امریکا نے 5 لاکھ تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کر دی
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
امریکا نے 5 لاکھ تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کر دی WhatsAppFacebookTwitter 0 24 March, 2025 سب نیوز
واشنگٹن (آئی پی ایس) امریکا نے 5 لاکھ سے زائد تارکین وطن کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انہیں ملک چھوڑنے کے لئے چند 24اپریل تک کا وقت دے دیا۔
عالمی میڈیا کے مطابق امریکا نے جمعے کو کہا کہ وہ لاطینی امریکا کے لاکھوں تارکین وطن کی قانونی حیثیت منسوخ کر رہا ہے اور انہیں ملک چھوڑنے کے لیے 24 اپریل تک کا وقت دیا گیا ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی تاریخ کی سب بڑی ملک بدری ک مہم چلانے اور خصوصی طور پر لاطینی امریکہ کے ممالک کے افراد کی امیگریشن روکنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
اس حکم سے کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا کے پانچ لاکھ 32 ہزار افراد متاثر ہوں گے جو 2022 میں جوبائیڈن کی طرف سے متعارف کروائی گئی ایک سکیم کے تحت امریکا آئے تھے۔
وہ منگل (آج) کو فیڈرل رجسٹر میں ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کا حکم شائع ہونے کے بعد قانونی تحفظ سے محروم ہو جائیں گے، جس کا مطلب ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی دوسرا امیگریشن سٹیٹس نہیں ہے تو انہیں 24 اپریل تک ملک چھوڑنا ہوگا۔
ان چار ممالک کے افراد کو جنوری 2023 میں اعلان کیے جانے والے ایک پروگرام (سی ایچ این وی) کے تحت امریکہ میں دو سال تک رہنے کی اجازت دی گئی تھی جہاں انسانی حقوق کی صورتحال اچھی نہیں تھی۔
جو بائیڈن نے امریکا میکسیکو بارڈر پر دباؤ کو ختم کرنے کے لیے اس پروگرام کو ’محفوظ اور انسانی‘ کہا تھا۔ تاہم جمعے کو ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے کہا کہ یہ اسکیم عارضی تھی۔
امیگریشن کے وکیل نکولیٹ گلیزر نے کہا کہ اس حکم سی ایچ این وی پروگرام کے تحت آنے والے چھ لاکھ افراد میں سے بڑی تعداد متاثر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ صرف 75 ہزار افراد نے پناہ کی درخواستیں دائر کی تھیں لہذا اس پروگرام کے تحت آنے والی اکثریت کو نکالا جا سکتا ہے۔
امیگریشن حقوق کے گروپ ’جسٹس ایکشن سنٹر‘ کی ڈائریکٹر کیرن ٹملین نے کہا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ نے وفاقی حکومت کی طرف سے ہزاروں افراد کو کیے گئے وعدے کو توڑ دیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تارکین وطن کی قانونی حیثیت امریکا نے
پڑھیں:
پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔
طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔
ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔
اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔
اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔