امارات میں 5 خواتین سمیت 10 پاکستانی بھکاری گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
---فائل فوٹو
متحدہ عرب امارات میں اتھارٹیز نے 5 خواتین سمیت 10 پاکستانیوں کو بھیک مانگتے ہوئے گرفتار کر لیا جو جیل میں ہیں، یو اے ای حکام نے پاکستانی اتھارٹیز کو آگاہ کر دیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ذرائع کے مطابق پنجاب کے ضلع وہاڑی کی رہائشی 3 خواتین آمنہ بی بی، کوثر بی بی، فرزانہ بی بی، لاہور سے تعلق رکھنے والی جمیلہ بی بی اور زبیدہ بی بی کو متحدہ عرب امارات میں مختلف کارروائیوں کے دوران بھیک مانگتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق گرفتار کی گئی خواتین کو جیل بھیج دیا گیا ہے، انہیں پاکستان بے دخل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں پولیس نے کارروائی کر کے 4 رکنی بھتہ خور گینگ کو ماسٹر مائنڈ سمیت گرفتار کرلیا۔
حکام کے مطابق اسی طرح کی کارروائیوں میں ڈی جی خان کے رہائشی محمد زکریا، بہاول نگر کے وسیم حیدر، لاہور کے محمد عثمان، چار سدہ کے اعجاز خان اور پشاور کے عبداللّٰہ کو بھی بھیک مانگتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی کے مطابق ان 5 افراد کو پاکستان ڈی پورٹ کرنے کے لیے ایمرجنسی پاسپورٹس تیار کر لیے گئے ہیں، پاکستان پہنچنے پر انہیں بھی گرفتار کر کے کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ
لاہور:پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا اور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جنوری تا دسمبر 2024 کے دوران پنجاب میں خواتین پر ہونے والے 4 سنگین جرائم ، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا، لیکن نظامِ انصاف کی ناکامی نے متاثرہ خواتین کو انصاف سے دور رکھا۔
رپورٹ کی تیاری کے لیے ایس ایس ڈی او نے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے تحت دستیاب ڈیٹا اکٹھا کیا اور اسے اضلاع کی آبادی کے تناسب سے کرائم ریٹ کے فارمولے کے ذریعے تجزیہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق لاہور میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ 532 واقعات رپورٹ ہوئے، جس کے بعد فیصل آباد میں 340 اور قصور میں 271 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے باوجود سزا کے تناسب انتہائی کم رہا۔
لاہور میں صرف 2 اور قصور میں 6 ملزمان کو ہی مجرم قرار دیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے قصور میں فی لاکھ 25.5 اور پاکپتن میں 25 واقعات رپورٹ ہوئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹے اور دیہی اضلاع میں خواتین کو خطرات لاحق ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے جرائم میں فیصل آباد سرِ فہرست رہا جہاں 31 واقعات پیش آئے، جب کہ راجن پور اور سرگودھا میں 15-15 کیسز رپورٹ ہوئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام مقدمات میں کسی کو سزا نہیں دی گئی، تاہم فی صد آبادی کے حساب سے راجن پور میں 2.9 اور خوشاب میں 2.5 فی صد کے تناسب نے اس رجحان کی شدت کو اجاگر کیا۔
اغوا کے حوالے سے لاہور میں 4,510 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 5 ملزمان کو سزا ہوئی۔ فیصل آباد میں 1,610، قصور میں 1,230، شیخوپورہ میں 1,111 اور ملتان میں 970 شکایات درج ہوئیں، لیکن کسی کو بھی عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی۔آبادی کے تناسب سے لاہور کا کرائم ریٹ فی لاکھ 128.2، قصور 115.8 اور شیخوپورہ 103.6 رہا۔
گھریلو تشدد کے کیسز میں گجرانوالہ نے سبقت لے لی جہاں 561 شکایات موصول ہوئیں، جب کہ ساہیوال میں 68 اور لاہور میں 56 مقدمات درج ہوئے۔ ان تمام واقعات میں بھی سزاؤں کا تناسب صفر رہا اور فی لاکھ آبادی کے لحاظ سے گجرانوالہ میں 34.8 اور چنیوٹ میں 11 کے اعداد و شمار نے اس نوعیت کے جرائم کی سنگینی کو واضح کر دیا۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیّد کوثر عباس نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس نے رپورٹنگ کے نظام کو بہتر بنایا ہے مگر عدالتوں میں کیسز کا مؤثر تعاقب نہ ہونے کے باعث سزائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے پاس وہ واقعات بھی پہنچتے ہی نہیں جو متاثرین رپورٹ نہیں کرا پاتے یا روک دیے جاتے ہیں اور اس لیے عدالتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات ناگزیر ہیں تاکہ خواتین بروقت ویمن سیفٹی ایپ اور ورچوئل پولیس اسٹیشن کے ذریعے اپنے کیس درج کرا سکیں۔
ایس ایس ڈی او کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز شاہد خان جتوئی نے بتایا کہ اغوا کے پیچھے انسانی اسمگلنگ، جبری تبدیلی مذہب، تاوان اور زیادتی جیسے سنگین جرائم چھپے ہیں جن کے لیے فوری ریاستی مداخلت درکار ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ رپورٹ میں شامل نقشہ جات اور ضلعی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ کئی چھوٹے اضلاع بڑے شہروں سے کہیں زیادہ متاثر ہیں۔
رپورٹ کو ایک ہنگامی وارننگ قرار دیتے ہوئے ایس ایس ڈی او نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس، عدلیہ اور متعلقہ ادارے مشترکہ طور پر فوری اصلاحات کریں، قانونی عملدرآمد کو مؤثر بنائیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔