عالمی یوم القدس، نارملائزیشن اور مظلوم فلسطینی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بیداری کا سلسلہ جاری ہے، اسی بیداری کے نتیجے میں اسرائیلی عوام بھی اپنے ناجائز حکمرانوں کیخلاف مظاہرے کرتے ہیں۔ افسوس امت مسلمہ کے خوابیدہ سربراہان مملکت و بادشاہان وقت پر ہے کہ جو اس مظلوم ملت کی مدد، حمایت اور ساتھ دینے کے بجائے اسرائیل سے پیار کی پینگیں بڑھانے میں مشغول ہیں اور نارملائزیشن کی پالیسی پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکمران اور مخصوص طبقات بھی اسرائیل کیساتھ اپنے روابط میں کھلتے جا رہے ہیں، ماضی قریب کی طرح حالیہ دنوں مین بھی ایک وفد کی اسرائیلی یاترا کی گونج سنائی دے رہی ہے، جنکو یوم القدس کے روز جواب دینے کیلئے میدان میں للکارنا ہوگا اور انکی منافقت کا پردہ چاک کرنا ہوگا۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
بانی انقلاب اسلامی، رہبر کبیر امام خمینی رضوان اللہ نے فرمایا تھا کہ قبلہ اول، بیت المقدس کی آزادی صرف مسلح جہاد سے ہی ممکن ہے اور مسلمانوں کو چاہیئے کہ ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیلی سرحد پر ڈال دیں تو اسرائیل اس میں ڈوب جائے گا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ اسرائیل کا ناجائز وجود امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی مانند ہے،۔۔۔۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ۔۔۔ اسرائیل کینسر کا ایسا جرثومہ ہے، جسے جسم سے الگ کئے بنا امت مسلمہ کے جسم سے بیماری کا خاتمہ ممکن نہیں، امت مسلمہ کو بیدار اور ہوشیار کرنے کیلئے نیز مظلوم فلسطینیوں کو اپنی مدد، حمایت اور تعاون کا یقین دلانے کیلئے امام خمینی (رح) نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ، جمعۃ الوداع جس کی بہت زیادہ اہمیت ہےو کو یوم القدس قرار دیا تھا۔ اس روز کو پوری امت مسلمہ اور دنیا بھر کے آزادی خواہ گھروں سے باہر نکل کر مظلومین فلسطین کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل آج اپنی سفاکیت کی انتہائوں کو چھو رہا ہے۔ سات اکتوبر 23ء طوفان الاقصیٰ کے بعد سے ہزاروں بے گناہ، نہتے، بچے بوڑھے، خواتین، جوان، اسپتال کے مریضوں، اسکولز کے بچوں تک کو بمباری کا شکار کرتے ہوئے موت کی نیند سلا رہا ہے۔ اسرائیل کی سفاکیت، درندگی اور بدمعاشی کا یہ عالم ہے کہ اس نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔ غزہ اب ایک اجڑی سرزمین ہے۔ کھنڈرات کا ملبہ ہے، قبرستانوں میں دفنانے کو جگہ نہیں رہی اور کفن ناپید ہوچکے ہیں۔ اسپتال، اسکولوز، اقوام متحدہ کے ادارے، امن کی جگہیں سب ہی اس کی وحشت و درندگی کا شکار ہوچکے ہیں۔ حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے دوبارہ سے آگ و بارود کا کھیل، کھیل رہا ہے۔ اسرائیل کی ہر مجرمانہ حرکت کا ذمہ دار امریکہ، یورپ، خائن مسلم حکمران بالخصوص عرب ہیں، جو اس کیساتھ نارملائزیشن کے فارمولے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
اسرائیل روز بروز مقبوضہ علاقوں میں امریکہ اور اپنے دیگر سرپرستوں کی ہلہ شیری سے نئی نئی بستیاں بنا رہا ہے اور اس مقدس سرزمین کے اصل وارثوں کو بے دخل کر رہا ہے، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، انہیں گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے تاراج کیا جاتا ہے، انہیں قید و بند کی صعوبتیں دی جا تی ہیں۔ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں سب کو بلا تمیز تشدد اور ظلم و ستم کا شکار کیا جاتا ہے۔ حقوق انسانی کے عالمی ٹھیکیداروں اور اقوام متحدہ سمیت اسرائیل کی تمام بدمعاشیوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور مظالم کا یہ سلسلہ گذشتہ 77 سال سے زائد عرصہ ہوا جاری ہے۔ ان میں روزانہ اضافہ ہوتا ہے، شقاوت و قساوت اور بے رحمی کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسے سید مقاومت، سالار و سید شہدائے القدس سید حسن نصراللہ نے فرمایا تھا کہ اسرائیل کا وجود مکڑی کے جالے سے بھی کمزور تر ہے، جو ایک کھلی حقیقت ہے کہ حزب اللہ لبنان، فلسطینی مجاہدین نے ایسا اپنے عمل سے ثابت کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب مقبوضہ فلسطین اسرائیل پر یمنی، حماسی، لبنانی یا ایرانی راکٹس اور میزائل گرتے ہیں تو ان کے اندر کتنا خوف اور ڈر ہوتا ہے۔ کیسے بنکرز کی طرف بھاگتے ہیں، ایسا ہی ہے۔ ایک طرف فلسطین کی کئی نسلیں تباہی و بربادی کے یہ مناظر دیکھتے ہوئے جوان ہوئی ہیں اور دوسری طرف بزدل یہودی ہیں، جو ایک دو راکٹ گرنے پر ہی تہہ خانوں میں چھپ جاتے ہیں۔
جبکہ فلسطینیوں نے موت کی آغوش میں، گولیوں اور بم دھماکوں کی گھن گرج میں جینے کاہنر جانتے ہیں اور اس کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ رہبر معظم کی پیشینگوئی میں دیا گیا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ اسرائیل بہت جلد اپنے وجود کو کھو دے گا۔ اس کا خوف تو یمنیوں نے ہی دلوں سے نکال دیا ہے، اس کی جدید فوج اور اسلحہ و ٹیکنالو جی سے لیس ہونے کا ڈر تو یمنی انصاراللہ اور حزب اللہ لبنان نے مٹی میں ملا دیا ہے کہ یمنی دو ہزار کلو میٹر دور سے میزائیل مارتے ہیں اور وہ اسے روک نہیں پاتا، اس کا جدید دفاعی نظام اب بے کار ہے، جب دفاؑعی نظام بے کار ہے تو اس کے وجود کیلئے خطرات ہی خطرات ہیں۔
عالمی یوم القدس:
حضرت امام خمینی (رح) کے فرمان کے مطابق اور رہبر معظم کے حکم پر دنیا بھر کے آزادی پسند عالمی یوم القدس کو شاندار انداز میں برپا کرتے ہیں اور یوم القدس جو یوم اللہ اور یوم رسول اللہ ہے، کے دن گھروں سے نکل کر اسرائیلی سفاکیت، درندگی اور بدمعاشی کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں اور مظلوم فلسطینیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ ہم سب کے دلوں کے حکمران سید مقاومت، شہید سید حسن نصراللہ نے کیا خوب فرمایا تھا کہ اسرائیل کا وجود مکڑی کے جالے سے بھی کمزور تر ہے، مکڑی کے جالے سے ڈرنے والے، حکمرانوں کو ملت لبنان، ملت فلسطین، ملت یمن سے کچھ سبق سیکھنا چاہیئے کہ کیسے وہ اس سفاک جسے عالمی استعمار کی مکمل سرپرستی حاصل ہے، کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس کو جھکنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہزاروں قیدی رہا کرواتے ہیں۔
مقاومت اسلامی پاکستان نے بھی امام خمینی (رح) کے فرمان اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی سرپرستی میں سرزمین پاک پق اسرائیل و امریکہ کے خلاف علم احتجاج بلند کیا اور اسے گرنے نہیں دیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان کے گوش و کنار میں القدس شریف کی نجس پنجوں سے رہائی کی تڑپ رکھنے والے اس روز حالت روزہ میں تمام سختیوں کو جھیلتے ہوئے میدان عمل میں موجود ہونگے۔ ان شاء اللہ اس بار کا یوم القدس، مقاومت اسلامی کے عظیم شہداء، سید حسن نصراللہ شہید، شہید سید ہاشم صفی الدین، شہید یحییٰ سنوار، شہید اسماعیل ہنیہ اور ہزاروں دیگر شہداء جو مظلومین فلسطین کی حمایت میں جانوں سے گزر گئے، ان کو خراج عقیدت پیش کرنے اور دنیا بھر میں ظالموں کا پردہ چاک کرنے کیلئے بھرپور طور سے منایا جائے گا اور امریکہ اور اسرائیل سے نفرین کی جائے گی۔
عالمی یوم القدس کو بھرپور طور پر منانے کیلئے دنیا بھر کے انصاف پسند عوام پیغام دیتے ہیں کہ القدس ہمارا ہے، جسے کسی بھی صورت قابض صیہونیوں کو ہڑپ نہیں کرنے دیا جائے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوم القدس کو عالمی سطح پر منانے سے مظلوم فلسطینیوں کو نئی روح مل جاتی ہے اور مجاہدین کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، وہیں یہودیوں کیلئے یہ دن موت کا پیغام لاتا ہے کہ اس دن امت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کا عہد کرتی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے مقدس مقام کو واپس لیکر رہیں گے۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو مسلمانان عالم سے زیادہ غیر مسلم عوام نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور ضمیر عالم کو جھنجھوڑنے کیلئے بڑے پیمانے پہ مظاہرے کیے ہیں جو امریکہ، یورپی ممالک، انگلینڈ، جرمنی، فرانس اور کینیڈا تک میں ہوئے ہیں۔
یہ سلسلہ بیداری جاری ہے، اسی بیداری کے نتیجے میں اسرائیلی عوام بھی اپنے ناجائز حکمرانوں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔ افسوس امت مسلمہ کے خوابیدہ سربراہان مملکت و بادشاہان وقت پر ہے کہ جو اس مظلوم ملت کی مدد، حمایت اور ساتھ دینے کے بجائے اسرائیل سے پیار کی پینگیں بڑھانے میں مشغول ہیں اور نارملائزیشن کی پالیسی پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکمران اور مخصوص طبقات بھی اسرائیل کیساتھ اپنے روابط میں کھلتے جا رہے ہیں، ماضی قریب کی طرح حالیہ دنوں مین بھی ایک وفد کی اسرائیلی یاترا کی گونج سنائی دے رہی ہے، جن کو یوم القدس کے روز جواب دینے کیلئے میدان میں للکارنا ہوگا اور ان کی منافقت کا پردہ چاک کرنا ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عالمی یوم القدس فرمایا تھا کہ امت مسلمہ کے حقیقت ہے کہ کیا جاتا ہے اسرائیل کی کہ اسرائیل کر رہے ہیں حمایت اور کرتے ہیں دنیا بھر بھی ایک ہیں اور رہا ہے ہے اور اور اس
پڑھیں:
فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-7
جاوید انور
حالات حاضرہ اور عالمی و علاقائی جیو پولیٹکس میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بنایا ہوا نام نہاد امن معاہدہ دراصل فلسطین کے مکمل خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت کا معاہدہ ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اور حماس کو نہتا کرنا اس کی پہلی سیڑھی ہے۔ جس میں اب تک ایک حاصل ہو چکا ہے۔ قطر، مصر، اور ترکی نے حماس کے قائدین کو یرغمال بنا کر جس معاہدے پر دستخط کروائے ہیں، اس میں بھی حماس نے غیر مسلح ہونے کی شرط قبول نہیں کی ہے۔ حماس کے پاس وہ اسرائیلی قیدی جو اسرائیلی بمباری میں عمارتوں کے ملبہ میں دبے ہوئے ہیں، انہیں ہزاروں ٹن ملبے میں ان کی دبی لاشیں نکالنا ناممکن ہے۔ اسرائیل یہ بات پہلے سے سمجھتا ہے۔ وہ حماس کو اس کے ضروری آلات و مشینری بھی مہیا نہیں کر رہا ہے۔ اور انہیں مردہ قیدیوں کی رہائی نہ ہونے پر دوبارہ فلسطین پر حملہ، اور نسل کشی کو جاری رکھنے کا بہانہ بنا رہا ہے۔ اور اب اسے امریکا کو دوبارہ حملے کے لیے منانا رہ گیا ہے۔ اگر یہ کام ہو گیا تو بہت جلد اسرائیلی حملے شروع ہو جائیں گے۔
تاہم اب اسرائیل بالکل ننگا ہو کر دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ اس نے جتنے بھی مظالم اور نسل کشی کو چھپانے کے لیے ساری دنیا میں چادریں تانی تھیں، ان کی مضبوط لابی، سیاست، صحافت، دولت، اور پروپیگنڈے کی تمام مشینری فیل ہو رہی ہے۔ آج اسرائیل کی سب سے زیادہ مخالفت مسلم دنیا میں نہیں بلکہ امریکا، آسٹریلیا اور یورپ میں ہو رہی ہے۔ آزاد انسانوں کا سویا ہوا ضمیر بیدار ہو رہا ہے۔ صہیونی اسرائیل حمایتی اخبار نیو یارک ٹائمز میں بغاوت ہو چکی ہے۔ اس کے تین سو صحافیوں نے اخبار میں لکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور یہ بڑی تعداد ہے۔ ان لوگوں نے کہا ہے کہ جب تک اخبار یہ اداریہ نہ لکھے کہ امریکا اسرائیل کی فوجی امداد بند کرے، وہ اخبار میں واپس نہیں آئیں گے۔ یہ اس صدی کی صحافتی دنیا کی سب سے بڑی خبر ہے۔ 174 سال پرانا یہ اخبار جو واقعات کی پوری تاریخ ریکارڈ کرنے کا اکلوتا دعویٰ دار ہے اور ’’نیوز پیپر آف ریکارڈ‘‘ کہلاتا ہے، اور جس نے اسرائیل کی حمایت کی پالیسی کو باضابطہ ادارہ جاتی پالیسی (Institutionalized) بنایا ہوا تھا۔ اسی اخبار نے عراق میں ’’انبوہ تباہی کے ہتھیار‘‘ کی جھوٹی خبروں کو پھیلا کر امریکی رائے عامہ کو ’’ایجاد‘‘ کیا تھا۔ اور عراق پر بمباری کرائی۔ صدام حکومت کا خاتمہ کرایا۔ اب یہ اخبار خود پھانسی پر چڑھتا نظر آ رہا ہے۔ یہودی اسرائیلی لابی اس کی حمایت کرے گی۔ لیکن اس کا وقار اب خاک میں مل چکا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا جو فلسطین دھوکا دہی کا پلان ہے اسے پاکستان، سعودی عرب، اردن، امارات، قطر، ترکی، اور مصر کے منافق حکمرانوں کی طرف سے قبول کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب فلسطین کی واحد سیاسی اور فوجی قوت حماس کو کچلنے کے لیے متحد ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل اخوان کو کچلنے کے لیے یہ لوگ بشمول اسرائیل مصری آمر کی مدد کر چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کے قتل عام پر انہیں بلینز آف ڈالرز ملے تھے۔ اب یہ لوگ اسرائیل کے ساتھ مل کر حماس کا خاتمہ چاہتے ہیں جو اس وقت فلسطین کی واحد زندہ سیاسی اور فوجی طاقت ہے۔
اخوان اور حماس انہیں اس لیے دشمن نظر آتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اسلامی نظامِ سیاست اور حکومت کے مدعی ہیں جس سے مسلم دنیا کے سارے ملوک، فوجی آمر، اور جمہوری بادشاہ، اور فوجی بیساکھی پر چلنے والی جعلی جمہوریتیں خوف کھاتی ہیں۔ اور خود کچھ نہیں کر سکتے تو انہیں اسرائیل اور امریکا کے ہاتھوں مروانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل کی قبولیت کی مہم ہے اور امریکا کو بلینز آف ڈالر کے تحائف دیے گئے ہیں۔ شرم الشیخ میں سارے بے شرم الشیخ جمع ہوئے۔ شہباز شریف نے ٹرمپ کو سیلوٹ کیا اور بے غیرتی کے تمام حدود کو عبور
کیا۔ مسٹر شریف نے برصغیر اور فلسطین میں ’’ملینز آف پیپلز‘‘ کی ’’جان بچانے‘‘ پر ایک بار پھر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزدگی کا اعلان کیا۔ شراب خانے کے ساقی کا اور ہوٹل کے کسی بیرے کا کردار بھی اس سے کہیں اچھا ہوتا ہے۔ نوبل ایوارڈ دینے والی تنظیم کو چاہیے کہ وہ اپنے ایوارڈ میں ’’بے غیرتی‘‘ کا ایوارڈ کا اضافہ کرے اور مسٹر ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ مسٹر شریف کو اس ایوارڈ کے لیے نامزد کرے۔ بہر کیف بے شرمی، بے غیرتی، ذلت و رسوائی، قدم بوسی، چاپلوسی، خوشامد و مسکہ بازی کا ایک عالمی مقابلہ ہوا اس میں پاکستان کا وزیر اعظم جیت گیا۔ اور ویسے بھی نوبل امن انعام ان لوگوں کو ملتا ہے جو اسرائیل کی حمایت میں، اسے فائدہ پہنچانے میں بے غیرتی کی تمام حدود عبور کر جاتے ہیں۔ شرم الشیخ جہاں مصر نے مسلم دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پہلا معاہدہ کیا تھا، اس کا ایک ظالم اور بے غیرت فوجی حاکم السیسی بہت تعجب سے مسکراتے ہوئے اس ’’شریف‘‘ انسان کو دیکھ رہا تھا کہ ایک پاکستانی کس طرح بے غیرتی اور بے شرمی میں اس کو مات دے گیا۔
مسلم ممالک کے علما سے گزارش ہے کہ آنکھیں بند کر اپنی حکومتوں کے بیانیوں پر اپنے فتوے جاری نہ کریں۔ سب سے پہلے فلسطین کے اصل مسئلے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے امریکا اور اسرائیل میں جو سازش چل رہی ہے، اسے سمجھیں۔ اپنی نگاہوں کے سامنے ہمیشہ ’’القدس‘‘ کو رکھیں۔ اس کے لیے اسرائیل فلسطینی امور کے وہ امریکی ماہرین جو فلسطین کے حمایتی ہیں اور اسرائیل کی نسل کشی کی مہم کے سخت مخالف ہیں، انہیں سنیں۔ انگریزی سے اپنی زبان میں ترجمہ حاصل کرنا اب آسان ہے۔ خبر اور معلومات لینے کے لیے اپنے قومی اخبارات اور میڈیا پر انحصار کم کریں اور اوپر اٹھ کر دنیا بھر کے متبادل میڈیا کو بھی کھنگالیں۔ فلسطین کے ایشو پر مسلم دنیا سے کہیں بہتر انڈیا کے کچھ صحافی اپنے یوٹیوب چینل پر بہت اچھی کوریج دے رہے ہیں۔ جیسے The Credible History کے اشوک کمار پانڈے، The Red Mike کے سوربھ شاہی، اور KAY Rated YouTube پر بغیر شناخت کے آنے والے ایک نوجوان۔ اور بھی کئی ہیں لیکن یہ بہترین اور قابل اعتماد معلومات کے ساتھ آتے ہیں۔ ان تینوں کی زبان اردو ہے۔
صرف پچھلے دو سال میں ہی دہشت گرد ریاست ِ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی مہم میں لاکھوں لوگوں کا قتل کر چکا ہے۔ جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ لاکھوں لوگ معذور ہوئے، لاکھوں خاندان بے گھر ہو گئے۔ عمارتیں بموں سے مسمار کر دی گئیں، اور غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اسرائیل وہ واحد دہشت گرد ریاست ہے جس نے خوراک کو بھی آلہ ِ جنگ کے طور پر استعمال کیا، اور ہزاروں لوگوں کو بھوکا مار دیا۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے پلان میں فلسطینی ریاست کا کوئی وعدہ نہیں ہے اس 20 نکاتی منصوبہ میں نکات 1، 5، 11 اور 20 میں واضح طور پر حماس مجاہدین سے اسلحہ چھیننے کی بات ہے، حماس کو حکمرانی سے باہر کرنے کی بات ہے، اور صرف ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی اور ان کی جلاوطنی یعنی فلسطین سے نکلنے کی بات کی گئی ہے۔ حماس فلسطین اور غزہ کی منتخب اور نمائندہ اتھارٹی ہے۔ اس پلان میں اس کے کسی بھی رول کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اور اب جو کچھ طے ہوا ہے اس سے بھی اسرائیل ببانگ ِ دہل مْکر منا رہا ہے۔
غزہ میں نسل کشی کا دوبارہ آغاز ہونے والا ہے۔ امدادی سامان کے ٹرک کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے۔ پاکستانی علما کو چاہیے کہ ایٹمی طاقت پاکستان کی افواج جس کی فضائیہ نے بھارت کے ساتھ جنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، مشورہ دیں، فتویٰ دیں اور اس پر جمے رہیں کہ وہ اسرائیل پر حملہ کر کے مظلوم فلسطین کو آزاد کرائے۔ ایران نے بغیر اپنی فضائیہ کے زمین سے فضا میں مار کرکے اسرائیل کو اس حد تک دہلا دیا تھا کہ اس حملے کی زد میں نیتن یاہو کا اپنا سیکرٹریٹ بھی آ گیا تھا۔ پاکستان کو تو بلا شبہ فضائی برتری حاصل ہے۔ مشورہ یہ دیا جائے کہ افغانستان اور انڈیا سے جنگ (فلسطین سے توجہ ہٹانے کے لیے دشمنوں کی سازش) کی فضا کو ختم کرکے اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے فوکس کیا جائے۔