بدلتے ہیں رنگ سابق کرکٹرز کیسے کیسے
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
کراچی:
آج میں آپ کو کرکٹ تجزیہ نگار بننے کا فارمولہ بتانے والا ہوں،مجھے پتا ہے کہ آپ میں سے بیشتر اس کھیل کو گہرائی تک سمجھتے ہیں لیکن سابق کرکٹر کا لیبل یا کسی میڈیا ہاؤس میں ملازمت نہ کرنے کے سبب تجزیے صرف دوستوں کی محفل تک ہی محدود رہتے ہوں گے۔
کبھی کسی ایک ٹیسٹ کھیلے ہوئے سابق کھلاڑی کو جب ٹی وی پر چیختے چلاتے سنیں تو یہ خیال ضرور آتا ہو گا کہ اسے کس نے یہاں بٹھا دیا ،اس کا جواب ہے قسمت، ماضی میں بیچارے سابق کھلاڑیوں کو کوئی نہیں پوچھتا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی دنیا ویران ہو جاتی تھی۔
پھر الیکٹرونک میڈیا آیا تو سب کی چاندی ہو گئی،ٹی وی پر تبصروں کے پیسے ملنے لگے،ایسے میں پی سی بی کے خلاف بھی باتیں ہوئیں تو ملازمت دے کر نوٹوں سے منہ بن کرائے جانے لگے،یہ فارمولہ چل گیا۔
سابق کرکٹرز نے بورڈ کی نظروں میں آنے کیلیے تنقید شروع کی تو انھیں کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کیا جاتا رہا،یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ایڈوانس طریقہ استعمال کرتے ہوئے اب بعض کھلاڑیوں کو ملازمتیں بھی دے کر خود ٹی وی چینلز پرتبصروں کی اجازت دی گئی تاکہ بورڈ کا دفاع بھی ہوتے رہے ورنہ ماضی میں تو کوئی سابق کھلاڑی پی سی بی کا ملازم بنے تو ٹی وی پر کام نہیں کر سکتا تھا۔
ارے وہ فارمولے والی بات تو رہ ہی گئی،آپ کو کرنا صرف یہ ہے کہ ٹاس جیت کر اپنی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے اور ہار جائے تو کہیں یہی فیصلہ شکست کی وجہ بنا،بابر اعظم اور محمد رضوان کو کھلائیں تو کہیں سست بیٹنگ کی وجہ سے ہار گئے ،نہ کھلائیں تو کہیں باہر بٹھایا اس لیے نہ جیت سکے۔
جونیئرز زیادہ ہوں تو کہیں اتنے سارے نئے کھلاڑی کھلا دیے،کم ہوں تو کہیں ینگسٹرز کو موقع ہی نہیں دیا جا رہا، نئی ٹیم جیتے تو کہیں ٹیلنٹ کی بھرمار ہے، ہارے تو بولیں ہمارے پاس نئے پلیئرز ہی نہیں ہیں۔
مجھے حال ہی میں کسی نے سرکاری ٹی وی کے اسپورٹس اینکرز و تجزیہ نگاروں کی تنخواہوں کی لسٹ بھیجی جسے دیکھ کر حیران رہ گیا،6،7 لاکھ سے کم تو کوئی بات ہی نہیں کر رہا،چیخنے چلانے والے بھائی کی تنخواہ بھی اتنی ہی ہے۔
کچھ خاتون اینکرز بھی پیسے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں ،یہ سب رقم آپ اپنے بجلی کے بلز کے ساتھ بھر رہے ہیں،خیر بات سابق کرکٹرز کی ہو رہی تھی،یہ ہوا کے رخ پر چلتے ہیں،اگر ٹیم جیت جائے تو تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں ہارے تو ملک میں کرکٹ ہی ختم ہو جاتی ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں شکست کے بعد ایک سابق کپتان نے بیان دیا کہ 6،7 کھلاڑیوں کو بدل دینا چاہیے،چند دن بعد وہی کہہ رہے تھے کہ موجودہ کرکٹرز پر ہی اعتماد رکھنا چاہیے،بیشتر کا خیال تھا کہ ملک میں نیا ٹیلنٹ ہی موجود نہیں۔
لیکن ایک میچ کے بعد ہی انھیں حسن نواز میں جاوید میانداد کی جھلک دکھائی دینے لگی،اب اگلا میچ ہار گئے تو پھر ٹیم کی دھجیاں اڑائی جائیں گی، محمد رضوان نے عمرے کی ادائیگی کے بعد قومی ٹی ٹوئنٹی کپ نہیں کھیلا تو ایک سابق کرکٹر (اسٹار لکھنا مناسب نہیں لگتا) ان کیخلاف ایکشن کا مطالبہ کرنے لگے۔
قسمت سے بڑے چینل کی اسکرین مل جائے تو لوگ خود کو کیا سمجھنے لگتے ہیں،سر پوچھ تو لیتے کیوں نہیں کھیلا، کوئی تو وجہ تھی، مسئلہ یہی ہے ہمارے سابق کرکٹرز درست تجزیہ نہیں کرتے۔
اگر ٹیم ہار بھی جائے تو دنیا ختم نہیں ہو جاتی لیکن بعض سابق کھلاڑی ٹی وی پر ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جنھیں سن کر اشتعال میں آئے لوگ اگر ٹیم کے کسی رکن تو باہر دیکھیں تو منہ ہی نوچ لیں۔
متوازن سوچ کے حامل تجزیہ نگار کم ہی نظر آئیں گے،ہوا کے رخ پر چلنا بڑی بات نہیں،سچی بات مہذب انداز میں کرنا ہی اصل کامیابی ہے لیکن مسئلہ ہمارا بھی ہے،جو بندہ جتنی چیخ و پکار کرے دوسروں کی پگڑی اچھالے اسے ہی ریٹنگ ملتی ہے۔
کئی مثالیں موجود ہیں آپ خود جانتے ہیں،جس طرح عیدکے مواقع پر درزیوں یا۔۔ کا سیزن آتا ہے اسی طرح جب کوئی آئی سی سی ایونٹ ہو تو سابق کرکٹرز کی لاٹری کھل جاتی ہے،دو میچز کھیلنے والے بھی فارغ نظر نہیں آتے،پھر وہ ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے اپنے دور میں بریڈمین کے ہم پلہ تھے یا شوکیس میں ٹرافیز کا ڈھیر لگا ہو۔
چیمپئنز ٹرافی کو ہی دیکھ لیں شکست کے بعد جو لوگ ٹیم پر آگے بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے تھے وہ خود اپنے دور میں کوئی بڑا ٹائٹل نہیں جیت سکے تھے،ان سے پوچھیں کہ بھائی آپ نے کتنی بار بھارت کو ہرایا تھا تو بغلیں جھانکیں گے۔
تنقید کرنا مشکل نہیں لیکن ساتھ اصلاح بھی کرنی چاہیے،الفاظ کا چناؤ بھی درست کریں،آپ کو بابر اعظم یا شاہین آفریدی کی کوئی خامی نظر آئے تو انھیں براہ راست فون کر کے بھی بتا سکتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں کرتا،کسی کو شکوہ ہوگا کہ فلاں نے مجھے سلام نہیں کیا یا میں نے اپنے بندے کو ایجنٹ بنوانے کا کہا تو کیوں نہیں بنایا اب دیکھو میں اسے ٹی وی پر کیسے اڑاتا ہوں۔
تنقید بھی ایجنڈے کے تحت ہوتی ہے،اگر کوئی پسند ہو تو اسے ٹیم میں واپس لانے یا کپتان بنانے کیلیے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے،پسند نہ ہو تو اس کے ہیئر اسٹائل پر بھی تنقید شروع کر دیتے ہیں، ماضی میں تو یہاں تک ہوتا رہا کہ کھانے کے بل کی طرح ٹی وی پر بورڈ کے دفاع میں بولنے والے سابق کرکٹر رسیدیں جمع کراتے تھے کہ فلاں چینل پر بیٹھا اتنے روپے،فلاں جگہ گیا اتنے روپے،اسی کلچر نے سابق کرکٹرز کی ساکھ ختم کر دی،اب چند ہی ہوں گے جن کے تبصروں کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہوگا۔
ایک فتح کے بعد دیکھ لیں جو ہر وقت انگارے برساتے تھے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگے،اب ٹیم چوتھا میچ اور سیریز ہار گئی تو وہی دوبارہ سے ملک میں کرکٹ کو پھرختم قراردیتے نظر آئیں گے۔
کاش یہ کھلاڑی ایجنڈے یا مفادات سے ہٹ کر سوچتے تو ہماری کرکٹ اتنی پیچھے نہیں جاتی، ویسے حارث رؤف نے غلط نہیں کہا تھا کہ پاکستان میں لوگ ٹیم کے ہارنے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ تنقید کے نشتر برسا سکیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سابق کرکٹرز کی سابق کھلاڑی ٹی وی پر جائے تو تو کہیں نہیں کر کے بعد
پڑھیں:
’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
اسلام ٹائمز: اس اجتماع میں ملک بھر سے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، علمائے کرام و مشائخ عظام اور مرکزی رہنماوں نے خطاب کیا، کانفرنس سے میزبان سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بشریت ظلم و استبداد کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے اور ویسٹ کی برہنہ تہذیب کے ظلم و جبر کا شکار ہے، اس ظلم کی جڑیں مغربی تہذیب میں ہیں، لوگ سمجھتے تھے کہ مغرب نے اپنی ترقی سے دنیا کو جنت بنا دیا ہے، لیکن مغرب نے اپنا مکروہ چہرہ میڈیا کے لبادے میں چھپایا ہوا ہے۔ ترتیب و تدوین: سید عدیل عباس
ہفتہ وحدت کی مناسبت سے گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں قائم مختلف مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کی جانب سے اور مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام ہر سال اسلام آباد میں ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس سال بھی ولادت باسعادت سرور کونین، سید الانبیاء، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے موقع پر اسلام آباد میں سالانہ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی شخصیات اور علماء کرام نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان کے مخصوص حالات اور خاص طور پر غزہ اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے تناظر میں امت مسلمہ کو امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف متحد ہو کر جواب دینے اور باہمی اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ کانفرنس کی خاص بات اتحاد بین المسلمین کا وہ عملی مظاہرہ تھا کہ جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملی یکجہتی کونسل جیسا پلیٹ فارم قائم کیا گیا، کانفرنس میں تمام مقررین حضرات نے سب سے زیادہ امت مسلمہ کے مابین اتحاد اتفاق کی ضرورت پر زور دیا۔
اس اجتماع میں ملک بھر سے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین، علمائے کرام و مشائخ عظام اور مرکزی رہنماوں نے خطاب کیا، کانفرنس سے میزبان سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بشریت ظلم و استبداد کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے اور ویسٹ کی برہنہ تہذیب کے ظلم وجبر کا شکار ہے، اس ظلم کی جڑیں مغربی تہذیب میں ہیں، لوگ سمجھتے تھے کہ مغرب نے اپنی ترقی سے دنیا کو جنت بنا دیا ہے، لیکن مغرب نے اپنا مکروہ چہرہ میڈیا کے لبادے میں چھپایا ہوا ہے، جب یہ ہمارے نبی ختمی المرتب (ص) کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو اپنی مغربی تہذیب کے برہنہ پن کو واضح کرتے ہیں، ان کی حقیقت آپ غزہ میں دیکھ لیں، جب تک تم ان جیسے نہ ہو جاؤ، وہ راضی ہو ہی نہیں سکتے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ امریکہ اسرائیل کے قطر پر حملے میں ملوث نہ ہو، قطر نے چار سو ملین ڈالر کا جہاز دیا ہے، ٹرمپ کو، پھر بھی حملہ ہوا اور مزاحمت کے رہنما شہید ہوئے۔
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ امریکہ قابل اعتماد نہیں ہے، اپنے وطن کے خزانے ان کے حوالے کر رہے ہو، اس کے ساتھ سی آئی اے آئے گی اور حرام ہے یہود و نصاریٰ کو دوست بنانا، یہ قرآن کہہ رہا ہے، وہ انہیں میں سے ہو جائے گا، یہ دین اور انسانیت سے دور ہیں، ان کی تہذیب میں انسانیت کی تحقیر اور بزدلی، بے وفائی اور بے حرمتی ہے، تحقیر ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری قیادت کو غور کرنا ہوگا کہ امت اور قوم منتشر کیوں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نفسا نفسی کی دوڑ ہے، ہر کوئی اپنی انا میں ڈوبا ہوا ہے، استعمار ہماری ملت کو ملین ڈالرز خرچ کرکے تقسیم در تقسیم کر رہا ہے، ایران میں جب انقلاب آیا تو پوری مسلم دنیا سمیت پاکستان میں بہت خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن امریکہ نے عظیم الشان اسلامی انقلاب کو شیعہ انقلاب بنا کر پیش کیا کہ یہ اب عربوں کے تخت بہا لے جائے گا، ملی یکجہتی کونسل نے اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے یہ پلیٹ فارم بنایا، تاکہ آپس کے اختلافات ختم ہوں اور امت میں وحدت پیدا ہوسکے، لیکن ہم معیشت پر اکٹھے نہیں۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ سود کے نظام پر کھلم کھلا عمل ہو رہا ہے، پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے خلاف قوانین بن رہے ہیں، لیکن عالمی پریشر کی وجہ سے یہ سب رک نہیں رہا، فلسطین اور غزہ کی بربادی پر سب مجرمانہ طور پر دیکھ رہے ہیں، عرب کہتے رہے کہ حماس اور حزب اللہ ختم ہو جائے، ہم معاملات سنبھال لیں گے، لیکن پھر قطر بھی محفوظ نہ رہا، یہ درندہ صفت اسرائیل کا حملہ اب انقرہ و اسلام آباد تک بھی ہوسکتا ہے، سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب نیپال کی صورتحال سب کے سامنے ہے، مودی بھی وطن عزیز میں یہ سب دوہرانا چاہتا تھا، لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی، حکومت سے کہنا چاہتا ہوں، لوگ اس غیر آئینی اور ناانصافی کے اقدامات سے تنگ ہیں، لوگ تمہارے کشکول سے بھی تنگ ہیں، لیکن رسول اکرم (ص) کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہونے دیں گے اور قادیانیوں کی بھی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اس کانفرنس کا پیغام یہ ہے کہ قرآن و سنت بالا دست ہے، حکومت کو پیغام دیتا ہوں کہ عوام معاشی حوالے سے تنگ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ناموس مصطفیٰ کے قانون میں تبدیلی نہیں ہونے دیں گے، ملی یکجہتی کونسل تحفظ ناموس رسالت کا ہراول دستہ ہے، اقلیتوں کی آڑ میں گستاخوں کو قانونی تحفظ نہیں لینے دیں گے۔ کانفرنس سے سربراہ جماعت اہل حرم مفتی گلزار نعیمی، وائس چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ سید احمد اقبال رضوی، پیر غلام رسول اویسی، ڈاکٹر ضمیر اختر، مولانا طیب شاہ بخاری، مرکزی رہنماء ایم ڈبلیو ایم سید ناصر عباس شیرازی، رکن قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین طوری، علامہ اختر عباس، سید فدا احمد شاہ، علامہ سید اکبر کاظمی، خواجہ مدثر محمود تونسوی، سید عبدالوحید شاہ و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ تمام مقررین نے جناب رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس کو مرکز وحدت مسلمین قرار دیتے ہوئے امت مسلمہ کو امت واحدہ بننے کی ضرورت پر زور دیا۔ مقررین نے مجلس وحدت مسلمین کی میزبانی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے انعقاد کو بھی خوش آئند قرار دیا۔