UrduPoint:
2025-05-28@22:37:04 GMT

بلوچستان، عید پر آنا جانا کیسے؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

بلوچستان، عید پر آنا جانا کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مارچ 2025ء) یہ اگست 2024 کی بات ہے، راقم کوئٹہ سے اسلام آباد ایک پرائیویٹ کوچ سروس سے سفر کر رہی تھی۔ کوئٹہ سے بمشکل دو گھنٹے کے سفر کے بعد کوچ ایک دشوار پہاڑی علاقے میں رک گئی، جہاں موبائل سنگلز بھی دستیاب نہیں تھے۔

شام سات بجے روڈ بلاک ہونے کے بعد بسوں اور ٹرکوں کی ایک طویل قطار لگ چکی تھی۔

تقریبا نو گھنٹے کے اعصاب شکن انتظار کے بعد رات چار بجے راستہ صاف ہوا اور یوں تیرہ گھنٹے کا سفر بائیس گھنٹے میں طے ہوا۔

اسلام آباد پہنچتے ہی چند ہوش ربا انکشافات میرے منتظر تھے۔ اس رات بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں مبینہ طور پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے پنجاب سے بلوچستان آنے والی درجن بھر بسوں کو روک لیا تھا۔

(جاری ہے)

مسافروں کے شناختی کارڈز دیکھ کر پنجابیوں کو الگ کیا گیا اور 33 مسافروں کو جھاڑیوں میں لے جا کر گولی مار دی گئی۔ اس ظلم و بر بریت کے باعث بلوچستان سے پنجاب جانے والی تمام ٹریفک رات بھر بلاک رہی۔

ایسے متعدد واقعات کے باعث گزشتہ سات ماہ میں بلوچستان سے پنجاب اور سندھ کوچ سروس متعدد بار مکمل بند ہوئی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں بتیا تھا کہ گزشتہ دو ماہ میں بلوچستان میں مظاہرین کی جانب سے سڑکیں بند کرنے کے 76 واقعات رونما ہوئے ہیں جبکہ بی ایل اے کے عسکریت پسندوں کی جانب سے قومی شاہراہیں بند کرنے کے واقعات الگ ہیں۔

شاہد رند نے یہ بھی بتایا کہ صوبے بھر میں سڑکوں پر احتجاج کرنے پر دفعہ 144 نافذ ہے اور صوبائی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ تمام شاہراہیں ٹریفک کے لیے بحال رہیں۔ البتہ جعفر ایکسپریس حملے اور نوشکی میں حالیہ بم دھماکے کے بعد بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال مزید کشیدہ ہو چکی ہے۔ یہ تحریر لکھتے وقت گزشتہ چوبیس گھنٹے سے کوئٹہ میں موبائل انٹر نیٹ بھی بند ہے۔

ٹرین سروس کی بحالی کب ممکن ہو گی؟

گیارہ مارچ کو بلوچستان کے ضلع کچھی میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر بے ایل اے کے عسکریت پسندوں کے حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کے واقعے کے بعد سے کوئٹہ سے اندرون ملک ٹرین سروس معطل ہے۔ کوئٹہ ریلوے حکام کے مطابق بم دھماکے سے تباہ ہونے والے ٹریک کی مرمت کی جا چکی ہے مگر ٹرین سروس سکیورٹی کلیئرنس کے بعد ہی بحال کی جائے گی۔

30 سالہ زینب ( تبدیل شدہ نام) کوئٹہ کے علاقے سٹیلائٹ ٹاؤن کی رہائشی ہیں۔ وہ 11 مارچ کو حملے کا شکار ہونے والی بد قسمت ٹرین سے سفر کر رہی تھیں اور اپنے بھائی اور بیٹے کے ساتھ فیصل آباد جا رہی تھیں۔ زینب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حملے کے بعد شدید دھماکے اور فائرنگ کے مناظر اس قدر خوفناک تھے کہ وہ ابھی تک خوفزدہ ہیں۔

زینب بتاتی ہیں کہ فائرنگ تھمنے کے بعد تمام مسافروں کی شناخت کی گئی۔

ان کے 32 سالہ بھائی انھیں فیصل آباد سے لینے آئے تھے اور وہ عید منانے کے لیے اپنے میکے جا رہی تھیں۔ زینب کے مطابق عسکریت پسندوں نے انہیں اور بیٹے کو فورا ہی چھوڑ دیا تھا مگر ان کے بھائی جن کا شناختی کارڈ پنجاب کا تھا، انہیں روک لیا تھا۔

زینب رہا ہونے والے دوسرے مسافروں کے ساتھ اسی روز شام پنیر اسٹیشن تک پہنچیں، جہاں سے فرنٹیئر کور (ایف سی) نے انہیں ریسکیو ٹرین میں بٹھایا۔

وہ بتاتی ہیں کہ اللہ کا بہت کرم ہوا اور دوسرے دن ان کے بھائی بھی بخیریت کوئٹہ پہنچ گئے، جو بعد ازاں ہوائی جہاز سے فیصل آباد روانہ ہوئے۔ زینب کہتی ہیں کہ وہ اتنی خوفزدہ ہیں کہ ایک طویل عرصے تک وہ ٹرین سے سفر نہیں کر سکیں گی جبکہ بائی روڈ سفر بھی محفوظ نہیں ہے۔

بابر علی کریسنٹ ٹریکنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کوئٹہ میں چیف ٹریکنگ آفیسر ہیں۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال اور سڑکوں کی بندش سے ان کی کمپنی کا کام تو زیادہ متاثر نہیں ہوا مگر ان کے کلائنٹس جو زیادہ تر ٹرانسپورٹرز ہیں، ان کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ آمدورفت کی بسوں اور گڈز ٹرانسپورٹ کے ٹرکوں میں ان کی کمپنی کے ٹریکر لگے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ذاتی استعمال کی کاروں اور گاڑیوں میں بھی ان کے ٹریکر ہوتے ہیں۔

آئے روز سڑکوں اور قومی شاہراہوں کی بندش سے پرائیویٹ بسوں اور گڈز ٹرانسپورٹ کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔

بابر علی کہتے ہیں کہ عید قریب ہے اور ہر سال رمضان کے آخری عشرے تک ٹرینوں اور بسوں میں مسافروں کا بہت رش ہوا کرتا تھا اور عید اسپیشل ٹرین بھی چلائی جاتی تھی۔ فی الوقت کوئٹہ سے ٹرین سروس کی بحالی کی باتیں کی جا رہی ہیں مگر تازہ بم دھماکوں کے بعد سکیورٹی کلیئرنس ملنا مشکل ہے۔

ظاہر ہے ایسے حالات میں عید کے موقع پر کوئٹہ آنے والے یا یہاں سے دوسرے شہروں کو جانے والے افراد سفر کا رسک ہر گز نہیں لیں گے۔ کوئٹہ سے ہوائی سفر کی مشکلات

بابر علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کام کے سلسلے میں انہیں اکثر پنجاب و سندھ کا سفر کرنا پڑتا ہے لیکن اب وہ ہوائی جہاز سے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مطابق کوئٹہ سے اندرون ملک فلائٹس کی تعداد پہلے ہی بہت کم تھی۔

صوبے میں موجودہ خراب حالات کے باعث رش بڑھ گیا ہے مگر فلائٹس کی تعداد نہیں بڑھائی جا رہی۔

عبد الرحیم شہباز ٹاؤن کوئٹہ کے رہائشی ہیں۔ انہیں کاروبار کے سلسلے میں ہر ہفتے کراچی یا لاہور جانا ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شاہراہوں کی بندش اور عسکریت پسندوں کی بڑھتی کارروائیوں کے باعث اب وہ ہوائی جہاز سے ہی سفر کر رہے ہیں۔

مگر گزشتہ چند ماہ سے ہوائی ٹکٹ کے کرایوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔

وہ بتاتے ہیں سب سے زیادہ کرایہ کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد کی فلائٹس کا لیا جا رہا ہے، جو 50 سے 70 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی یہ کرایہ متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔

عبد الرحیم کے مطابق کوئٹہ سے کراچی شاہراہ سفر کے لیے ویسے ہی شدید خطرناک ہو چکی ہے، جہاں ہر ماہ دو یا تین حادثے اب معمول بن گئے ہیں جبکہ حالیہ ٹرین حملے کے بعد ٹرین کا سفر بھی محفوظ نہیں رہا۔

بلوچستان کے باسی خود کو "محصور" محسوس کر رہے ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔

اس حوالے سے بابر علی کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کی رٹ قائم کرنا حکومتی اداروں جیسے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی اور موٹرویز پولیس یا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹس کا کام ہے۔ انہیں اس حوالے سے سختی کرنے اور نئے معیاری ضابطہ کار (ایس او پیز) بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سڑکیں اور شاہراہیں ہرحال میں کھلی رہیں اور عوام کی سفر سے متعلق مشکلات میں کچھ کمی آئے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عسکریت پسندوں اسلام آباد بابر علی کے مطابق کوئٹہ سے رہی تھی کے باعث ہیں کہ کے بعد جا رہی

پڑھیں:

جو جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں آزاد کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ آئینی بینچ کے پہلی براہ راست سماعت میں ریمارکس

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے براہ راست نشر کی جانے والی پہلی سماعت میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سنتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہوسکتے ہیں؟ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں۔

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے پہلی مرتبہ براہ راست نشر کی جانے والی سماعت میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستیں سنیں۔

درخواست گزار وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعوی کیا؟ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہوسکتے ہیں، جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہوسکتے ہیں؟ آزاد ارکان نے جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہونا تھا۔

مخدوم علی خان نے موقف اپنایا سنی اتحاد کونسل کے مطابق آزاد امیدوار ان کی ساتھ شامل ہوگئے تھے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتحابات میں حصہ لیا تھا؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، سنی اتحاد کونسل نے عام الیکشن لڑا ہی نہیں۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت بن سکتی تھی لیکن مخصوص نشستوں کے حقدار نہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو متفقہ طور پر مسترد کیا گیا، مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا، ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں کیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا، عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹی فیکیشن تھا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ نوٹی فیکیشن سے اگر کوئی متاثرہ ہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا، عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 225 کا ذکر تک نہیں ہے، آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ مخصوص نشتوں کا معاملہ تھا، مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذات نامزدگی پر غلطی پر معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی دلیل مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا، مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے، عدالتی فیصلہ موجود ہے کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا، عدالت کی ذمہ داری ہے اس غلطی کو درست کیا جائے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھیں کہ فیصلہ درست ہے، نظر ثانی درست نہیں، ایسی صورتحال بنے تو کیا ہوگا؟ مخدوم علی خان نے کہا ایسی صورت میں نظر ثانی مسترد ہو جائے گی۔

دوران سماعت جسٹس شاہد بلال نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی؟ کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جاسکتی ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں، جسٹس یحیی آفریدی نے کہا تھا پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس وقت الیکشن کمیشن کے کردار کو بھی ہم نے دیکھنا تھا، میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے، الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ میرے فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کرکے نشستیں دینے کا کہا گیا تھا، کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ اور پارٹی وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا۔

مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کیا گیا، 41 لوگوں کو وقت دیا گیا کہ وہ 15 دن میں کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں، جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے متعلق لکھا کہ آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کیا جاسکتا، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی لکھا کہ ٹائم لائن کی قانونی شرائط پوری کرنا لازمی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 187 کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے، مکمل انصاف آئین کی ایک شق ہے جس میں سپریم کورٹ کسی تنازع پر مکمل انصاف کرتی ہے، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرکے تیسرے فریق کو جو عدالت کے سامنے نہ ہو ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے یہ سپریم کورٹ ہے سول کورٹ نہیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ کل کو یہ عدالت مالک مکان اور کرایہ دار کے تنازع پر مکمل انصاف کرکے تیسرے فریق کو ریلیف دے؟ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کرایہ دار اور مالک مکان کا تنازع ذاتی نوعیت کا ہے، یہاں عوام کے حق رائے دہی کا معاملہ تھا، مخدوم علی خان نے کہا اپنے اقلیتی فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس یحیی آفریدی نے لکھا کہ مکمل اختیار اہم معاملہ ہے، احتیاط سے استعمال کیا جائے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار مجوزہ طریقہ کار کو ختم کرسکتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی، سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی امیدوار لڑتے ہیں، انتخابی نشان عوام کی آگاہی کے لیے ہوتا ہے، انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جاسکتا، سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس میں مزید کہا کہ پریزائیڈنگ افسران نے فارم 33 درست طریقے سے نہیں بنائے، آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا یہ عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے دائرہ اختیار میں تھی، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہ اختیار جو کہ 184/3 کا ہے، میں نہیں سنا، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ مخدوم علی خان صاحب مجھے سمجھنے میں مسئلہ آرہا ہے، سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی، سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا، تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر کیسے نشستیں دی جاسکتی ہیں؟

مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ اکثریتی فیصلے میں مکمل انصاف کے ساتھ نظریہ آئینی وفاداری بھی استعمال کیا گیا، آئین سے وفاداری کے نظریے کی بات جذباتی لگتی ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا پشاور ہائیکورٹ یا الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج کیے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج نہیں کیے تھے، مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا، نظرثانی درخواستیں منظور کی جائیں، نظرثانی کیس میں عدالت اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا میں مخصوص نشستوں کے کیس کا اپنا فیصلہ بدل سکتا ہوں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بالکل آپ اپنی رائے بدل سکتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ زبان ایک ہوتی ہے مگر رائے تو بدل سکتے ہیں۔

مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اپنے تحریری دلائل جمع کرا چکے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ ہم نے بھی تحریری دلائل جمع کرا دیے ہیں، پیپلز پارٹی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ پیپلزپارٹی کل تحریری دلائل جمع کرا دے گی۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ تحریری جوابات جمع کرا کے یہ جواب الجواب کا حق ختم کر چکے ہیں جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم جواب الجواب دیں گے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ جواب الجواب کا حق دینا ہے یا نہیں، کل سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے، عدالت نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • بانیٔ پی ٹی آئی کو گزشتہ عید سے پہلے باہر آ جانا چاہیے تھا: بیرسٹر سیف
  • مال بردار ٹرین 15 جون سے روس تک جائے گی، وزیر ریلوے
  • بلوچستان؛ ریگستانی علاقے میں راستہ بھٹکنے والے 2 افراد کی  لاشیں برآمد
  • جسٹس ڈوگر کا لاہور ہائیکورٹ میں سینیارٹی لسٹ میں 15واں نمبر تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سینیارٹی کیسے اور کس اصول کے تحت دی گئی،جسٹس نعیم اختر افغان
  • جو جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں آزاد کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں: ججز آئینی بینچ
  • 20مئی کو کالعدم تنظیم نے مورومیں احتجاج کیا، جسقم ٹرین حملوں، بم دھماکوں میں ملوث رہی، شرجیل میمن
  • پی ٹی سی ایل اربوں روپے کی پراپرٹیز کیسے فروخت کررہی ہے؟.قائمہ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام
  • کوئٹہ، گورنر فیصل کنڈی اور سرفراز بگٹی کی اے پی ایس خضدار کے زخمیوں کی عیادت
  • جو جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں آزاد کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ آئینی بینچ کے پہلی براہ راست سماعت میں ریمارکس
  • جو جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں آزاد کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ سنی اتحادکونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں، ججز آئینی بینچ