UrduPoint:
2025-11-05@00:59:11 GMT

بلوچستان، عید پر آنا جانا کیسے؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

بلوچستان، عید پر آنا جانا کیسے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مارچ 2025ء) یہ اگست 2024 کی بات ہے، راقم کوئٹہ سے اسلام آباد ایک پرائیویٹ کوچ سروس سے سفر کر رہی تھی۔ کوئٹہ سے بمشکل دو گھنٹے کے سفر کے بعد کوچ ایک دشوار پہاڑی علاقے میں رک گئی، جہاں موبائل سنگلز بھی دستیاب نہیں تھے۔

شام سات بجے روڈ بلاک ہونے کے بعد بسوں اور ٹرکوں کی ایک طویل قطار لگ چکی تھی۔

تقریبا نو گھنٹے کے اعصاب شکن انتظار کے بعد رات چار بجے راستہ صاف ہوا اور یوں تیرہ گھنٹے کا سفر بائیس گھنٹے میں طے ہوا۔

اسلام آباد پہنچتے ہی چند ہوش ربا انکشافات میرے منتظر تھے۔ اس رات بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں مبینہ طور پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) کے عسکریت پسندوں نے پنجاب سے بلوچستان آنے والی درجن بھر بسوں کو روک لیا تھا۔

(جاری ہے)

مسافروں کے شناختی کارڈز دیکھ کر پنجابیوں کو الگ کیا گیا اور 33 مسافروں کو جھاڑیوں میں لے جا کر گولی مار دی گئی۔ اس ظلم و بر بریت کے باعث بلوچستان سے پنجاب جانے والی تمام ٹریفک رات بھر بلاک رہی۔

ایسے متعدد واقعات کے باعث گزشتہ سات ماہ میں بلوچستان سے پنجاب اور سندھ کوچ سروس متعدد بار مکمل بند ہوئی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں بتیا تھا کہ گزشتہ دو ماہ میں بلوچستان میں مظاہرین کی جانب سے سڑکیں بند کرنے کے 76 واقعات رونما ہوئے ہیں جبکہ بی ایل اے کے عسکریت پسندوں کی جانب سے قومی شاہراہیں بند کرنے کے واقعات الگ ہیں۔

شاہد رند نے یہ بھی بتایا کہ صوبے بھر میں سڑکوں پر احتجاج کرنے پر دفعہ 144 نافذ ہے اور صوبائی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ تمام شاہراہیں ٹریفک کے لیے بحال رہیں۔ البتہ جعفر ایکسپریس حملے اور نوشکی میں حالیہ بم دھماکے کے بعد بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال مزید کشیدہ ہو چکی ہے۔ یہ تحریر لکھتے وقت گزشتہ چوبیس گھنٹے سے کوئٹہ میں موبائل انٹر نیٹ بھی بند ہے۔

ٹرین سروس کی بحالی کب ممکن ہو گی؟

گیارہ مارچ کو بلوچستان کے ضلع کچھی میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی مسافر ٹرین جعفر ایکسپریس پر بے ایل اے کے عسکریت پسندوں کے حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کے واقعے کے بعد سے کوئٹہ سے اندرون ملک ٹرین سروس معطل ہے۔ کوئٹہ ریلوے حکام کے مطابق بم دھماکے سے تباہ ہونے والے ٹریک کی مرمت کی جا چکی ہے مگر ٹرین سروس سکیورٹی کلیئرنس کے بعد ہی بحال کی جائے گی۔

30 سالہ زینب ( تبدیل شدہ نام) کوئٹہ کے علاقے سٹیلائٹ ٹاؤن کی رہائشی ہیں۔ وہ 11 مارچ کو حملے کا شکار ہونے والی بد قسمت ٹرین سے سفر کر رہی تھیں اور اپنے بھائی اور بیٹے کے ساتھ فیصل آباد جا رہی تھیں۔ زینب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ حملے کے بعد شدید دھماکے اور فائرنگ کے مناظر اس قدر خوفناک تھے کہ وہ ابھی تک خوفزدہ ہیں۔

زینب بتاتی ہیں کہ فائرنگ تھمنے کے بعد تمام مسافروں کی شناخت کی گئی۔

ان کے 32 سالہ بھائی انھیں فیصل آباد سے لینے آئے تھے اور وہ عید منانے کے لیے اپنے میکے جا رہی تھیں۔ زینب کے مطابق عسکریت پسندوں نے انہیں اور بیٹے کو فورا ہی چھوڑ دیا تھا مگر ان کے بھائی جن کا شناختی کارڈ پنجاب کا تھا، انہیں روک لیا تھا۔

زینب رہا ہونے والے دوسرے مسافروں کے ساتھ اسی روز شام پنیر اسٹیشن تک پہنچیں، جہاں سے فرنٹیئر کور (ایف سی) نے انہیں ریسکیو ٹرین میں بٹھایا۔

وہ بتاتی ہیں کہ اللہ کا بہت کرم ہوا اور دوسرے دن ان کے بھائی بھی بخیریت کوئٹہ پہنچ گئے، جو بعد ازاں ہوائی جہاز سے فیصل آباد روانہ ہوئے۔ زینب کہتی ہیں کہ وہ اتنی خوفزدہ ہیں کہ ایک طویل عرصے تک وہ ٹرین سے سفر نہیں کر سکیں گی جبکہ بائی روڈ سفر بھی محفوظ نہیں ہے۔

بابر علی کریسنٹ ٹریکنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کوئٹہ میں چیف ٹریکنگ آفیسر ہیں۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال اور سڑکوں کی بندش سے ان کی کمپنی کا کام تو زیادہ متاثر نہیں ہوا مگر ان کے کلائنٹس جو زیادہ تر ٹرانسپورٹرز ہیں، ان کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ آمدورفت کی بسوں اور گڈز ٹرانسپورٹ کے ٹرکوں میں ان کی کمپنی کے ٹریکر لگے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ذاتی استعمال کی کاروں اور گاڑیوں میں بھی ان کے ٹریکر ہوتے ہیں۔

آئے روز سڑکوں اور قومی شاہراہوں کی بندش سے پرائیویٹ بسوں اور گڈز ٹرانسپورٹ کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔

بابر علی کہتے ہیں کہ عید قریب ہے اور ہر سال رمضان کے آخری عشرے تک ٹرینوں اور بسوں میں مسافروں کا بہت رش ہوا کرتا تھا اور عید اسپیشل ٹرین بھی چلائی جاتی تھی۔ فی الوقت کوئٹہ سے ٹرین سروس کی بحالی کی باتیں کی جا رہی ہیں مگر تازہ بم دھماکوں کے بعد سکیورٹی کلیئرنس ملنا مشکل ہے۔

ظاہر ہے ایسے حالات میں عید کے موقع پر کوئٹہ آنے والے یا یہاں سے دوسرے شہروں کو جانے والے افراد سفر کا رسک ہر گز نہیں لیں گے۔ کوئٹہ سے ہوائی سفر کی مشکلات

بابر علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کام کے سلسلے میں انہیں اکثر پنجاب و سندھ کا سفر کرنا پڑتا ہے لیکن اب وہ ہوائی جہاز سے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مطابق کوئٹہ سے اندرون ملک فلائٹس کی تعداد پہلے ہی بہت کم تھی۔

صوبے میں موجودہ خراب حالات کے باعث رش بڑھ گیا ہے مگر فلائٹس کی تعداد نہیں بڑھائی جا رہی۔

عبد الرحیم شہباز ٹاؤن کوئٹہ کے رہائشی ہیں۔ انہیں کاروبار کے سلسلے میں ہر ہفتے کراچی یا لاہور جانا ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شاہراہوں کی بندش اور عسکریت پسندوں کی بڑھتی کارروائیوں کے باعث اب وہ ہوائی جہاز سے ہی سفر کر رہے ہیں۔

مگر گزشتہ چند ماہ سے ہوائی ٹکٹ کے کرایوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔

وہ بتاتے ہیں سب سے زیادہ کرایہ کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد کی فلائٹس کا لیا جا رہا ہے، جو 50 سے 70 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی یہ کرایہ متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔

عبد الرحیم کے مطابق کوئٹہ سے کراچی شاہراہ سفر کے لیے ویسے ہی شدید خطرناک ہو چکی ہے، جہاں ہر ماہ دو یا تین حادثے اب معمول بن گئے ہیں جبکہ حالیہ ٹرین حملے کے بعد ٹرین کا سفر بھی محفوظ نہیں رہا۔

بلوچستان کے باسی خود کو "محصور" محسوس کر رہے ہیں اور ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔

اس حوالے سے بابر علی کہتے ہیں کہ گورنمنٹ کی رٹ قائم کرنا حکومتی اداروں جیسے نیشنل ہائی ویز اتھارٹی اور موٹرویز پولیس یا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹس کا کام ہے۔ انہیں اس حوالے سے سختی کرنے اور نئے معیاری ضابطہ کار (ایس او پیز) بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سڑکیں اور شاہراہیں ہرحال میں کھلی رہیں اور عوام کی سفر سے متعلق مشکلات میں کچھ کمی آئے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عسکریت پسندوں اسلام آباد بابر علی کے مطابق کوئٹہ سے رہی تھی کے باعث ہیں کہ کے بعد جا رہی

پڑھیں:

عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے سنجاوی میں اتوار کو اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کے ہر کونے میں جانے کو تیار ہوں، وسائل کی کمی ہو تو پیدل بھی عوام تک پہنچوں گا.

انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل اور مسائل سب کے سامنے ہیں مگر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح وسائل کے شفاف اور درست استعمال کو یقینی بنانا ہے, جو وعدہ کیا وہ پورا کیا ہے، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے سنجاوی کو ترقی کے نقشے پر نمایاں کرنے کیلئے فوری طور پر کئی بڑے اعلانات کیے جو علاقے کی صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کو انقلابی تبدیلی دیں گے۔

انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال سنجاوی کو 20 بستروں پر مشتمل مثالی طبی ادارے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسپتال کو بیکڑ کی طرز پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت فعال بنایا جائے گا۔

اس موقع پر اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹرز اور عملے سے ملاقات کی اور مریضوں کی فوری سہولیات کیلئے ہدایات جاری کیں تعلیم کے شعبے میں سنجاوی کے بوائز اور گرلز کالجز کیلئے علیحدہ عمارتوں کی تعمیر اور دو بسوں کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیراعلیٰ نے کیڈٹ کالج زیارت میں سنجاوی کے طلبہ کیلئے دو نئے بلاکس اور چار بسوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔

انہوں نے بتایا کہ زیارت کے 14 غیر فعال اسکول موسم سرما کی تعطیلات کے بعد مکمل طور پر فعال ہوں گے جبکہ محکمہ تعلیم میں بھرتیاں سو فیصد میرٹ پر کی جا رہی ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرٹ کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی جائے تو فوری کارروائی یقینی بنائی جائے گی ۔

سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے عوامی مطالبے پر سنجاوی میں چار نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، بائی پاس اور نشاندہی کردہ 15 کلومیٹر نئی سڑک کی تعمیر کا اعلان کیا۔

انہوں نے افسران و اہلکاروں کیلئے نیا انتظامی کمپلیکس تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کو بظاہر غیر مقبول مگر وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیرپا امن کیلئے ضروری ہے لینڈ سیٹلمنٹ کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سنجاوی کیلئے یہ عمل فوری شروع ہوگا جبکہ بلوچستان بھر میں انتظامی حدود کا ازسرنو تعین کیا جا رہا ہے، زیارت میں نئے ضلع کے قیام پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سنجیدہ غور جاری ہے ۔

اجتماع سے قبل وزیراعلیٰ نے استحکام پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں شرکت کی اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کھیلوں کے فروغ کیلئے مزید اقدامات کا وعدہ کیا۔

دورے کے دوران صوبائی وزیر حاجی نور محمد خان ڈمر، پارلیمانی سیکریٹری ولی محمد نورزئی، سردار کوہیار خان ڈومکی اور میر اصغر رند سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔

وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سنجاوی پہنچے جہاں ڈپٹی کمشنر محمد ریاض خان داوڑ نے پرتپاک استقبال کیا عوام نے وزیراعلیٰ کے اعلانات پر زوردار نعرے بازی کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

متعلقہ مضامین

  • معصوم شہریوں کو روندا جانا حکومت و انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت ہے، منعم ظفر خان
  • بلوچستان حکومت کی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد
  • انتظامیہ نے حکومت کی ایماء پر کوئٹہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی، تحریک تحفظ آئین
  • 47فیصد پاکستانیوں نے کبھی ٹرین کا سفر نہیں کیا، سروے میں انکشاف
  • کوئٹہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنیکی حکومت بلوچستان کی درخواست مسترد
  • بلوچستان: صوبائی حکومت کی درخواست مسترد، بلدیاتی انتخاب 28 دسمبر کو ہی ہونگے
  • وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی چلتن گھی مل کیخلاف اقدامات کی ہدایات
  • کوئٹہ: جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمن پریس کانفرنس کررہے ہیں
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان