بلوچستان میں ریاستی رٹ کو ہر قیمت پر قائم رکھا جائیگا، سرفراز بگٹی
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
کوئٹہ میں اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے حکومت مخالفت ملازمین کیخلاف اقدامات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کوئی فرد تنخواہ سرکار سے لے اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرکے اپنی ذاتی رائے کو حکومتی پالیسیوں پر فوقیت دے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ صوبے میں ریاستی رٹ کو ہر قیمت پر قائم رکھا جائے گا۔ بلوچستان میں کوئی شاہراہ بند نہیں ہوگی۔ کسی بھی قسم کی ریاست مخالف سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں بلوچستان کی مجموعی صورتحال پر اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری، محکمہ داخلہ، ایس اینڈ جی اے ڈی، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت اور محکمہ خزانہ کے سیکرٹریز اور متعلقہ حکام شریک تھے، جبکہ تمام ڈویژنل کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ڈی آئی جیز اور ضلعی پولیس افسران نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات میں جانبحق ہونے والے افراد کے لئے دعا و فاتحہ خوانی کی گئی۔ جس کے بعد حکام نے بلوچستان میں امن و امان اور سروس ڈیلیوری سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اجلاس میں ریاست مخالف پروپیگنڈے اور سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام کمشنرز اور ضلعی افسران کو احکامات جاری کئے کہ ایسے ملازمین کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی فرد تنخواہ سرکار سے لے اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرکے اپنی ذاتی رائے کو حکومتی پالیسیوں پر فوقیت دے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ضلعی سطح پر ریاست مخالف عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے اور انہیں فورتھ شیڈول میں شامل کرکے ان کی نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ لازمی پڑھا جائے گا اور قومی پرچم لہرایا جائے گا۔ جن اداروں کے سربراہان ان احکامات کی تعمیل نہیں کریں گے انہیں عہدہ چھوڑنا ہوگا۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ریاستی احکامات پر عملدرآمد ہر سرکاری افسر اور اہلکار کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جو افسر یا ملازم حکومت کی پالیسی کے مطابق کام نہیں کر سکتا، وہ رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑ دے۔ کسی بھی قسم کے سیاسی دباؤ کے بغیر اپنے فرائض انجام دینا ہر افسر کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ وزیراعلیٰ نے سختی سے واضح کیا کہ بلوچستان میں کسی بھی چیک پوسٹ پر بھتہ خوری برداشت نہیں کی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی مصدقہ شکایت موصول ہوئی تو متعلقہ ایس ایچ او یا لیویز کا رسالدار فوری طور پر قابل گرفت ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے ضلعی افسران کو ہدایت کی کہ وہ عوامی اجتماعات میں حکومتی پالیسیوں کی ترویج کریں اور لوگوں کو آگاہ کریں کہ بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے حکومت تعلیم و ترقی کے بھرپور مواقع فراہم کر رہی ہے۔ ملک دشمن عناصر بلوچ کو جس لاحاصل جنگ میں دھکیل رہے ہیں، اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا کلچر روایات کا امین ہے۔ جس میں مسافروں اور معصوم مزدوروں کا قتل وحشیانہ اقدام ہے۔ بلوچ ثقافت وہ نہیں جو آج مصنوعی طور پر مسلط کی جا رہی ہے۔ خواتین نے نقاب اتار پھینکا ہے اور مردوں نے منہ چپھا لئے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو لاحاصل جنگ کے بجائے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں میرٹ کو ہر سطح پر فروغ دیا جا رہا ہے، تاکہ نوجوانوں کا ریاست پر اعتماد بحال ہو۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پہلی جامع یوتھ پالیسی منظور کر لی گئی ہے۔ ضلعی افسران نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔ اخوت کے تعاون سے نوجوانوں کو روزگار کے لئے بلا سود قرضے فراہم کئے جا رہے ہیں، جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بینظیر بھٹو اسکالرشپ پروگرام کا آغاز بلوچستان سے کیا گیا ہے۔ ان تمام اقدامات کا عام نوجوانوں کو علم ہونا چاہئے اور ضلعی افسران ان کی بھرپور ترویج کریں تاکہ بلوچستان کے نوجوان ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سرفراز بگٹی نے بلوچستان میں نوجوانوں کو کہ بلوچستان پالیسیوں پر ضلعی افسران اجلاس میں نے کہا کہ انہوں نے جائے گا
پڑھیں:
چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
چینی صدر شی جن پنگ نے ہفتے کے روز ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (ایپیک) کے رہنماؤں کے اجلاس میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی نگرانی کے لیے ایک عالمی ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے چین خود کو تجارت کے میدان میں امریکا کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ صدر شی کے اس منصوبے کے بارے میں پہلے تبصرے تھے، جسے بیجنگ نے اس سال متعارف کرایا ہے، جب کہ امریکا نے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے ضابطے بنانے کی کوششوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ایپیک 21 ممالک پر مشتمل ایک مشاورتی فورم ہے، جو دنیا کی نصف تجارت کی نمائندگی کرتا ہے، جن میں امریکا، چین، روس اور جاپان شامل ہیں، اس سال کا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں منعقد ہوا ہے، جس پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی اور جارحانہ معاشی پالیسیوں (جیسے کہ امریکی محصولات اور چین کی برآمدی پابندیاں) کے سائے چھائے رہے جنہوں نے عالمی تجارت پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔
شی جن پنگ نے کہا کہ ’ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن‘ کے قیام سے نظم و نسق کے اصول طے کیے جا سکتے ہیں، اور تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے، تاکہ مصنوعی ذہانت کو ’بین الاقوامی برادری کے لیے عوامی مفاد‘ بنایا جا سکے۔
یہ اقدام بیجنگ کو خاص طور پر تجارتی تعاون کے میدان میں واشنگٹن کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، شی نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہے، اور اسے تمام ممالک اور خطوں کے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ یہ تنظیم چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں قائم کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایپیک سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، بلکہ شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد سیدھا واشنگٹن واپس چلے گئے۔
دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے نتیجے میں ایک سالہ معاہدہ طے پایا ہے، جس کے تحت تجارت اور ٹیکنالوجی پر عائد کچھ پابندیاں جزوی طور پر ہٹائی جائیں گی، جنہوں نے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا تھا۔
جہاں کیلیفورنیا کی کمپنی ’این ویڈیا‘ کے جدید چپس مصنوعی ذہانت کے عروج کی بنیاد بنے ہیں، وہیں چین کی کمپنی ’ڈیپ سِیک‘ نے کم لاگت والے ماڈلز متعارف کرائے ہیں، جنہیں بیجنگ نے ’الگورتھمک خودمختاری‘ کے فروغ کے لیے اپنایا ہے۔
شی نے ایپیک کو ’گرین ٹیکنالوجی کی آزادانہ گردش‘ کو فروغ دینے پر بھی زور دیا، ایسی صنعتیں جن میں بیٹریز سے لے کر سولر پینلز تک کے شعبے شامل ہیں، اور جن پر چین کا غلبہ ہے۔
ایپیک کے رکن ممالک نے اجلاس میں ایک مشترکہ اعلامیہ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ آبادی کے چیلنج پر معاہدے کی منظوری دی۔
چین 2026 میں ایپیک سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا، جو شینزین میں منعقد ہو گا، یہ شہر ایک بڑا صنعتی مرکز ہے، جو روبوٹکس سے لے کر برقی گاڑیوں کی تیاری تک کے میدان میں نمایاں ہے۔
شی نے کہا کہ یہ شہر، جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، کبھی ایک ماہی گیر بستی تھا، جو 1980 کی دہائی میں چین کے پہلے خصوصی اقتصادی زونز میں شامل ہونے کے بعد تیزی سے ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔