سوڈانی فوج نے دو برس بعد صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر میں فوج کے خوشی سے جھومتے ہوئے سپاہیوں کو دکھایا گیا ہے جو اپنے ہتھیار لہرا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور نماز کے لیے جھک رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ افریقی مسلم ملک سوڈان کی فوج نے دو سال کی لڑائی کے بعد صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق وسطی خرطوم میں صدارتی محل اور وزارت خارجہ کی عمارت سمیت کئی سرکاری عمارتوں سے آر ایس ایف کے باغیوں کو نکال دیا گیا ہے، دارالحکومت کے مرکزی حصے کا کنٹرول اب فوج کے ہاتھ میں ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق خرطوم میں صدارتی پیرا ملٹری گروپ رپڈ سپورٹ فورسز کے قبضے میں تھا۔ فوجی رہنماؤں نے یہ اطلاع دی ہے کہ فوج نے مرکزی خرطوم میں صدر محل اور وزارتوں کی عمارتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر میں فوج کے خوشی سے جھومتے ہوئے سپاہیوں کو دکھایا گیا ہے جو اپنے ہتھیار لہرا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور نماز کے لیے جھک رہے ہیں۔ یہ ویڈیوز بی بی سی کے ذریعے تصدیق شدہ ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ فوجی فورسز کا حوصلہ بلند ہے۔ فوج کی واپسی ایک ایسی صورتحال میں ہوئی ہے جب دو سال قبل پیرا ملٹری فورسز کے حملے کے بعد سوڈانی فوج کو خرطوم سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم فوجی حکام کے مطابق یہ موقع فوج کے لیے ایک بڑی فتح ثابت ہو سکتا ہے۔ فوج کے ترجمان نبیل عبداللہ نے قومی ٹی وی پر بتایا کہ فوج نے صدر محل اور وزارتوں کی عمارتوں پر مکمل قبضہ کر لیا ہے
انہون نے کہا ہے کہ دشمن کے فوجیوں اور سازو سامان کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم تصدیق کرتے ہیں کہ ہم مکمل فتح تک جنگ جاری رکھیں گے۔ اگر سوڈانی فوج خرطوم پر مکمل طور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ سوڈانی مسلح افواج کے لیے ایک زبردست فتح اور اس تنازعے میں ایک اہم موڑ ہوگا۔ حالیہ ہفتوں میں فوج نے سوڈان کے مرکزی حصوں میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جمعرات کو عینی شاہدین نے صدر محل کے قریب ڈرون حملوں اور فضائی حملوں کی آوازیں سنی۔ ایک ویڈیو پیغام میں رپڈ سپورٹ فورسز کے کمانڈر محمد حمدان دقلو نے صدر محل اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کی حفاظت کرنے کا عہد کیا۔
انہوں نے شمالی سوڈان کے مختلف شہروں پر مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ سوڈان میں متعدد امن کوششیں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ دونوں متحارب گروہ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ وہ اسٹریٹجک علاقے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے۔ اس جنگ نے اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران پیدا کیا ہے، جس میں دونوں فورسز پر وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔ سوڈانی فوج کے مطابق باغی شہر کے رہائشی علاقوں میں چلے گئے ہیں جہاں وہ لوٹ مار کر رہےہیں۔ دو برس پہلے آر ایس ایف کے باغیوں نے صدارتی محل پر قبضہ کرکے متوازی حکومت قائم کی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صدارتی محل سوڈانی فوج کے مطابق محل اور رہے ہیں فوج کے کر رہے کے لیے فوج نے
پڑھیں:
لائن آف کنٹرول پر دراندازی کا بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہو گیا
لائن آف کنٹرول پر دراندازی کا بھارت کا ایک اور جھوٹ بے نقاب ہوگیا. 23 اپریل کو لائن آف کنٹرول کے علاقے سرجیور میں 2 مبینہ دراندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔ذرائع کے مطابق جھوٹا بھارتی دعویٰ بظاہر ایک من گھڑت بیانیے کو پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے. وقت کے تسلسل، زمینی حقائق اور جاری کردہ تصویری شہادتوں میں سنگین تضادات پائے جاتے ہیں .جس واقعے میں 2 افراد کو درانداز قرار دیا جا رہا ہے ان کی شناخت مقامی افراد کے طور پر ہوئی ہے۔ملک فاروق ولد صدیق اور محمد دین ولد جمال الدین گاؤں سجیور کے پُرامن شہری تھے، مارے جانے والے افراد کے لواحقین نے 22 اپریل کی صبح ان کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی تھی. ان افراد کی گمشدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی ممکنہ دراندازی سے پہلے ہی غائب ہو چکے تھے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ذرائع کی جانب سے جاری کردہ تصاویر واضح طور پر بھارت کے مؤقف کو جھٹلا رہی ہے کہ تصویر میں ایک متوفی کی لاش صاف ستھری، چمکتی ہوئی کالی جوتیوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے. یہ لاش دشوار گزار پہاڑی راستے سے دراندازی کرنے والے کی ہرگز نہیں ہو سکتی. مارے جانے والے شخص کے کپڑے بھی حیران کن حد تک صاف ہیں. اس کے ہتھیار پر مٹی یا خون کے نشانات تک نہیں، اس کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر کسی قسم کی لڑائی کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔اسی طرح دوسری لاش کے پاس کسی قسم کا لوڈ بیئرر، اضافی گولہ بارود، پانی کی بوتل، یا کوئی بھی جنگی ساز و سامان موجود نہیں. اگر یہ واقعی ایک درانداز ہوتا تو وہ اس طرح ناپختہ اور غیر محفوظ حالت میں کبھی بھی حرکت نہ کرتا. ایک شخص کے پاس تو صرف پستول ہے جو کہ دراندازی کی کسی بھی فوجی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔مقامی افراد اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پُرامن شہری تھے.ہلاک ہونے والے افراد کا کسی بھی عسکری یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا .بھارتی افواج نے انہیں بے دردی سے قتل کر کے اسے ایک فالس فلیگ آپریشن کا رنگ دے دیا. بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لے۔