کیسی گرل فرینڈ چاہئیے؟ ادھیڑ عمر پروفیسر کی سخت شرائط پر سوشل میڈیا پر ہنگامہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
بیجنگ(نیوز ڈیسک)چین کی ایک معروف یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی جانب سے اپنی ممکنہ گرل فرینڈ کے لیے مقرر کردہ شرائط سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔ چینی خبر رساں ادارے ”ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ“ کی رپورٹ کے مطابق مشرقی چین کی زیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف مارکسزم سے وابستہ 35 سالہ پروفیسر، جنہیں مسٹر لو کے نام سے شناخت کیا گیا ہے، نے ایک میچ میکنگ چیٹ روم میں اپنی تفصیلات اور توقعات شیئر کیں۔
انہوں نے اپنی شناخت 175 سینٹی میٹر لمبے، 70 کلو وزنی، ایک اعلیٰ چینی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ شخص کے طور پر کرائی اور بتایا کہ ان کی سالانہ آمدنی 1 ملین یوان (تقریباً 3.
مسٹر لو نے اپنی گرل فرینڈ کے لیے مخصوص معیارات طے کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسی لڑکی چاہتے ہیں جو سال 2000 کے بعد پیدا ہوئی ہو، یعنی ان سے 10 سال چھوٹی ہو۔ مزید برآں، ان کے مطابق لڑکی کا قد 165 سے 171 سینٹی میٹر کے درمیان، جسم دبلا پتلا اور مجموعی شخصیت متاثر کن ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا، ’میں ان خواتین پر بھی غور کروں گا جو دنیا کی ٹاپ 20 یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں، لیکن یہ ان کی دیگر خصوصیات پر منحصر ہوگا۔ اگر لڑکی نے قانون یا میڈیکل میں ڈگری حاصل کی ہو تو اسے اضافی پوائنٹس ملیں گے۔‘
مسٹر لو نے اپنی پوسٹ کے آخر میں لکھا، ’اگر کسی لڑکی کی یونیورسٹی میری فہرست میں شامل نہیں ہے، لیکن وہ دیگر خوبیوں جیسے غیر معمولی خوبصورتی، مالی طور پر مستحکم خاندانی پس منظر یا نمایاں صلاحیتوں کی حامل ہو، تو میں اسے موقع دینے پر غور کر سکتا ہوں۔‘
ان سخت شرائط پر عوامی ردعمل کے بعد زیجیانگ یونیورسٹی کے اسکول آف مارکسزم نے 17 مارچ کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس پوسٹ سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا، ’اس میں کچھ غلط معلومات شامل ہیں،‘ تاہم یونیورسٹی نے مزید وضاحت نہیں دی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ مسٹر لو نے معاملے کی اطلاع پولیس کو دے دی ہے۔
یہ واقعہ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شدید ردعمل کا باعث بنا، جہاں بیشتر صارفین نے مسٹر لو کی ’ناقابل قبول‘ شرائط پر تنقید کی، جبکہ کچھ نے کہا کہ ہر شخص کو اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
ایک صارف نے تبصرہ کیا، ’یہ تعلیم کے لیے ایک المیہ ہے، وہ محبت کو کاروباری لین دین کی طرح سمجھ رہے ہیں۔‘ جبکہ دوسرے نے لکھا، ’اس شخص کو کیا مسئلہ ہے؟ وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل ہیں، اس لیے ان کا چناؤ کرنا بالکل منطقی ہے۔ کئی صارفین محض حسد کا شکار ہیں۔‘
مزیدپڑھیں:وہ یورپی ملک جو رہائش اختیار کرنیوالوں کو کروڑوں روپے ادا کرے گا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: مسٹر لو
پڑھیں:
بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور بارے اپنی ہی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ، واشنگٹن پوسٹ کا تہلکہ خیز انکشاف
واشنگٹن (اوصاف نیوز)امریکہ روزنامے دی واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیاہے کہ بھارتی میڈیا اور مودی حکومت آپریشن سندور میں کامیابی سے متعلق عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ان سے مسلسل جھوٹ بولتی رہی۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق دی واشنگٹن پوسٹ نے آپریشن سندور سے متعلق بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر بے نقاب کیاہے جس سے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کاسامنا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی میڈیا نے بی جے پی حکومت کے اشارے پرپاک بھارت جنگ سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلائیں، پاکستان کے تمام بڑے شہروں پر بمباری ،قبضے اور فتح کے جھوٹے دعوے کیے گئے جو کہ حقیقت کے برعکس تھے۔اے آئی کے ذریعے جنگ کی جھوٹی اور فرضی ویڈیوز،تصاویراور من گھڑت خبریں اورتصاویریں بنا کر عوام میں پھیلائی گئیں۔
اخبار کے مطابق یہ صحافت نہیں بلکہ بھارتی ریاستی سرپرستی میں تیار کردہ فکشن تھا، جس کا مقصد بھارت کی عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کرنا اور خطے میں کشیدگی کو سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرنا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں مودی حکومت کے نام نہاد دعوئوں کو بے نقاب کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے ساتھ جنگ کے دوران جھوٹی جنگی خبریں پھیلائیں۔
فلاڈیلفیا میں طیارہ حادثہ، ویڈیو گیمز کے مناظرکو “پاکستان پر حملے”کے مناظر کے طورپرپیش کیاگیا۔ زی نیوز، این ڈی ٹی وی، آج تک اور ٹائمز نائو جیسے بھارتی چینلز نے جھوٹی ویڈیوز چلائیں۔
غزہ اور سوڈان کی ویڈیوز کو پاکستان پر حملے کی ویڈیوز کے طورپرپیش کیا گیا۔ بی جے پی کے زیر اثر بھارتی میڈیا چینلز نے کراچی پر حملے اور پاکستانی وزیراعظم کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے جھوٹے دعوے کئے گئے جن کا دور دور تک سچائی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
بھارتی بحریہ اور فضائیہ نے کسی حملے کی تصدیق نہیں کی مگر نیوز چینلز نے جنگی جنون کو ہوا دینے کیلئے پاکستان کے بیشتر شہروں پر حملوں اور قبضے اور پاکستانی فضائیہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے من گھڑت دعوے نشر کئے۔
گودی میڈیا نے ریٹائرڈ بھارتی فوجی افسران کوجنگ سے متعلق جھوٹی خبروں کو سچائی پر مبنی قراردینے کے لیے بطور ترجمان استعمال کیا ۔ بی جے پی حکومت کے واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے اینکرز کوجھوٹی خبریں پہنچائی گئیں اور انہوں نے تصدیق کرنے کی زحمت گوارا کئے بغیر انہیں اسی طرح نشر کردیا۔
واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہاہے کہ بھارتی “ٹی وی چینلز جھوٹی کہانیاں گھڑنے والوں کے زیر تسلط ہیں”۔ پاک بھارت جنگ سے متعلق بھارتی عوام کو گمراہ کیا گیا جس سے خود عالمی سطح پر بھارت کی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔
اخبار کے مطابق ایک بھارتی سکیورٹی عہدیدارنے اعتراف کیاہے کہ جھوٹی معلومات عوام تک پہنچانا ایک جنگی حکمت عملی تھی، لیکن اس کا نقصان بھارت کو ہی اٹھانا پڑا۔
ریاستی پروپیگنڈا حقائق پر غالب آ گیا: سچائی کی جگہ سیاسی وفاداری نے لے لی۔ واشنگٹن ٹائمز کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ نے اس تمام صورتحال پر خاموشی اختیار کی اور نریدنر مودی نے سیز فائر کے دو دن بعد بیان دیا لیکن اس دوران خلا کو جھوٹ سے پر کیا گیا۔
بھارتی میڈیا نے نام نہاد قوم پرستی کو پراپیگنڈے کیلئے استعمال کیا اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کئے تاہم اس کا نقصان ملک اور میڈیا دونوںکو اٹھانا پڑا۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کے جھوٹ کی قلعی کھولنے پر مودی سرکار نے بی بی سی اور ٹی آر ٹی سمیت متعدد عالمی میڈیا پر پابندیاں عائدکردیں ۔
بی جے پی کے جھوٹے بیانیہ کو چیلنج کرنے والے مقامی صحافیوں کو گرفتار کر کے انکے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، روئٹرز، ٹی آر ٹی، الجزیرہ اور بی بی سی نے جنگ سے متعلق بھارتی میڈیا کے جھوٹ کوبے نقاب اور پاکستانی میڈیا کو پیشہ ورانہ شفافیت کو سراہا ہے۔
غزہ : اسرائیل کی بربریت جاری ،وحشیانہ بمباری سے مزید 108 فلسطینی شہید،393 زخمی ، عرب میڈیا