہمارے مذہبی شعار کی تضحیک کے مترادف ہے۔

ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور عام طور پر تمام ہی بچوں کو اس درسگاہ سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ کھانا ضرورت کے مطابق اپنی رکابی میں لو اور آخر اپنی پلیٹ کو مکمل طور پر صاف کرو۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر لکھا گیا تھا کہ ہم پانی پوری کھانے جاتے ہیں تو پوریاں ختم ہونے پر پانی بھی پی جاتے ہیں لیکن دعوتوں میں کھانے کا جو ضیاع دیکھنے کو ملتا ہے اس پر دل کڑھتا ہے۔

لوگوں کا یہ ضرورت سے زیادہ کھانا لینا ہی اصل فساد کی جڑ ہے کہ جس کے بعد وہ طوفان بدتمیزی شروع ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ چاہے کھانا لینا ہو یا راشن، ہم قطار کے بجائے اپنے زور بازو پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کا نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا ہے۔ ایک پڑوسی اسلامی ملک کی تصویر اشتراک کی گئی تھی کہ جہاں راشن میدان میں رکھا ہوا تھا اور لوگ آکر اپنی ضرورت کا سامان لے جاتے تھے، نہ کوئی دھکم پیل اور نہ کوئی تصویر کا جھنجھٹ۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوسکتا؟

اسکول کو عام طور پر دوسری درسگاہ قرار دیا جاتا ہے لیکن آج کل کے تجارتی ماحول میں انگریزی سکھانا کاروباری ضرورت ہے لیکن تربیت کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں۔ نہ اساتذہ کی اور نہ ہی والدین کی یہ ترجیح ہے۔ وائس آف امریکا کی ستمبر 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہے۔ ایسے ماحول میں مسجد کا منبر ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے لیکن وہاں سے بھی ماضی کے قصے کہانیوں کا پرچار ہوتا ہے اور قوم کے آج کے مسائل پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔

کسی بھی قوم کا مزاج جاننا ہو تو اس کی سڑکوں پر ٹریفک کا نظام دیکھ لیجیے یا پھر دعوتوں میں ان کے کھانے کے انداز دیکھ لیجیے۔ بدقسمتی سے ان دونوں مواقع پر ہمارے اطوار نہ صرف ناقابل تقلید بلکہ ناقابل نظارہ ہوتے ہیں۔ کہیں تو من حیث القوم ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے کہ جس میں ہمارے حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب کی دلچسپی ملین ڈالر میں ہے۔

کچھ بنیادی باتوں کی جانب اس تحریر میں آگہی کی سعی کی گئی ہے۔ ہمارے یہاں سیڑھیوں پر لوگ آمنے سامنے آجاتے ہیں حالانکہ اس کا طریقہ بہت سادہ ہے آپ چاہے سیڑھیاں چڑھ رہے ہوں یا اتر رہے ہوں آپ بائیں طرف رہیں کبھی ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ سڑک پر پیدل چلتے ہوئے بچوں اور عورتوں کو سڑک کی جانب نہیں ہونا چاہیے۔ سب سے اہم بات اگر ہم قطار کی پابندی سیکھ لیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ قطار توڑنا کسی کا حق غصب کرنے کے مترادف ہے۔ اب اگر لوگ دعوتوں میں قطار میں رہیں اور صرف اتنا کھانا لیں جو ان کی ضرورت کے مطابق ہو، تو یہ سارا نظام ایک الگ تصویر دے گا بلکہ ایک حقیقی تصویر دے گا کہ جو اس قوم کی ہونی چاہیے۔

آخر میں حکومت کےلیے ایک تجویز کہ جہاں حکومت اتنے اچھے اقدامات کررہی ہے، وہاں قوم کی تربیت کےلیے ایک ٹیلی ویژن چینل کا آغاز کرے۔ ویسے بھی اس وقت ملک بہت سارے فضول چینلز ہیں، اگر ایک تعلیمی چینل کا آغاز ہوجائے تو قوم کی تربیت بھی ہوسکتی ہے۔

بہت عرصے پہلے امریکا میں بچوں کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس کا نام تھا Barney & Friends یہ پروگرام اتنا دلچسپ ہوتا تھا کہ بچوں کے ساتھ بڑے بھی اس کو یکساں دلچسپی سے دیکھتے تھے اور سب مل کر تربیت حاصل کرتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی کسی زمانے میں کلیاں اسی قسم کا پروگرام ہوا کرتا تھا۔ ہرچند کہ اب فاروق قیصر ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن اس طرز پر فضول نہیں بلکہ دلچسپ پروگرام ضرور بنائے جاسکتے ہیں۔ ہمارا کام آگہی دینا تھا اور حل بتانا تھا، سو ہم نے کیا۔ اب آگے حکومت جانے اور ان کی ترجیحات جانے کہ قوم کی تربیت ان کی ترجیحات میں ہے یا نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قوم کی تربیت ہے لیکن گیا ہے سے بھی

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • عاقب جاوید کا ویمنز کرکٹ اور نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے اہم اعلان
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں، مرتضیٰ وہاب
  • آغا سید جعفر نقوی، روحانی تربیت کا روشن چراغ
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں: مرتضیٰ وہاب
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • عید الاضحیٰ فکر، قربانی اور اتحاد کا مقدس وقت ہے،دعا ہے یہ مبارک موقع ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دے: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور پاک افواج کا پاکستانی عوام کے نام پیغام
  • بس اب بہت ہو چکا
  • تحریک انصاف سیاسی جماعت ، ہمارے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں ، بیرسٹر گوہر