عید پر “سوغاتِ مودی” سے 32 لاکھ مسلمان مستفید ہوسکیں گے
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے عیدالفطر کے موقع پر مسلمانوں کے لیے خصوصی “سوغاتِ مودی” پیکیج تیار کیا ہے جس سے مجموعی طور پر 32 لاکھ مسلمان مستفید ہوسکیں گے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے عیدالفطر پر غریب مسلمانوں کے لیے خصوصی کِٹ پیکیج تیار کیا ہے جس کی مدد سے وہ عید کی بہتر تیاری کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ اس خصوصی پیکیج کے تحت 32 لاکھ مسلمانوں کو جو پیکٹ دیے جائیں گے اُس میں خشک میوہ، کھانا، سویاں، کپڑے، رومال اور دیگر اشیا شامل ہوں گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے 32 ہزار کارکن 32 ہزار ہزار مساجد میں یہ عید گفٹ تقسیم کریں گے۔ دیگر اقلیتوں کے تہواروں مثلاً گڈ فرائیڈے اور نوروز وغیرہ پر بھی اِسی پروگرام کے تحت تحائف تقسیم کیے جائیں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اِسی سال بہار اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس پیکیج کا مقصد بظاہر یہی ہے کہ اسمبلی الیکشن کے لیے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔ بی جے پی مائنورٹی مورچا کے سربراہ جمال صدیقی کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم نریندر مودی تمام اقلیتوں کے تہواروں پر اُن کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
"ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جسکے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فلم "ادے پور فائلز" کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کیا ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ فلم ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتی ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق فلم میں جان بوجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا دکھاتا ہے، جو سراسر غلط، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس فلم کے مندرجات میں تعصب اور نفرت چھپی ہوئی ہے، جو ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حلف نامے میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی اسکریننگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے فلم میں صرف چھ معمولی ترامیم کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بالکل ناکافی ہیں اور کمیٹی نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ اعتراضات کو نظرانداز کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جس کے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ علماء ہند نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ فلم کی ایک نجی اسکریننگ کرائی جائے تاکہ معزز جج صاحبان خود اس کے مواد اور مقصد کا اندازہ لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کی ریلیز ملک کے پُرامن ماحول کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے اس فلم پر عبوری پابندی عائد کی تھی، جسے فلم سازوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 16 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے پابندی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکز کی اسکریننگ کمیٹی کو اعتراضات پر فوری غور کرنا چاہیئے۔