اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) ریل گاڑی نے ہماری زندگیوں پر انمنٹ نقش ثبت کیے جو تجارت سے لے کر ثقافت تک ہمہ گیر ہیں۔ اس سے جنم لینے والی حیرت اور دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے 'لاہور دیوانگی‘ میں مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں، ”ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، کمپیوٹر، یہاں تک کہ ہوائی جہاز بھی اپنا تحیر کھو چکے ہیں جبکہ ایک رواں ٹرین میں اب بھی اولین حیرت کے سب سامان روزِ اول کی مانند ہیجان خیزی میں مبتلا کرتے ہیں، ہم آج بھی ہر ٹرین کو اُسی پرمسرت حیرت اور کسی حد تک اداسی سے تکتے جاتے ہیں جیسے گئے زمانوں کے لوگ پہلی بار ایک ٹرین کو چھک چھک کرتے گزرتے دیکھتے تھے۔

ٹرین میں عجب طلسم ہے کہ یہ زائل ہوتا ہی نہیں۔"

یہی طلسم سافٹ ویئر انجینئر عتیق الرحمٰن پہ بچپن سے چھایا ہوا ہے مگر وہ اپنے رومانس کا اظہار لفظوں کی بجائے اینٹ پتھر سے کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ناسٹلجیا اور رومانس جو پنڈ سلطانی ریلوے اسٹیشن کی بنیاد بنا

ریل سے جڑی اپنی ابتدائی حیرت کے بارے میں وہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”والد صاحب اسلام آباد میں محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے۔

گاؤں آنے جانے کے لیے زیادہ تر ٹرین کا سفر کرتے۔ یہ 1980 کی دہائی کا زمانہ ہے۔ بسال اور دو ریلوے اسٹیشن ہمارے گاؤں پنڈ سلطانی سے نزدیک ہیں۔ چِھک چِھک کرتا انجن اور پھر سناٹے کو چیرتی ریل کی سیٹی۔ جیسے اچانک ایک شہر آباد ہو جاتا۔ تھوڑی دیر کو خوب ہلچل اور پھر وہی خاموشی کی گہری چادر۔ کھڑکی سے باہر کی دنیا کو دیکھنا بھی ایک حیرت انگیز تجربہ تھا۔

یہ مناظر دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ گئے۔ کیا عجیب طلسم تھا۔"

وہ کہتے ہیں، ”یہ رومانس اندر ہی اندر چلتا رہا، کبھی کبھار اسے تازہ کرنے میں قریبی ریلوے اسٹیشن گگن چلا جاتا۔ وہاں کتابیں پڑھتا، پیڑ اور پرندے دیکھتا۔ خاموشی میں گونجتی ریل کی آواز سنتا اور واپس آ جاتا۔ سفید عمارت، پیپل اور برگد کے درخت، خالی بینچز، پکوڑے تلنے والے، چائے سے اٹھتا دھواں، وہ پورا ماحول ہمیشہ ذہن پر سوار رہا۔

یہی رومانس پنڈ سلطانی ریلوے اسٹیشن کی بنیاد بنا۔"

بیٹھک جو پذیرائی کے بعد عوامی تفریح کا مقام بن گئی

اٹک کا گاؤں پنڈ سلطانی اسلام آباد میں ترنول سے اسی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں عتیق الرحمن نے برطانوی دور حکومت میں بننے والے ریلوے اسٹیشنوں کی طرز پر اپنی بیٹھک تعمیر کی۔

سفید رنگ کی ریلوے اسٹیشن نما عمارت جس کے سامنے سے پٹڑی گزر رہی ہے۔

ریل کی بوگی کھڑی ہے، گزرے وقتوں کو زندہ کرنے کے لیے دروازے، مسافر خانہ، اسٹیشن ماسٹر کا کمرہ اور بتی گودام، لوہے کی گھنٹی، پیڑ پودے، دیوراوں پر لکھی ریلوے کی تاریخ اور ٹکٹوں کے نرخ، ریت اور پانی سے بھری ہوئی سرخ بالٹیاں، سیمنٹ اور لکڑی سے بنے خوبصورت بنچ دیکھ کر ہو بہو ریلوے اسٹیشن کا گمان گزرتا ہے۔

ریلوے اسٹیشن سے رومانس تو بہت لوگوں کا ہوتا ہے، عتیق الرحمن نے ایک خوبصورت منظر کیسے تخلیق کیا؟

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”یہ پتھریلی زمین ہے، زیادہ فصلیں نہیں ہوتیں، والد صاحب سے مشورہ کیا کہ باغ لگاتے ہیں۔

زیتون کی کاشت، ساتھ کمرہ بنانا تھا تو میں نے کہا کیوں نہ ریلوے اسٹیشن کی طرز پر تعمیر کیا جائے جہاں وقت گزارتے ہوئے لگے جیسے ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ہیں۔

یوں 2018 میں اس کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کی تعمیر ابھی تک بدستور جاری ہے۔ یہ بیٹھک بالکل انگریز دور میں بنائے گئے دومیل ریلوے اسٹیشن کی طرز پر تعیمر کی گئی ہے۔ مٹی ڈال کر جگہ کو اونچا کیا، سیمنٹ کی پٹڑی بنائی، کوہاٹ سے پتھر منگوا کر ڈالے۔

" وہ کہتے ہیں، ”یہ اسٹیشن نما بیٹھک بالکل ذاتی استعمال کے لیے تھی کہ شہر کے ہنگاموں سے دور ایک پرسکون مقام میسر ہو، دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی جا سکے یا تنہائی کے چند لمحات بسر کیے جا سکیں۔ مگر جب سوشل میڈیا پر تصاویر ڈالیں تو لوگوں کا ردعمل حیرت انگیز تھا۔ لوگوں کی پذیرائی دیکھتے ہوئے میں نے اسے عوامی منصوبے میں تبدیل کر دیا۔

"

وہ کہتے ہیں، ”ریلوے کی پرانی بوگی حاصل کرنے کے لیے ریلوے احکام سے رابطہ کیا، خط لکھا کہ یہ ملکیت پاکستان ریلویز کی ہی رہے گی، بس یہاں کھڑی کر دیں، ہم خیال رکھیں گے۔ وہاں سے کسی قسم کا جواب نہیں ملا۔ پھر سیمنٹ سے خود تیار کی اور رنگ اس طرح کروایا کہ بلکل اصل بوگی نظر آئے۔ یہ ستر فٹ لمبی اور ساڑھے نو انچ چوڑی ہے۔ اب اسی کو منی میوزیم میں تبدیل کرنے کا اردہ ہے۔

"

ان کے خیال میں ایسا کوئی بھی منصوبہ بس ذاتی دلچسپی سے ہی چلتا ہے، ”ادارے توجہ نہیں دیتے، آپ کے کام کو سراہیں گے لیکن کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گے۔ میں کوشش کر رہا ہوں پرانے فون اور جو ٹوکن سسٹم تھا اس طرح کی چیزیں اکٹھی کریں تاکہ منی میوزیم بن سکے۔ اسٹیشن کے ساتھ بچوں کے لیے جھولے، پینٹنگز، آبشار اور دیگر دلچسپیاں قائم کرنے کا مقصد بس تفریح فراہم کرنا ہے۔

"

ریل سے جڑا دیرینہ رومانس

ستیہ جیت رائے کی فلم 'پاتھر پنچالی‘ ہو یا گلزار کی 'اجازت،‘ ہمارے خطے کے سینما اور شاعری میں ریل گاڑی اور ریلوے اسٹیشن کا ذکر مسلسل ملتا ہے۔ 'دیوداس‘ کا وہ سین کون بھول سکتا ہے جس میں دیو بابو شراب میں مدہوش بار بار کہتے ہیں، ”یہ سفر کب ختم ہو گا۔"

ناصر کاظمی کی شاعری میں ریل کی سیٹی سے رات کا جنگل گونج اٹھتا ہے تو منیر نیازی کا دل لہو سے بھر جاتا ہے۔

رضا علی عابدی کی 'ریل کہانی‘ اور حسن معراج کی 'ریل کی سیٹی‘ ٹرین سے جڑے ہمارے رومانس پر اردو میں دو عمدہ کتابیں ہیں۔

نوجوان ادیب اور صحافی محمود الحسن اپنی کتاب 'شرف ہم کلامی‘ میں انتظار حسین کے حوالے سے ریل کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔

انتظار حسین انہیں بتاتے ہیں کہ، ”ریل کے سفر نے واقعی لوگوں کو انسپائر کیا۔

ہوائی جہاز کے سفر میں رومانس نہیں۔ بیٹھے اور اتر گئے۔ ریل میں میلوں کا سفر ہے۔ ریل بستیوں، جنگلوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزر رہی ہے۔ آپ کھڑکی کے برابر بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ رات کو منظر عجیب ہوتا۔ سارا ڈبہ سویا ہے۔ آپ جاگ رہے ہیں۔ گاڑی رکی۔ ایک سواری خاموشی سے جھٹ پٹ اتر گئی، ایک سوار ہو رہی ہے۔"

عتیق الرحمن کہتے ہیں، ”ریل کے بارے میں لکھا لٹریچر ہم سب کی زندگیوں پر ریل گاڑی کے گہرے اثرات کا اظہار ہے۔ میرے پاس لفظ نہیں تھے، انہی جذبات کا اظہار مختلف انداز میں کیا۔ خوشی ہے کہ اس سے نہ صرف میرے شوق کی تکمیل ہوئی بلکہ میرے گاؤں پنڈ سلطانی کو بھی نئی پہنچان ملی۔"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ریلوے اسٹیشن کی وہ کہتے ہیں ریل گاڑی ریل کی کے لیے

پڑھیں:

ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کیلئے کلید رہیں گے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں۔

محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔

سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے۔

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دارالحکومت میں ’’پولیس اسٹیشن آن ویلز‘‘ اور ’’آن لائن ویمن پولیس اسٹیشن‘‘ قائم
  • پشاور سے کوئٹہ جانیوالی جعفر ایکسپریس کو سکیورٹی خدشات پر سبی ریلوے اسٹیشن پر روک لیا گیا
  • جب ’غیر ملکی ایجنٹ‘ کی رپورٹیں ’آرٹ کا شہکار‘ بن گئیں
  • بنوں: پولیس اسٹیشن بسیہ خیل پر دہشتگردوں کا حملہ ناکام
  • ڈی آئی خان، بسیاہ خیل پولیس اسٹیشن پر دہشت گردوں کا حملہ، جوابی کارروائی میں حملہ آور فرار
  • بوگیوں کی قلت؛ ایڈوانس ٹکٹیں لینے والے مسافروں کا احتجاج،رقم ری فنڈ کرنے کا اعلان
  • بلوچستان میں مسافر ٹرین پر دہشتگردوں کے حملے کی کوشش ناکام
  • ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
  • 26 ویں آئینی ترمیم آئی تو ہم سے کہا گیا کہ اسکی توثیق کریں، مولانا فضل الرحمان