پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ٹی بی کا سب سے زیادہ بوجھ ہے؛ آصفہ بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
سٹی 42 : خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تپ دق کے عالمی دن پرہم اس بیماری کو ختم کرنے کے لئے پرعزم اورمتحد ہیں، موذی بیماری نے بہت زیادہ جانیں لی ئیں اور لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہ ہیں ۔
تپ دق کے عالمی دن پر آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ تپ دق صرف صحت کا مسئلہ نہیں یہ ایک سماجی انصاف کا مسئلہ بھی ہے جو غیر متناسب طور پر ہماری سب سے کمزور کمیونٹیز کو متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ٹی بی کا سب سے زیادہ بوجھ ہے۔
سروسز ہسپتال میں مریضوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں
انہوں نے کہا کہ حکومت، بین الاقوامی تنظیموں، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں، اور سول سوسائٹی کے ساتھ شراکت میں، ہمارے صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو مضبوط بنارہی ہے۔ آصفہ بھٹو نے کہا کہ حکومت تشخیص کو بہتر بنانے، اور سب کے لیے مفت، موثر علاج تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کر رہی ہے ۔
آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ خاتون اول کے طور پرصحت عامہ کے اقدامات کی حمایت اور ٹی بی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے سفر میں تعاون کرنے کے لیے پرعزم ہوں، ہمیں اس بیماری کی تشخیص کی حوصلہ افزائی اور متاثرہ افراد کے ساتھ یکجہتی کے لیے کھڑے ہونا چاہیے، جب روک تھام، علاج اور علاج کے آلات ہماری دسترس میں ہوں تو کسی کو خاموشی سے تکلیف نہیں اٹھانی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہر شہری سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ بیداری پیدا کرنے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، مل کر، ہم ایک صحت مند، ٹی بی سے پاک پاکستان کا اپنا وعدہ پورا کر سکتے ہیں ۔
Currency Exchange Rate Monday March 24, 2025
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: آصفہ بھٹو نے کہا کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
شام کی دہلیز سے عرب ممالک کو تقسیم کرنے کا خطرناک اسرائیلی منصوبہ
شام کی صورتحال اور اس ملک کے خلاف صیہونی رژیم کی جارحیت کے بارے میں اپنے تجزیات میں مصر کے اخبار الاہرام سمیت معروف عرب اخباروں نے اسرائیل کی بربریت اور گستاخی کو ہوا دینے والے عوامل کی طرف اشارہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ صیہونی رژیم کا مقصد تمام عرب ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شام کی صورتحال پر عرب حلقوں میں مختلف تجزیات سامنے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں مصر کے معروف ترین اخبار الاہرام نے اپنے مقالے میں عرب ممالک کو تقسیم کرنے پر مبنی صیہونی رژیم کے خطرناک منصوبے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے: "عرب ممالک کے بارے میں اسرائیل کے تسلط پسندانہ عزائم کے باعث یہ ممالک انتشار اور تقسیم کی سازش کا شکار ہیں۔" اخبار الاہرام مزید لکھتا ہے: "اسرائیل اس وقت کئی محاذوں پر لڑ رہا ہے اور امریکی حمایت اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے نام نہاد "گریٹر اسرائیل" منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر غور کر رہا ہے۔ واضح ہے کہ اسرائیل کے تسلط پسندانہ عزائم فلسطین سے آگے بڑھ کر شام اور لبنان تک پھیلے ہوئے ہیں جبکہ وہاں کے شہریوں کو جبری جلاوطنی کے ذریعے دیگر ممالک منتقل کرنے کی سازش بن رہی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسرائیل ان اقدامات کا پورا بوجھ اپنے کندھوں پر کیسے اٹھا سکتا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جو غاصب صیہونی رژیم کو عرب ممالک کے خلاف اس طرح کی بربریت اور جارحیت اور انہیں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں؟"۔
اس مصری اخبار نے تاکید کرتے ہوئے لکھا: "عرب ممالک کو تقسیم کرنے کی ان اسرائیلی سازشوں کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جیسے: عرب حکمرانوں کی خاموشی، امریکی سازش، مذہبی فرقہ واریت، خانہ جنگی، اندرونی تنازعات، اور غربت سے تنگ عوام۔ ان تمام سازشوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی اس خطے کے مستقبل کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا اور ہم ان تسلط پسندانہ عزائم کے تناظر میں خطے کی جو تصویر دکھائی دے رہی ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے اور سب سے خطرناک یہ ہے کہ اسرائیل اپنی بڑی آرزووں سے باز نہیں آئے گا۔" اس مقالے میں مزید آیا ہے: "حزب اللہ لبنان سے چھٹکارا پانا اسرائیل کے اہم ترین عزائم میں سے ایک ہے اور ان میں غزہ مزاحمت کی چٹان اور شام اس کا سب سے بڑا راز ہے۔ ایسے میں وہ گروہ بھی پائے جاتے ہیں جو اسرائیل سے سازباز میں مصروف ہیں"۔ یہ مصری اخبار مزید لکھتا ہے: "عرب دنیا کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے میں اسرائیل کی ممکنہ کامیابی مسئلہ فلسطین سے کہیں بڑی مصیبت ہو گی۔ اسرائیل نے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برسوں سے محنت کی ہے اور اس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کیونکہ عرب ممالک میں تقسیم اور خانہ جنگی کی صورت حال اسرائیل کے لیے راستہ کھول سکتی ہے۔ آج بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عرب ممالک اپنے عزم اور ارادے کو دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں؟"
اماراتی اخبار "الخلیج" نے بھی اسی موضوع پر رپورٹ دی ہے کہ شامی عوام اپنے متنوع فرقوں اور اعلیٰ مذہبی تنوع کے باوجود پوری تاریخ میں ایک متحد بلاک رہے ہیں۔ اس اخبار نے صیہونی رژیم کی طرف سے ملک کو درپیش بڑے خطرے اور اسے تقسیم کرنے کی سازش کے بارے میں خبردار کیا اور لکھا: "موجودہ حالات میں شام کی تقسیم کا خطرہ ہے اور اگر سمجھ دار شخصیات نے ان خطرات کا تدارک نہ کیا تو تباہی واقع ہو جائے گی"۔ اماراتی اخبار نے اس بات پر زور دیا کہ: "یقینا یہ تعین کرنا کہ شامی حکومت کی قیادت کسے کرنی چاہیے کسی کا کام نہیں ہے اور یہ خالصتاً اندرونی معاملہ ہے اور صرف شامی ہی اپنے ملک کی تقدیر اور مستقبل کا تعین کرنے کے اہل ہیں۔ تاہم، یہ دوسرے عرب ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شام میں خونریزی کو روکنے کے لیے بہترین طریقہ اختیار کریں اور جان لیں کہ جب ایک جنگ میں ایسے شامی عوام کا خون بہے گا جن کا اس جنگ میں کوئی کردار نہیں تو اس کا انتقام اور ردعمل بھی سامنے آئے گا اور حالات پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا"۔