امریکا میں لائبریری سے لی گئی کتاب 98 سال بعد واپس آگئی، جس کے بعد یہ سوال کیا جارہا ہے کہ اگر اس شخص پر جرمانہ کیا جاتا تو کتنا ہوتا؟

یہ بھی پڑھیں:طالب علم نے 64 سال بعد کتاب لائبریری کو لوٹا دی

امریکی ریاست اوہائیو کی ایک لائبریری سے لی گئی کتاب 98 سال بعد واپس آگئی ہے، اس حوالے لائبریرین کا کہنا ہے کہ برٹرینڈ ڈبلیو سنکلیئر کی وائلڈ ویسٹ کی ایک کاپی اس کی مقررہ تاریخ سے 98 سال بعد لائبریری کو واپس ملی ہے۔

لائبریرین کرسٹوفر اسمتھ نے کہا کہ یہ کتاب ایک خاندان کو ایک بزرگ رشتہ دار کے شیلف پر ملی تھی جس کا حال ہی میں انتقال ہوا تھا۔

اسمتھ نے کہا کہ پرانے ریکارڈز چیک کر کے یہ معلوم کرنے میں کافی وقت لگے گا کہ آیا لائبریری میں اتنے پرانے لیجرز ہیں بھی یا نہیں۔

لائبریرین کے مطابق لائبریری نے کتاب کی واپسی میں ناکامی کے چند سال بعد اس کی ایک نئی کاپی خریدی، اور وہ نسخہ آج بھی گردش میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:گوادر، 4 روزہ کتب میلے میں 28 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت

اسمتھ نے کہا مجھے صرف یہ دلچسپ لگا  کہ 100 سال پرانی کتاب اچھی شکل میں واپس آئی ہے۔ اسمتھ کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ کتاب ہمارے پاس واپس آگئی ہے، اسے ردی کی ٹوکری یا ری سائیکلنگ یا کاغذ کے گودے میں تبدیل نہیں کیا گیا۔

اسمتھ نے کہا کہ لائبریری اب لیٹ فیس نہیں لیتی، لیکن اندازہ لگائیں تو 98 سال سے زائد عرصے بعد کتاب کی واپسی کی صورت میں تقریباً 730 ڈالر جرمانہ بنتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا جرمانہ ریاست اوہائیو کتاب لائبریری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا کتاب لائبریری اسمتھ نے کہا سال بعد

پڑھیں:

وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس آنے والے متعدد افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں حکام کی جانب سے تشدد، بدسلوکی اور ناجائز حراستوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور 'او ایچ سی ایچ آر' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپس آںے والے افغانوں میں خواتین، لڑکیوں، سابق حکومت اور اس کی فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں، ذرائع ابلاغ کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ کسی مہاجر یا پناہ گزین کو ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ماضی کی بنا پر مظالم کا خدشہ ہو۔

(جاری ہے)

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں محض صنفی بنیاد پر ہی ان کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔خفیہ زندگی، تشدد اور مظالم

رپورٹ میں گزشتہ سال واپس آنے والے 49 لوگوں سے کی گئی بات چیت کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ان میں شامل سابق حکومت اور فوج کے اہلکار افغانستان میں انتقامی کارروائی کے خوف سے خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ طالبان حکام نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں ان کے خلاف لڑنے والوں کو عام معافی دی جائے گی۔

اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آںے کے بعد ملک چھوڑ دینے والی ٹیلی ویژن کی ایک سابق رپورٹر نے بتایا کہ ملک میں واپسی کے بعد انہیں اور دیگر خواتین کو نہ تو روزگار کے مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی انہیں تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی ہے۔ ان حالات میں وہ خود کو گھر میں نظربند محسوس کرتی ہیں۔

ایک سابق سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ 2023 میں افغانستان واپس آںے کے بعد انہیں دو راتوں تک ایک گھر میں بند کر کے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس دوران طالبان حکام نے انہیں ڈنڈوں اور تاروں سے مارا پیٹا، پانی میں غوطے دیے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر بناوٹی طور پر پھانسی دی۔ اس تشدد کے نتیجے میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ملک بدری سے گریز کا مطالبہ

پناہ گزینوں کو ایسے ملک میں واپس بھیجنا بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے جہاں انہیں مظالم، تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا، جبری گمشدگی یا دیگر ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ ہو۔

رپورٹ میں رکن ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم کسی افغان فرد کو اس کے ملک میں واپس بھیجنے سے قبل یہ جائزہ ضرور لیں کہ کہیں اسے واپسی پر اپنے حقوق کی پامالی کا خدشہ تو نہیں۔ جن لوگوں کو ایسا خطرہ لاحق ہو انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں، رکن ممالک خطرات سے دوچار افغانوں کو ملک چھوڑنے اور اپنے ہاں گرفتاری یا ملک بدری کے خوف سے بے نیاز ہو کر رہنے کے لیے محفوظ راستے مہیا کریں۔

2023 سے اب تک لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں جس کے باعث افغانستان میں محدود وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں رکن ممالک سے افغانوں کے لیے امدادی مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔

امدادی وسائل کی ضرورت

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ اگرچہ افغان حکام نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں واپس آنے والوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سبھی لوگوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں تمام افغانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اور افغان لوگوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی ایلچی نے جنگ بندی معاہدہ ناکام ہونے کا ذمہ دارحماس کو قرار دیدیا
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بُلالیے
  • امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دیا
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات، امریکا اور اسرائیل نے اپنے وفود واپس بلالیے
  • وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
  • آسٹریا شینجن ویزا کے حصول کے لیے کم از کم بینک بیلنس کتنا ہونا چاہیے؟
  • پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟
  • روس میں انٹرنیٹ پرانتہا پسندی سے متعلق مواد سرچ کرنیوالوں پرجرمانہ لگانے کا اعلان
  • روس: انتہاپسند مواد سرچ کرنے پر اب جرمانہ ہوگا
  • کتاب ہدایت